سیاسیات- اسرائیلی فوج کے چونکا دینے والے بیان میں اعتراف کیا گیا ہے کہ جس کارروائی میں حماس کے سربراہ کو قتل کیا گیا اس کے اگلے 24 گھنٹوں بعد تک بھی ہمیں اندازہ نہیں یہ تھا کہ یہ یحییٰ السنوار ہوسکتے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق اسرائیلی فوج کی 828 ویں بسلاماچ بریگیڈ کا ایک یونٹ بدھ کو رفح کے علاقے تل السلطان میں معمول کے گشت پر تھا۔
جس کے دوران اسرائیلی فوجیوں کو 3 مسلح جنگجوؤں کی موجودگی کی اطلاع ملی جو فوج کو دیکھ کر ایک کے بعد دوسری عمارت میں چھلانگ لگا رہے تھے اور مقابلہ کرتے جا رہے تھے۔
اسرائیلی فوج نے ایک عمارت میں تینوں کو محصور کردیا جن میں سے 2 مارے گئے۔ عمارت میں بھیجے گئے ڈرون میں ایک زخمی جنگجو کو دیکھا گیا۔
اسرائیلی فوج نے اُس آخری جنگجو کو بھی نشانہ بنایا اور اسے معمول کی ایک کارروائی اور جنگجوؤں کو عام مزاحمت کار سمجھ کر لاشیں لیے بغیر واپس چلے گئے۔
بعد ازاں اسرائیلی فوجی کارروائی مکمل کرنے کے لیے اگلے روز واپس آئے اور لاشوں کو دیکھا تو ایک لاش کی یحییٰ السنوار سے مشابہت نظر آئی۔
جس پر تینوں لاشوں کو اسرائیل لے جانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن پھر فوجیوں نے سوچا کہ ممکنہ طور پر یہ حماس کا کوئی ٹریپ بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے باڈی لے جانے کے بجائے ایک انگلی کاٹ کر بھیج دی گئی۔
مشتبہ لاش کی انگلی کے فرانزک ٹیسٹ اور ڈی این اے سے جمعرات کی رات تصدیق ہوگئی کہ جس شخص کی تلاش میں سال بھر سے در در کی خاک چھانی جا رہی ہے یہ مشتبہ لاش اُسی یحییٰ السنوار کی ہے۔
اس تصدیق کے بعد مزید نفری طلب کی گئی اور پورے علاقے کا محاصرہ کرکے ایک محفوظ راہداری بنائی گئی جس کے ذریعے لاش کو اسرائیل منتقل کیا گیا۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہگاری نے بتایا کہ فوجیوں کو معلوم نہیں تھا کہ جن جنگجوؤں کا وہ تعاقب کر رہے ہیں ان میں یحییٰ السنوار بھی شامل ہیں۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے مزید کہا کہ تین میں سے دو کو مارنے کے بعد تیسرا چھلانگ مار کر دوسری عمارت میں داخل ہوگیا جسے ڈرون کے ذریعے تلاش کیا گیا اور وہیں ختم کردیا گیا تھا جس کی بعد میں یحییٰ السنوار کے طور پر شناخت ہوئی۔
کارروائی کے دوران یحییٰ السنوار کے اپنے صرف 2 محافظوں کے ساتھ ملنے پر اسرائیلی فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ وہاں یرغمالی نہیں تھے جنھیں یحییٰ انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرسکتا تھا۔
اسرائیلی ترجمان نے مزید بتایا کہ یحییٰ السنوار کے مختصر سے دستے کے رہتے تھے تاکہ یا تو کسی کا دھیان نہیں جائے یا پھر ان کے متعدد محافظ مارے گئے اور وہ زندہ بچ جانے والے صرف دو محافظوں کے ساتھ تھے۔
یحییٰ السنوار کی شہادت کے اسرائیلی فوج کے اعلان کے چند منٹوں کے اندر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تصاویر میں ایک لاش دکھائی گئی جس کی یحییٰ السنوار سے کافی مماثلت تھی۔
لاش کے سر پر گہرے اور تباہ کن زخم آئے تھے۔ تاہم اسرائیلی حکام نے خبردار کیا تھا کہ فی الوقت تین میں سے بھی ایک لاش کی شناخت کی تصدیق نہیں ہوسکی۔
اس کے کچھ ہی دیر بعد، اسرائیلی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ یحییٰ السنوار کے قتل ہونے امکانات قوی ہوگئے ہیں تاہم تصدیق کے لیے پہلے تمام ضروری ٹیسٹ کرائے جائیں گے۔
ان ٹیسٹوں میں زیادہ وقت نہیں لگا اور جمعرات کی رات اسرائیل نے اعلان کیا کہ لاش کے دانتوں کے ڈی این اے سے تصدیق ہوگئی کہ لاش یحییٰ السنوار کی ہے۔
اسرائیلی فوج نے بتایا کہ اگرچہ السنوار کو ٹارگٹڈ آپریشن میں ہلاک نہیں کیا گیا لیکن کئی ہفتوں سے رفح کے تباہ حال علاقوں میں ان کی تلاش جاری تھی کیوں کہ انٹیلی جنس نے یہاں ان کی موجودگی کا اشارہ دیا تھا۔
بقول اسرائیلی فوج مختصراً یہ کہ ہم نے یحییٰ السنوار کے گرد اتنا گھیرا تنگ کردیا کہ وہ رفح تک محدود ہونے پر مجبور ہوگئے تھے اور بالآخر ہم نے انھیں جا لیا لیکن یہ سب اتنا غیرمتوقع اور آسان ہوگا۔ اس کا اندازہ نہ تھا۔