اکتوبر 12, 2024

غزہ میں مزید جرائم کے ارتکاب کیلئے صیہونیوں کا اصلی پشت و پناہ امریکہ ہے، علی باقری

سیاسیات- سلامتی کونسل کے دو اجلاسوں میں شرکت کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے قائم مقام وزیر خارجہ علی باقری نیویارک میں موجود ہیں۔ علی باقری نے صحافیوں سے گفتگو میں اس دورے کی تفصیلات بیان کیں۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں علاقائی سطح پر صیہونیوں کے جرائم اور نسل کُش اقدامات بدستور جاری ہیں۔ بعض اوقات ان جرائم میں شدت آ جاتی ہے۔ دوسرا موضوع لبنان کو درپیش صیہونی دھمکیوں کا ہے کہ جس کے نتیجے میں اسرائیل کی ممکنہ فوجی کارروائی کا بھی خدشہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت خطے کے حالات حساس اور خاص ہیں۔ اس موقع پر سلامتی کونسل میں فلسطین کے حوالے سے اجلاس بلایا گیا۔ جس میں مسئلہ فلسطین کی اہمیت اور لبنان کو درپیش خطرات کا جائزہ لیا جانا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران ایک ایسا ملک ہے جو علاقائی سطح پر پیشرفت اور سیاسی عمل میں موثر کردار ادا کرتا ہے۔ اس لئے سلامتی کونسل کے ان اجلاسوں میں شرکت کا فیصلہ کیا گیا۔ ان اجلاسوں میں غزہ میں صیہونی جرائم و نسل کُش اقدامات کو بلا مشروط اور فوری طور پر روکنے کے لئے صیہونی رژیم پر دباو کی ضرورت کے حوالے سے ایران کے موقف اور نظریات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

علی باقری نے مزید تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں لبنان پر حملے کی صورت میں صیہونی اسٹریٹجک غلطی کے نتائج کو بیان کیا۔ ہم نے دنیا کو باور کروایا کہ صیہونی ہر ایک گھنٹے میں اوسطاََ 20 فلسطینیوں کو قتل یا زخمی کر رہے ہیں۔ دنیا ان جرائم پر خاموش نہ رہے ایسا نہ ہو کہ یہ جرم معمول کی ایک بات بن جائے۔ ایرانی ڈپلومیٹک سربراہ نے مزید کہا کہ صیہونی چاہتے ہیں کہ یہ جرائم عادی ہو جائیں۔ چونکہ ان کی فطرت ناپاک ہے اس لئے یہ چاہتے ہیں کہ دنیا ان کے جرائم کو معمولی بات سمجھے۔ ہم نے اس اجلاس میں شریک دیگر ممالک کے نمائندوں پر زور دیا کہ وہ غزہ میں جاری صیہونی جرائم کو روکنے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائیں۔ علی باقری نے کہا کہ سلامتی کونسل کے ان اجلاسوں کے دوران ہم نے شریک ممالک کے متعدد حکام سے ملاقاتیں کیں کہ جو مثبت رہیں۔ ان ملاقاتوں کا یہ فائدہ ہوا کہ صیہونی رژیم کے مذموم اقدامات کی روک تھام کے لئے ایران اور دیگر ممالک کے درمیان تعاون و ہم آہنگی کی ایک قسم موجود تھی۔ علی باقری نے سلامتی کونسل ہی کے دوسرے اجلاس کی تفصیل بتاتے ہوئے کثیرالجہتی کی جانب اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج امریکہ ون ورلڈ آرڈر کے ذریعے دنیا میں امن و سلامتی کے قیام میں ناکام ہو چکا ہے۔

علی باقری نے کہا کہ عملی طور پر امریکہ نے مختلف بین الاقوامی موضوعات، ایرانی جوہری مذاکرات، مسئلہ فلسطین اور غزہ میں صیہونی جارحیت پر جس کردار کا مظاہرہ کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن نہ صرف مسائل کے حل کا حصہ نہیں بن سکتا بلکہ ان مسائل میں خود اصلی رکاوٹ بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ امریکی ہی تھے جو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے دستبردار ہوئے اور اس معاملے میں خلل ڈالا۔ غزہ کے معاملے میں بھی امریکیوں نے اسرائیل کو مہلک ہتھیار فراہم کئے اور نہ صرف فلسطینیوں کی نسل کشی میں صیہونی رژیم کے ساتھ شریک ہے بلکہ انہیں اس طرح کے جرائم کے ارتکاب میں حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ امریکہ ان مسائل میں غیر جانبدار اور ثالث نہیں بن سکتا۔ قیام امن کے لئے ون ورلڈ آرڈر اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کثیرالجہتی تعاون زیادہ موثر ہے۔ علی باقری نے مزید کہا کہ ایک اور بحث جو ہم نے فلسطین اور کثیرالجہتی کے حوالے سے منعقدہ دونوں اجلاسوں میں کی وہ یہ کہ آج مغربی ایشیاء میں مقاومت ایک ناقابل انکار حقیقت و استحکام والا عنصر بن چکی ہے۔ جسے دنیا نے غزہ پر صیہونی جارحیت کے نو مہینوں میں سنجیدگی اور واشگاف طور پر محسوس کیا ہے۔

لہٰذا ہم نے ان دو اجلاسوں میں اس بات کی سنجیدہ کوشش کی کہ عالمی برادری کے دیگر ارکان کو اس حقیقت سے روشناس کروائیں کہ مقاومت، خطے کا اصلی اور موثر ترین عنصر ہے کہ جو علاقائی امن و استحکام کے قیام میں موثر کردار ادا کرتا ہے۔ اس وقت مقاومت علاقائی سطح پر جو کچھ انجام دے رہی ہے وہ صیہونیوں کو علاقائی جارحیت اور نسل کش اقدامات سے روکنے کی سنجیدہ کوشش ہے۔ قائم مقام ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے ان اجلاسوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کے استحکام ساز آپریشن وعدہ صادق کا بھی ذکر کیا۔ ہم نے باور کروایا کہ ایران نے علاقائی امن و استحکام کے لئے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

One Response

  1. صرف بیان بازیاں ہیں اور کچھ بھی نہیں۔ دراصل فلسطینیوں کے ساتھ صرف مذہب کا احساس رکھنے والے طبقے کھڑے ہیں باقی صرف اور صرف ڈرامہ ہے ۔ ایران کا کردار انتہائی مشکوک ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

17 − four =