تحریر: سید اعجاز اصغر
انبیاء کرام علیہم السلام لوگوں کو خدا پرستی کی دعوت دیتے تھے اور طاغوت کی پیروی سے روکتے تھے، اس سلسلے میں خداوندمتعال فرماتا ہے
ہم نے تو ہر امت میں ایک نہ ایک رسول اس بات کے لئے ضرور بھیجا کہ لوگو خدا کی عبادت کرو، اور بتوں کی عبادت سے بچے رہے،
اس چیز کے پیش نظر یہ بات قبول نہیں کی ہے کہ اسلام نے انسان کو اپنے علاوہ یہاں تک کہ خدا کی اطاعت سے بھی منع کردیا ہے اور یہ طے ہے کہ جو مذہب ہم کو خدا کی اطاعت کی دعوت نہ دے وہ باطل ہے، اور جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کا مقصد خدا کی مطلق طور پر اطاعت کرنے کی دعوت دیتا ہے، ہماری موت و حیات اسی سے وابستہ ہے،
ہم تو خدا کے لئے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں،
اب ہم نے جب خداوندمتعال کو اپنا حقیقی مالک مان لیا تو پھر کس طرح یہ بات قبول کی جا سکتی ہے کہ خدا کو ہمیں حکم دینے اور فرمان صادر کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، کیا مالکیت اس کے علاوہ ہے کہ مالک جس طرح بھی چاہے اپنی چیز میں تعریف کرے، ؟
لہذا یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ کوئی یہ کہے کہ ہم نے اسلام قبول کر لیا ہے لیکن ہم خدا کی بندگی کے قید و بند سے آزاد ہیں، کیونکہ اس طرح کی مطلق آزادی نہ صرف یہ کہ اسلام قبول کرتا ہے بلکہ اس کو تو عقل بھی قبول نہیں کرتی،
اسلام آزادی کا نعرہ لگاتا ہے لیکن غیر خدا اور طاغوت کی عبادت و اطاعت سے آزادی و رہائی کا نعرہ لگاتا ہے، خداوندمتعال کی اطاعت سے آزادی کا نعرہ نہیں لگاتا، اگرچہ انسان آزاد و مختار پیدا کیاگیا ہے لیکن تشریعی و قانونی طور پر خدا کی اطاعت کا پابند و مکلف ہے، یعنی ہم اپنے ارادہ اختیار سے خدا کی اطاعت کریں اور یہ طے ہے کہ خلقت کے اعتبار سے ہر مخلوق پر بندگی اور عبودیت کی مہر لگی ہوئی ہے، تکوینی طور پر کوئی بھی خدا کی بندگی کے لیبل سے خالی نہیں ہے، ہر موجود کی پستی اس کی عین بندگی ہے،
امام حسین علیہ السّلام کے دور میں اسلام کے اندرونی بیرونی دشمنوں سے مقابلہ کرنا بہت بڑا چیلنج تھا، بیرونی دشمن غیر مسلم اور اندرونی دشمن مسلمان تھے، اسلام قدرت کاملہ کا ایک قوی اور عظیم مظہر ہونے کے ناطے اسے درپیش خطرات سے نمٹنے کے لئے جو اس کے ظہور سے پہلے یا ظہور کے بعد سے لاحق تھے اللّٰہ تعالی کی طرف سے پہلے ہی منصوبہ بندی کی گئی ہے، اسلام کے دونوں دشمنوں اندرونی و بیرونی کے لئے ان سے نمٹنے کیلئے جہاد کو ان کا علاج قرار دیا ہے، انبیاء کرام علیہم و محمد و آل محمد علیہم السّلام نے جہاد فی سبیل اللہ کو اپنی زندگی کا اولین فرض سمجھا ہے، مگر جس طرح امام حسین علیہ السّلام نے دین اسلام کی لاج رکھی نہ کوئی نبی نہ کوئی رسول رکھ سکا،
سر دے کے لاج رکھ لی محمد کے دین کی ،
اسلام کی بقا ہے شہادت حسین کی،
انبیاء کرام و محمد و آل محمد علیہم السّلام نے توحید کی تبلیغ کو اولین ترجیحات میں شامل کر کے زندگی گزاری ہے، مگر جس طرح امام حسین علیہ السّلام نے میدان کربلا میں بیرونی نہیں اندرونی دشمنوں کا مقابلہ کیا ہے اس کی مثال قیامت تک نہیں مل سکتی، اندرونی دشمن نام نہاد مسلمان تھے جنہوں نے واقعہ کربلا کے بعد رسول خدا کی نواسیوں ، نواسوں اور اصحاب حسین علیہ السّلام سے جو ناروا سلوک کیا باضمیر انسان کا جگر پارہ پارہ ہو جاتا ہے، جیسا کہ
اسیرانِ کربلا کی شام کیطرف روانگی کا سفر نام نہاد مسلمانوں کی نگرانی میں انتہائی سفاکیت، ظلم و بربریت دل سوز مناظر پیش کرتا ہے کہ
ابنِ زیاد ملعون نےیزید کےحکم کےمطابق آلِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کےان قیدیوں کو یزید کےپاس روانہ کرنیکے انتظامات شروع کر دیئے۔
قیدیوں کو رسیوں میں باندھ دیاگیا۔
سیدالشہداء امام حسین علیہ السّلام کےوارث امام سجاد علیہ السّلام کےگلے میں لوہےکا طوق، ہاتھوں میں زنجیریں اور پاؤں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں۔
