سیاسیات ۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیشی فوج کے پبلک ریلیشن ڈپارٹمنٹ نے ملک سے کرفیو اٹھانے کا اعلان کیا جب کہ ملک میں تعلیمی ادارے بھی کھول دیے گئے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دارالحکومت ڈھاکہ سمیت مختلف شہروں میں اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں کھول دی گئی ہیں مگر طلبہ کی تعداد بہت کم ہے جب کہ ڈھاکہ کی یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلبہ کی ایک بڑی تعداد تعلیمی اداروں کی بندش اور ملکی حالات کی وجہ سے اپنے آبائی علاقوں کو چلی گئی تھی جن کی واپسی میں اب وقت لگے گا۔
رپورٹس کے مطابق بنگلہ دیش میں اساتذہ کی تنظیم ‘یونیورسٹی ٹیچرز نیٹ ورک’ آج میٹنگ میں تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی سے متعلق آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔
دوسری جانب گارمنٹس مینوفیکچررز نے اعلان کیا ہےکہ آج ملک بھر میں گارمنٹس فیکٹریاں بند رکھی جائیں گی اور فیکٹریاں کھولنے کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ
بنگلہ دیش میں ایک ماہ سے جاری پرتشدد مظاہروں اور ان میں سیکڑوں ہلاکتوں کے بعد 5 اگست کو بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد استعفیٰ دے کر ملک سے فرار ہوگئیں۔
بنگلہ دیشی فوج نے وزیراعظم حسینہ واجد کو مستعفی ہونے کے لیے 45 منٹ کی ڈیڈ لائن دی تھی۔
خبر ایجنسی کے مطابق شیخ حسینہ واجد نے محفوظ مقام پر منتقلی سے قبل تقریر ریکارڈ کرانے کی کوشش کی مگر انہیں تقریر ریکارڈ کرانے کا موقع نہیں دیا گیا۔
بنگلہ دیش میں احتجاج کب اور کیوں شروع ہوا؟
یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں 1971 کی جنگ لڑنے والوں کے بچوں کو سرکاری نوکریوں میں 30 فیصد کوٹہ دیے جانے کے خلاف گزشتہ ماہ کئی روز تک مظاہرے ہوئے تھے جن میں 200 افراد ہلاک ہوئے جس کے بعد سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم کو ختم کردیا تھا مگر طلبہ نے اپنے ساتھیوں کو انصاف نا ملنے تک احتجاج جاری رکھنے اور سول نافرمانی کی کال دے تھی۔
پرتشدد احتجاج میں 300 ہلاکتیں
بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم مخالف طلبہ کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان کے بعد پرتشدد احتجاج میں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 300 سے تجاوز کرگئی تھی۔
شیخ حسینہ کا اقتدار
شیخ حسینہ واجد 16 سالہ اقتدار کے نتیجے میں ملک کی طویل ترین وزیراعظم رہیں، وہ اسی سال چوتھی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں جب کہ حسینہ واجد پر سیاسی مخالفین کے خلاف اقدامات کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں اور حال ہی میں ان کی حکومت نے بنگلہ دیشی جماعت اسلامی پر پابندی لگائی تھی۔