تحریر: نسیم حیدر
ہرگزرتے لمحے اسرائیل پر ہیبت ناک حملوں اور چومکھی لڑائی میں مزید سنگین انداز سے پڑنے کا امکان بڑھ رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ فلسطینی،ایرانی ،لبنانی، شامی اور عراقی حکومتوں کو خود مختاری سے بھی بڑھ کر اب غیرت اورامیج کا مسئلہ درپیش ہے۔
فلسطین کے سابق وزیراعظم اسماعیل ہنیہ کی تہران میں اور لبنان کی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کے دست راست و سینئر ترین کمانڈر سید فواد شُکرکی بیروت میں میزائل حملے سے شہادت نے ایران اور لبنان کی خود مختاری ایسے پامال کی ہے کہ متناسب جواب کے بغیردونوں ملکوں کا امیج بہترہونا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔
شہادت کے ان غیرمعمولی واقعات کے باوجود یہ بات یقینی تھی کہ اسرائیل کیخلاف جوابی کارروائی فوری طور پر نہیں کی جائے گی۔ اس کی بنیادی وجہ فلسطین کے سابق وزیراعظم کی پورے اعزاز کے ساتھ پہلے تہران میں نماز جنازہ کی ادائیگی اور پھر دوحہ میں تدفین تھی، فواد شُکر کی بیروت میں تدفین بھی اس وقت باقی تھی جس میں ہزاروں افراد کو شرکت کرنا تھی۔
فوری حملہ نہ ہونے کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایران، لبنان اور شام کسی بھی بڑی کارروائی سے پہلے اقوام متحدہ اور یورپ کو موقع دینا چاہتے ہیں کہ وہ اسرائیل کیخلاف مؤثر آواز اٹھائیں، ساتھ ہی مسلم ممالک کی نبض بھی دیکھی جارہی ہے کہ یہ حکومتیں کس حد تک ساتھ دیں گی کیونکہ اس بار ماضی سے کہیں بڑا اور کڑا امتحان درپیش ہے۔
یہ ایک ایسا نازک موقع ہے جو نہ صرف مشرق وسطی کے کئی ممالک کو جنگ کی لپیٹ میں یا افراتفری کا شکار کرسکتاہے۔بلکہ جنگ پھیلی تو اسکے اثرات روس اور چین پر بھی ہوں گے۔روس پہلے ہی یوکرین جنگ میں الجھا ہوا ہے اور چین کو اقتصادی پابندیوں میں بری طرح جکڑا جارہا ہے۔
اہم سوال یہ بھی ہے کہ سات اکتوبر کو اسرائیل پرفلسطینیوں کے حملے کے جواب میں تل ابیب نے جس طرح غزہ کو کھنڈر اور فلسطینیوں کے قبرستان میں بدلا ہے، اگر ایران یا لبنان ٹھوس جوابی کارروائی کرتے ہیں تو کیا وہ کھلی جنگ کے لیے تیار ہیں؟ آخر یہ جنگ محض اسرائیل سے نہیں بلکہ بڑی حد تک نیٹو ممالک سے ہوگی۔
یہ تو واضح ہے کہ اس بار ایران وہ علامتی جواب نہیں دے گاجیسا کہ ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو بغداد انٹرنیشنل ائرپورٹ پر جنوری سن دوہزار بیس میں نشانہ بنائے جانے پر عراق میں امریکی ائربیس پر حملے کرکے دیا گیا تھا۔
شاید ایران وہ جواب بھی نہیں دے گا جو شام میں اپنے سفارتخانے پراس سال اپریل میں کی گئی اسرائیلی بمباری اوراسکے نتیجے میں پاسداران انقلاب کے بریگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی اور انکے نائب بریگیڈیئرجنرل محمد ہادی حاجی رحیمی سمیت سات افراد کی شہادت کا بدلہ لینے کیلئے تل ابیب پر میزائلوں کی بارش کی صورت میں کیا گیا تھا۔
وجہ یہ ہے کہ دونوں واقعات میں امریکہ اور اسرائیل کا جانی اور مالی نقصان تقریباً نہ ہونے کے سبب یہ کارروائیاں علامتی ردعمل تصور کی گئی تھیں۔
اس بار ایران کیلئے سب سے اہم سوال یہ بھی ہے کہ گھس بیٹھیے تھے کون؟ اسماعیل ہنیہ کو قریبی عمارت سے فائر میزائل حملے میں مارا کس نے؟ کیا یہ خود اعتمادی کی ہرحد پار کرنا نہ تھا کہ اسماعیل ہنیہ کو ایک ایسی عمارت کے بالائی حصے میں ان کمروں میں ٹہرایا گیا جو باہر سے با آسانی نشانہ بنائے جاسکتے تھے؟
یہ باعث حیرت ہوگا کہ اس عمارت کی سی سی ٹی وی ویڈیو موجود نہ ہو، وہ سمت متعین کرنا دشوار نہیں ہونا چاہیے جہاں سے میزائل فائر کیا گیا۔علاقے کی پہرہ داری پر مامور مگر سنگین ترین غفلت میں ملوث افراد کے چہرے تلاش کرنا اورانہیں منطقی انجام تک پہنچانا یقینا پہلی ترجیح ہوگی کیونکہ یہ ایرانی قوم کو اعتماد دے گا کہ گھس بیٹھیوں کی ملک میں جگہ نہیں۔
یعنی بیرونی دشمن سے پہلے اندرونی دشمن پر زمین تنگ کرنا ہوگی۔آخر ماضی میں بھی سائنسدانوں سمیت کئی اہم شخصیات کو ایران میں بموں کا نشانہ بنایا جاچکا ہے،ایسے میں اسماعیل ہنیہ کی سکیورٹی میں ناکامی پرسوال اٹھنا غیرمنطقی نہیں۔
جو صورتحال ایران کو درپیش ہے، کم و بیش اسی کا سامنا لبنان کی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کو بھی ہے۔ حزب اللہ کیلئے بھی یہ فیصلہ کن کارروائی کا وقت ہے،غزہ کے فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیلی جنگ کے تین سو روز میں حزب اللہ کی جانب سے ڈھائی سو حملوں کا دعوی اپنی جگہ، مزاحمتی تنظیم کو جو ضرب اسرائیل نے پہنچائی ہے،دنیا جانتی ہے کہ وہ گھاو ان کارروائیوں سے مندمل نہیں ہوسکتا۔
فلسطینی جن کا سابق وزیراعظم تہران میں مارا گیا، ان کے پاس آپشنز نہ ہونے کے برابر ہیں۔مزاحتمی تنظیموں کی جانب سے اسرائیل کے فوجی اہداف پرحملے اپنی جگہ، حماس سمیت دیگر مزاحمتی تنظیموں کے پاس سب سے اہم ہتھیار سو کے قریب یرغمالی ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ کہیں ان بے گناہ افراد کو نہ ماردیا جائے اور زندہ یرغمالیوں کی بجائے لاشوں کی حوالگی پر مذاکرات ہوں۔
اسرائیل پر ایران اپنے تمام اتحادیوں کے ساتھ ایک ساتھ حملہ کرے جسکا قومی امکان بھی ہے یا ہر ملک انفرادی کارروائیاں اپنائے، یہ طے ہے خطے میں کشیدگی اور خونریزی بڑھےگی، اسکا امریکہ میں نقصان کسے ہوگا، یہ ذکر اگلی بار۔
بشکریہ جیو نیوز