اونٹ پر بٹھانے کےبعد مولا امام زین العابدین علیہ السّلام کےپیروں میں دوبارہ رسی باندھ کر اس رسی کو اونٹ کے پیٹ کے نیچے کس دیاگیا۔
ایک اور رسی آپ علیہ السّلام کی گردن میں باندھی گئی اور اسکا دوسرا سرا اونٹ کےکجاوے سےباندھ دیاگیا تاکہ سفر کےدوران وہ اونٹ سےنیچے نہ گر پڑیں۔
آلِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کےان معصوم قیدیوں کیلئے ابنِ زیاد نےاپنے فوجیوں کو بہت واضح ہدایات دی تھیں۔
اس نےکہاتھا کہ
قیدیوں کو کھانے پینے کیلئے اتناہی دیا جائےکہ یہ لوگ زندہ رہ سکیں۔
سواریوں کے تھکنےکیوجہ سےکسی جگہ ٹھہرنا ہو اور وہ دن کاوقت ہوتو ان تمام قیدیوں کو دھوپ میں بٹھایا جائے۔
جہاں تک ممکن ہو انہیں بھوکا پیاسا رکھا جائے،
جس شہر کےقریب سےگزریں وہاں لوگوں کو جمع کرکے قیدیوں اور سروں کی نمائش ضرور کی جائے۔
کسی شہر میں داخلے سےکئی میل پہلےقیدیوں کو اونٹوں سےاتار کر شہر کےاندر پیدل لےجایا جائے۔
اسی طرح نمائش کےبعد انہیں پیدل ہی شہر سےباہر اپنے کیمپ تک لایاجائے۔
ابنِ زیاد ملعون کی یہ ظالمانہ ہدایات رسولِ اسلام محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اور انکے گھرانے سےاسکی نفرت کامنہ بولتا ثبوت تھیں۔
قارئین محترم!
بالآخر ان تمام ظالمانہ احکامات کیساتھ رسولِ خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کےخاندان کی قیدی عورتوں اور بچوں کا یہ قافلہ کوفہ سےشام کیطرف روانہ ہوگیا۔
راستے تماشائیوں سےبھرے ہوئے تھےیہ سارے تماشائی کافر، مشرک، یہودی یا عیسائی نہیں تھے بلکہ یہ سب لوگ رسولِ خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ پڑھتے تھےاور انکی آنکھوں کے سامنے انکے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلبیت علیہم السّلام کو انتہائی ذلت ورسوائی کاسامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
تماشائیوں کےاس ہجوم میں اہلبیت علیہم السّلام کے چاہنےوالے بھی موجود تھےمگر انکی تعداد آٹے میں نمک کےبرابر تھی۔
زیادہ تر شیعانِ اہلبیت علیہم السّلام کوفہ کےٹارچر سیلوں میں بند تھےیا کربلا کےمعرکے میں شھید ہو چکے تھے۔
بہت سےلوگ منہ پھیر پھیر کر رو رہے تھےاور انکے دلوں میں نفرت وانتقام کی چنگاریاں سلگ رہی تھیں۔
جب امام حسینؑ کے تمام اصحاب اور یاران شہید ہوگئے اور آپؑ اکیلے رہ گئے تو آپؑ نے یہ جملے زبان پر جاری کئے
:
کیا کوئی دفاع کرنے والا ہے جو حرم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کا دفاع کرے ؟
کیا کوئی خوف خدا رکھنے والا ہے جو ہمارے بارے میں خدا سے ڈرے ؟
کیا کوئی فریادرس ہے جو ہماری فریاد کو سن کر اللہ سے امیدوار ہو ؟
کیا کوئی مدد کرنے والا ہے جو ہماری مدد کر کے اللہ کی عطا کا امیدوار ہو ؟
قارئین محترم !
مذکورہ بالا ظلم و ستم کرنے والے کلمہ گو مسلمان تھے، جن کو بے نقاب کرنے کے لئے ہر سال محرم الحرام اور سفر المظفر کے مہینوں میں مجالس عزا برپا ہوتی ہیں تاکہ ظالم اور مظلوم کی پہچان ہو سکے، امام زین العابدین علیہ السّلام فرماتےہیں کہ میں چالیس سال ناحق خون کے آنسو نہیں رویا، میرے سامنے ایک دن میں بہتر جگر کے ٹکڑے ہوئے ہیں، جس طرح میں کربلا نہیں بھولا لوگو تم بھی کربلا نہ بھولنا، قیامت تک حق کے قاتل کو بے نقاب کرتے رہنا،
کاش کہ واقعہ کربلا کے بعد لوگ شیعہ سنی تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امام حسین علیہ السّلام کے استغاثہ کو سمجھ جاتے، حق کے قاتل کو بے نقاب کر تے رہتے، تو آج کشمیر، فلسطین میں طاغوتی و استعماری طاقتیں قتل و غارت گری کا بازار گرم نہ کرتیں، مظلوم کی دادرسی ہوتی اور ظالم کی بیخکنی ہوجاتی، ظلم و ستم کے نظام کا قلع قمع ہو جاتا، اسی ظلم و ستم کے بازار کو بند کرنے کے لئے قیامت تک امام حسین علیہ السّلام کا استغاثہ
ھل من ناصر ینصرنا کی صدائیں کشمیر و فلسطین، بوسنیا، شام، عراق کے میدان جنگوں میں گونج رہی ہیں اور اقتدار کے ایوانوں میں تقاضا کررہی ہیں کہ کون حسینی ہے ؟
کون یزیدی ہے ؟