تحریر: سید اعجاز اصغر
امام حسین علیہ السّلام کے دشمن رسول خدا کے دشمن ہیں رسول خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن دین خدا کے دشمن ہیں، جو تکالیف امام حسین علیہ السّلام کو دی گئیں دراصل ان تکالیف کی بنیاد خود رسول خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں ہی رکھ دی گئیں تھیں، جب نبئ پاک صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی تحریک کا آغاز 2 جولائی 622 عیسوی میں کیا تو رسول اللہ (ص) اپنے اہل وطن کے مظالم سے تنگ آکر مکہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے، کفار اسلام کی روز افزوں ترقی سے نالاں اور حاسد ہوگئے، ان کو اپنے بت پرستانہ نظام کے برقرار نہ رہنے کا خطرہ لاحق ہوا، لہذا انہوں نے رسول اللہ (ص) اور ان کے پیروکاروں ہر بے انتہا مظالم توڑنے اور سخت عقوبتیں پنہچانا شروع کردی، رسول اللہ( ص) اور ان جانثار جلاوطنی پر مجبور ہو گئے، ہجرت پر مجبور مسلمانوں کی جائیدادیں ضبط کی گئیں،
مسلمانوں کے نئے مسکن حبشہ اور مدینہ کے حکمرانوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ تارکین وطن کو پناہ نہ دیں، ردعمل پر مدینہ کے مسلمان بھی اہل قریش پر معاشی دباؤ ڈال رہے تھے اور اسی کوشش میں عبداللہ بن جحش قریش کے تجارتی قافلہ کو نخلہ میں لوٹ کر سالار قافلہ کو ہلاک کر چکے تھے،
سن 61 ہجری کے واقعہ کربلا کی بنیاد 2 جولائی 622 عیسوی سے ہی رکھ دی گئی تھی، جس کی پیشن گوئیاں یا اطلاعات کا سلسلہ جبرائیل علیہ بذریعہ وحی تو رسول اللہ( ص ) کو تو دے ہی چکے تھے، تاریخی نقطہ نظر سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السّلام کے دشمن رسول خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے ہی دشمن تھے، یہ دشمنی کیونکر ممکن ہوئی ؟
کفار مکہ کو توحید کی تبلیغ کیوں ناگوار گزری؟
تعلیمات قرآن و اہلبیت علیہم السّلام کی تعلیمات میں سب سے زیادہ پرچار توحید کا ہی ہوا ہے، مدینہ سے کربلا تک امام حسین علیہ السّلام کی تبلیغ کا محور صرف اور صرف توحید ہی تھا، امام حسین علیہ السّلام کا آخری سجدہ توحید کی سب سے بڑی تبلیغ تھا، محمد و آل محمد علیہم السّلام نے توحید کی تبلیغ کو اولین ترجیح کیوں دی ؟
دیکھنے میں تو توحید کا سادہ مطلب اللّٰہ ایک ہے، اس ایک اللّٰہ کی بت پرستوں کو کا کیا تکلیف تھی ؟
محمد و آل محمد علیہم السّلام کو صرف ایک اللّٰہ کو منوانے کا کیا فائدہ تھا ؟
فقط ایک اللّٰہ کی تبلیغ کرتے کرتے رسول خدا و آل رسول علیھم السلام کو تکلیفوں، اذیتوں، عقوبتوں اور سنگین مظالم کا سامنا کرنا پڑا، آخر کیا حکمت ہے توحید کی تبلیغ میں ؟
میں نے جو مطالعہ کیا ہے یا علماء کرام سے سنا ہے کہ توحید کے دشمن ظلم و جبر کے حامی ہیں، لوٹ مار کے پجاری ہیں، بے حیائی اور شرم کے داعی ہیں، مطلب یہ کہ ہر وہ برائی جس سے بنی نوع انسان کو تکلیف پہنچے وہ توحید کے متصادم ہے، ہر وہ نیکی، ہر وہ بھلائی، ہر وہ راحت، عزت، سکون جس سے بنی نوع انسان مستفید ہو، اس استفادے کے مضمرات میں توحید کا محور ہے،
توحید ظالم کے سامنے کلمہ حق کا درس دیتی ہے، ایک اللّٰہ کو سجدہ کرنا، اس کی اطاعت کرنا دنیا کے تمام سجدوں سے نجات دلانے کا سبب ہے، توحید انسان کو عزت و تکریم عطا کرتے ہوئے ذلت ورسوائی سے بچانے کا درس دیتی ہے،
