تحریر: حامد میر
تربت یونیورسٹی کے ایک استاد نے کراچی کے ایک صحافی دوست کے ذریعہ رابطہ کیا اور کہا کہ آپ نے بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ پوچھا کیا مشکل ہو گئی؟ کہنے لگے کہ آپ نے علامہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد کا دورحاضر کو سامنے رکھ کر جو تجزیہ کیا ہے اس میں لکھا کہ میر عبدالعزیز کرد اور محمد حسین عنقا نے اس خطبے کے بعد لاہور جاکر علامہ اقبال سے ملاقات کی۔ استاد صاحب کا کہنا تھا کہ آپ کے انکشاف نے کم از کم میری یونیورسٹی کے طلبا و طالبات میں کھلبلی مچا دی ہے کیونکہ میر عبدالعزیز کرد اور محمد حسین عنقا بلوچستان میں سیاسی تحریک کے بانیوں میں شامل تھے جو پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں زیادہ عرصہ جیلوں میں رہے۔ ان دونوں کا علامہ اقبال سے تعلق سامنے آنا ہمارے لئے ایک نئی بات ہے اور ہمارے طلبا بھی ہم سے اس تعلق کی تاریخی شہادت مانگ رہے ہیں۔ میں نے اپنے اس مہربان استاد کو بتایا کہ بہت سال پہلے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں فلسفے کے ایک استاد پروفیسر خواجہ غلام صادق نے ڈاکٹر انعام الحق کوثر سے ’’علامہ اقبال اور بلوچستان‘‘ پر ایک مقالہ لکھوایا اور لاہور میں ایک کانفرنس میں ان سے پڑھوایا، خواجہ صاحب لاہور انٹرمیڈیٹ بورڈ کے سربراہ تھے اور کوثر صاحب بلوچستان انٹرمیڈیٹ بورڈ کے سربراہ تھے۔ کانفرنس میں یہ مقالہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر جی اے الانہ نے سنا اور کوثر صاحب کو اس موضوع پر کتاب لکھنے کی فرمائش کی۔ کوثر صاحب نے مزید تحقیق کی اور ’’علامہ اقبال اور بلوچستان‘‘ کے نام سے ان کی کتاب سامنے آ گئی۔ اس کتاب میں وہ میر عبدالعزیز کرد، محمد حسین عنقا، میر یوسف علی خان مگسی اور حاجی غلام سرور بارکزئی سمیت بلوچستان کے کئی اہل فکر و دانش کے ساتھ علامہ اقبال کے ذاتی اور سیاسی تعلق کو سامنے لائے۔ میر عبدالعزیز کرد اور محمد حسین عنقا 1933ء میں علامہ اقبال کے پاس لاہور آئے اور بلوچستان کے حقوق کیلئے جدوجہد پر گفتگو کی۔ بلوچستان کے اخبارات میں ان رہنمائوں کو جگہ نہ ملتی تھی لہٰذا علامہ اقبال نے لاہور میں ’’انقلاب‘‘ کے ایڈیٹر سے کہا کہ ان بلوچ رہنمائوں کے بیانات شائع کریں۔ علامہ اقبال کی وفات پر 30مئی 1938ء کو روزنامہ احسان لاہور میں میر عبدالعزیز کرد نے ایک مضمون لکھا جس میں شاعر مشرق کے ساتھ بلوچستان کے حالات پر ہونے والی تمام گفتگو کی تفصیل موجود تھی۔ میں نے تربت یونیورسٹی کے استاد کو بتایا کہ پاکستان میں علامہ اقبال اور قائد اعظم کے کردار و شخصیت کے بہت سے پہلو جان بوجھ کر عوام کے سامنے نہیں لائے جاتے کیونکہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ ان رہنمائوں کی حریت پسندی، سامراج دشمنی اور ملوکیت سے نفرت کو اپنے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھتی ہے۔ یہ دونوں رہنما نہ جاگیردار تھے نہ نواب تھے نہ کسی جرنیل کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے آگے آئے تھے لہٰذا آج کے پاکستان میں حکمران اشرافیہ اور اس کے مفادات کا تحفظ کرنے والے اداروں پر تنقید کرو تو وہ توہین کہلاتی ہے ملک دشمنی کہلاتی ہے لیکن علامہ اقبال اور قائد اعظم کے بارے میں کوئی بھی جھوٹ بول دیں کوئی پکڑ نہیں۔ 3اپریل 2014ءکو روزنامہ جنگ میں ’’دشمنان اقبال اور فیض‘‘ کے نام سے کالم میں اس ناچیز نے پہلی دفعہ میر عبدالعزیز کرد اور محمد حسین عنقا کے ساتھ علامہ اقبال کے تعلق کا ذکر کیا تو مجھے بلوچ علیحدگی پسندوں کا ساتھی قرار دیا گیا کیونکہ محمد حسین عنقا نے 1948ء میں ریاست قلات کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی مخالفت کی تھی اور شہزادہ عبدالکریم کے ساتھ گرفتار ہو گئے تھے۔ 19اپریل 2014ء کو مجھ پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہو گیا اور مجھے کافی عرصہ کیلئے بریک لگا دی گئی لیکن میں نے علامہ اقبال کے بارے میں جو بھی لکھا ہے پہلی دفعہ نہیں لکھا۔ یہ میرا پرانا موقف ہے۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی عرض یہ ہے کہ پاکستان میں اقبال دشمن لابی بہت مضبوط ہے علامہ اقبال کو غدار قرار دینے والے جوش ملیح آبادی کو بھارتی حکومت نے 1954ء میں پدما بھوشن دیا کیونکہ اس وقت وہ بھارتی شہری تھے۔ 2013ءمیں جوش ملیح آبادی کو حکومت پاکستان سے ہلال امتیاز دلوایا گیا کیونکہ جوش صاحب 1956ءمیں پاکستانی بن گئے تھے جن صاحب نے جوش کو ہلال امتیاز دلوایا وہ جوش کی شاعری سے زیادہ ان کی کتاب ’’یادوں کی برات‘‘ کے مداح تھے جو علامہ اقبال اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کے خلاف ہرزہ سرائی سے بھری ہوئی ہے۔ غور کریں تو پتہ چلے گا کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم جب ایک دوسرے کے قریب آئے تو برصغیر کی سیاست میں تلاطم برپا ہو گیا۔ 1930ءکا خطبہ الٰہ آباد بھی ایک تلاطم تھا چند سطور ملاحظہ فرمائیں۔ اقبال نے خطہ الٰہ آباد میں فرمایا ’’میں صرف ہندوستان اور اسلام کی فلاح وبہبود کے خیال سے ایک منظم اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہا ہوں۔ اس سے ہندوستان کے اندر توازن کی بدولت امن وامان قائم ہو جائے گا اور اسلام کو اس امر کا موقع ملے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہو جائے جو عربی شہنشائیت کی وجہ سے اب تک اس پر قائم ہیں اور اس جمود کو توڑ ڈالے جو اس کی تہذیب و تمدن، شریعت اور تعلیم پر صدیوں سے طاری ہے علامہ اقبال نے ARABIAN IMPERIALISMکا لفظ استعمال کیا تھا۔ خطہ الٰہ آباد کا اردو ترجمہ سیدنذیر نیازی نے کیا تھا انہوں نے اس انگریزی لفظ کو عربی شہنشائیت قرار دیا اور بعد میں اقبال بارہا شہنشائیت اور ملوکیت کو خلاف اسلام قرار دیکر مسترد کرتے رہے۔ اب آپ کو سمجھ آ جانی چاہئے کہ جب پروفیسر فتح محمد ملک ایک کانفرنس میں عرب بادشاہوں کے متعلق اقبال کے خیالات پر روشنی ڈالتے ہیں تو اس کے بعد انہیں اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی سربراہی کیوں چھوڑنا پڑتی ہے؟ 2019ء میں مجھے ایک عجیب تجربہ ہوا کچھ ٹی وی اینکرز اور کالم نگار اسرائیل کے ساتھ دوستی کے اچانک بخار میں مبتلا ہو گئے۔ مجھے بھی ایک طاقتور ترین شخصیت نے اس کارخیر میں حصہ ڈالنے کیلئے کہا جب میں نے انہیں علامہ اقبال اور قائد اعظم کے فلسطین کے متعلق خیالات سے آگاہ کیا تو ایک کالم نگار کے ذریعے ان خیالات کو فرسودہ قرار دیکر مسترد کرا دیا گیا۔ اقبال کا دشمن قائد اعظم کا دوست نہیں ہو سکتا۔ ان دونوں رہنمائوں کے فلسطین اور کشمیر پر خیالات کو ایک لابی اپنے ایجنڈے کیلئے خطرہ سمجھتی ہے۔ یہی لابی افغانوں سے اقبال کی محبت کو بھی ناپسندیدگی سے دیکھتی ہے۔ اس لابی کو ایران میں اقبال کی مقبولیت گوارا نہیں ۔یہ لابی آپ کو کبھی یہ نہیں بتائے گی کہ خطہ الٰہ آباد میں اقبال نے پختونوں کیلئے افغان کی اصطلاح کیوں استعمال کی؟ اقبال نے دسمبر 1930ء کے خطہ الٰہ آباد میں پختونوں کیلئے آئینی اصلاحات کا مطالبہ اس لئے کیا کہ اپریل 1930ء میں پشاور کے قصہ خوانی بازار میں خدائی خدمت گاروں کا قتل عام کیا گیا۔ 1934ء میں مرکزی اسمبلی میں خدائی خدمت گار تحریک پر پابندی کیلئے قرارداد آئی تو قائد اعظم نے کانگریس کے ساتھ مل کر اس قرارداد کو مسترد کرایا۔ 1935ء میں پختون قبائلی علاقے پر انگریزوں کی بمباری کے خلاف قرارداد کی قائد اعظم نے حمایت کی۔علامہ اقبال اور قائد اعظم ہر ظلم کے خلاف تھے دونوں پر کفر اور غداری کے فتوے لگائے گئے لیکن یہ دونوں علماء کے خلاف نہیں تھے بلکہ کئی جید علماء نے ان دونوں کی حمایت کی۔ ابو عمار زاہد الراشدی نے مولانا عبید اللہ انور کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کیا کہ جب مولانا احمد علی لاہوری نے شیرانوالہ گیٹ لاہور میں ایک جلسہ کیا تو علامہ اقبال اسٹیج پر موجود تھے ۔جب مولانا شبیر احمد عثمانی نے خطاب شرو ع کیا تو اقبال اسٹیج سے اٹھ کر سامعین میں جا بیٹھے اور کہا اس پیکر علم کا خطاب سامنے بیٹھ کر طالب علم کی طرح سننا چاہئے ۔علامہ اقبال اور قائد اعظم کے پاکستان میں علما اور مدارس کے بارے میں جھوٹ پھیلانے والے بھلے ہم جیسوں کو غدارکہا کریں لیکن یاد رکھیں کہ یہ ملک مظلوموں کے حقوق کیلئے، تحفظ کیلئے بنایا گیا تھا غلامی سے نجات کیلئے بنایا گیا تھا قومی سلامتی اور حب الوطنی کے نام پر پابندیوں اور گرفتاریوں کیلئے نہیں بنایا گیا تھا۔
بشکریہ جنگ نیوز
One Response
جس قوم نے اپنی ماں کو قتل کیا ہو اپنے باپ کو زہر کے ٹیکے لگا کر دور افتادہ جنگل میں پھینک دیا ہو اپنی ماں پر بیہودہ الزامات لگائے ہوں جب تک وہ اپنے گناہوں کا اقرار اور ان سے توبہ کے ساتھ منفی کرداروں کا واضح نہیں کرے گی اسی طرح ذلیل وخوار ہوتی رھے گی ۔۔۔