نومبر 25, 2024

پاراچنار ایک بار پھر بارود کی لپیٹ میں

رپورٹ: ید اللہ حسینی

ملک کی مغربی سرحد پر موجود دیگر بدقسمت قبائل کی طرح کرم بھی ملک کا ایک ایسا خطہ ہے، جو تقریباً سال میں 12 مہینے لڑائی جھگڑوں کی لپیٹ میں ہوتا ہے۔ بلکہ پاراچنار دیگر قبائل سے اس حوالے سے دو ہاتھ آگے ہے۔ وہ یوں کہ دیگر قبائل میں بدامنی کی فضا طالبان کی آمد کے ساتھ شروع ہوئی ہے، جبکہ پاراچنار میں یہ فضا گذشتہ ڈیڑھ سو سال سے قائم ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں سے اپر کرم کے علاقوں بوشہرہ اور مالی خیل کے مابین کھیتوں میں فصل خریف کی بوائی کے مسئلے پر کشیدگی پائی جاتی تھی۔ جس میں انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی نے مداخلت اور مصالحت کرتے ہوئے محرم کے ایام عزا کے بعد یعنی 16 محرم کو مسئلہ حل کرنے کی یقین دھانی کرائی تھی۔ 16 محرم تک جب کوئی جواب نہ ملا تو مسئلے نے دوبارہ سر اٹھا لیا۔

تاہم انجمن اور تحریک نیز دیگر عمائدین نے دوبارہ جا کر حالات پر قابو پالیا، یوں کہ سرکاری ذمہ داران کے ہمراہ بوشہرہ اور مالی خیل کے عمائدین کے ساتھ کامیاب مذاکرات عمل میں آگئے، طے یہ پایا کہ عمائدین خود جا کر اسی دن یعنی بدھ 24 جولائی کی شام کو مالی خیل کی ملکیتی زمین میں ٹریکٹر سے ہل چلائیں گے۔کامیاب مذاکرات کی یہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی اور لوگوں کو امن کا یقین ہوگیا۔ مگر جب شام کو ہل چلانے کی غرض سے ٹریکٹر لائے گئے تو اہلیان بوشہرہ نے راست جواب بھیج دیا کہ ٹریکٹرز واپس کریں۔ ٹریکٹرز کی واپسی کے ساتھ ہی حالات کشیدہ ہوگئے۔ شام تک فریقین نے اپنے مورچے سنبھال لئے۔

نماز مغرب کے قریب مالی خیل اور بوشہرہ کے مابین فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا اور جنگ چھیڑ گئی۔ اس کے ساتھ ہی اپر اور لوئر کرم کے اکثر محاذوں پر کشیدگی بڑھتی گئی۔ رات 10 بجے بالش خیل جبکہ رات کو ایک بجے تائیدہ کے محاذ پر بھی جنگ چھیڑ گئی۔ تائیدہ کے محاذ پر گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ گاؤں پر حملہ کے نتیجے میں فریقین کو کافی جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ طوریوں کے 30 کے قریب لوگ ہینڈ گرینیڈوں اور مارٹر گولوں سے زخمی ہوگئے۔ جن میں سے تین شدید زخمی تھے، جبکہ بنگش قبیلے کی جانب سے مبینہ طور پر دو افراد جاں بحق اور 13 لوگ زخمی ہوئے۔ تادم تحریر آج دوپہر تک جنگ جاری ہے۔ اگرچہ جنگ بند کروانے کی خاطر بین القبائل امن جرگہ بھی اپنی کوششوں میں مصروف ہے۔

بوشہرہ کے حادثے سے قطع نظر کرم کی مجموعی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کرم کو ایک بار پھر خون میں نہلانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور علاقے کو دہشتگردوں کے حوالے کرنے کی سازشیں تیار کی جا رہی ہیں۔ سنٹرل کرم میں گذشتہ چند ماہ سے طالبان کی نقل و حرکت، لوئر کرم کے متعدد مقامات میں طالبان کی سرگرمیاں اور پھر بوشہرہ جیسا حساس اور محصور علاقہ، جو خود کو مظلوم اور محصور قرار دیتا ہے، اس کی طرف سے جارحانہ اقدامات کسی خطرناک سازش کی جانب اشارہ دیتے ہیں۔ اہلیان کرم سے بالعموم جبکہ علاقے کے سٹیک ہولڈر عمائدین اور قومی اور مذہبی اداروں سے بالخصوص غور و فکر کی گزارش کی جاتی ہے۔

 

 

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

one × one =