کفار مکہ کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ توحید پرست ہماری حکمرانی کا خاتمہ کر دینگے، بت پرست بے حیا، ظالم، زنا کار، شرابی، جھوٹے، مکار، بے رحم، بددیانت، بے حس اور متکبر لوگ تھے، ان تمام برائیوں کو ختم کرنے کے لئے ضروری تھا کہ توحید کا پرچار زیادہ سے زیادہ کیا جائے،
آج اگر ہم میں تکبر، غرور، زنا، شراب خوری، بے حسی، بددیانتی، بے ایمانی، حسد، بغض، کینہ، عناد، منافقت، بے رحمی موجود ہے تو ہم بھی بت پرست جماعتوں کا حصہ ہیں، توحید پرستوں کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے،
یزید ابن معاویہ دراصل توحید کا دشمن اور منکر تھا، جن لوگوں نے جناب پیغمبرِاسلام صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے لالچ، منافقت کی وجہ سے اسلام قبول کیا تھا وہی منافق اور لالچی بعد از رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ نواسہ رسول و آل رسول علیھم السلام کے دشمن بن گئے تھے،
امام حسین علیہ السّلام نے فرمایا کہ میری جنگ فقط یزید کے ساتھ نہیں بلکہ ہر اس شخص کے ساتھ ہے جس کا کردار یزیدی ہے،
کردار یزیدی دراصل کردار ابلیس ہے،
یزید ملعون کا ساتھی دراصل توحید کا دشمن اور منکر ہے، ہر برائی کا نام یزید ہے اور ہر اچھائی کا نام محمد و آل محمد علیہم السّلام ہے،
امام حسین علیہ السّلام نے فرمایا
عزت کے ساتھ مرنا ذلت کے ساتھ زندہ رہنے سے بہتر ہے، اس دنیا کے دھوکے میں نہ آنا کیوں کہ جو اس پر بھروسہ کرتا ہے یہ اس کو دھوکہ دیتی ہے، اور جو اس کی طمع کرتا ہے اس کو ناامید بناتی ہے،
میدان کربلا کی جنگ میں محسن انسانیت حضرت امام حسین علیہ السّلام کا ہر قدم، ہر فعل، ہر عمل اور ہر خطبہ قیامت تک کے انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے، یزید سے ٹکر لینا قیامت تک کے ظالم، بے حیا، بے شرم، زنا کار، دھوکے باز، بے حس، سنگ دل، منافق، حاسد، قبضہ مافیا گروپ، استعماری گروپ، طاغوتی گروپ، قاتلوں کے ساتھ ٹکر لینے کا مطالبہ کرتی ہے، ورنہ ہماری عزاداری، ہماری عبادتیں، ہمارے حج و زکواۃ سب بے سود ہیں، میدان کربلا میں نواسہ رسول ( صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ) کا آخری استغاثہ قیامت تک کلمہ حق کی طرف دعوت دے رہا ہے،
امام حسینؑ نے قصر بنی مقاتل کے مقام پر عبید اللہ بن حر جعفی سے مدد چاہی اور اس نے عذر پیش کیا تو آپؑ نے عبید اللہ سے کہا کہ وہاں سے کہیں اور چلا جائے کیونکہ اگر کوئی امامؑ کے استغاثے کو سنے اور مدد نہ کرے تو خدا اس کو ہلاک کردے گا۔ بعض علماء جملہ لَبَّیکَ یاحسینؑ کو عاشور کے دن امام حسینؑ کے استغاثے کا جواب تصور کرتے ہیں۔
ایران کے ایک فلمی ڈائریکٹر شہرام اسدی نے واقعہ کربلا کے بارے میں روز واقعہ نام کی ایک فلم بنائی ہے۔ اس فلم کا پہلا فنکار ایک نو مسلم جوان ہے۔ بار بار ایک غیبی آواز اس کے کانوں میں ٹکراتی ہے کہ “کوئی ہے جو میری مدد کرے؟”
وہ اسی آواز کے تعاقب میں چل پڑتا ہے اور عصر عاشورا کو کربلا پہنچ جاتا ہے۔
آج کی عاشورہ کربلا فلسطین و کشمیر کی وادیوں میں وقت کے یزیدی کا سامنا کررہی ہے، دنیا جہان میں جہاں ظلم و ستم کا بازار گرم ہے وہاں وہاں ھل من ناصر ینصرنا کی صدائیں بھی گونج رہی ہیں، کون حسینی ہے؟
کون یزیدی ہے؟
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