تحریر: محمد ثقلین واحدی
ایک عالم دین بیان کرتے ہیں کہ میں نے سید الشھداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے حرم میں ایک شخص کو دیکھا جو ہر روز آتا ہے ضریحِ مبارک کو پکڑ کے خوب گریہ کرتا ہے اور کچھ باتیں کرتا ہے یہ سلسلہ کئی روز چلتا رہا یہ عالم کہتے ہیں میں نے سوچا کہ شاید اس شخص کی کوئی ایسی خواہش ہو جو میں پوری کر سکوں یہی سوچ کر ایک دن جب وہ ضریح کے قریب آیا تو میں اس کے پاس کھڑا ہو گیا اور کان لگا کر اسکی باتیں سننے لگا وہ کہ رہا تھا اے اس صاحبِ قبر کے خدا میرے ہاں کوئی اولاد نہیں ہے مجھے ایک بیٹا دے دے اور جب وہ جوان ہو جائے تو اسے مجھ سے واپس لے لے اور یہ سب میں اس لئے چاہتا ہوں تاکہ میں حسین کا درد محسوس کر سکوں یہ عالم کہتے ہیں کہ میں ششدر رہ گیا کہ یہ خواہش تو میرے بس کی نہیں لیکن اتنا مجھے یقین ہو گیا کہ اس شخص کی دعا یقینا قبول ہوگی یہی سوچ کر میں نے کئی دن کی کوشش کے بعد اس شخص سے آشنائی پیدا کی اور کچھ عرصے بعدہماری یہ آشنائی دوستی میں تبدیل ہوگئی حتی کہ گھریلو خواتین بھی ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے لگیں ایک دن میری بیگم نے مجھے بتایا کہ اس شخص کی زوجہ امید سے ہے سال گزرا دعا کا پہلا حصہ پورا ہوا اور انکے گھر ایک چاند سے بیٹے نے جنم لیا سال پہ سال گزرتے گئے بالآخر بچہ جوان ہو گیا یہ عالم دین کہتے ہیں ایک دن میں اور میرا وہ دوست کربلا کے بازار میں اکٹھے جا رہے تھے کہ کسی نے اسے آواز دی کہ جلدی گھر پہنچو تمہارے بیٹے کی حالت ٹھیک نہیں ہے ہم دونوں بھاگم بھاگ گھر پہنچے دیکھا تو صحن میں جوان کی لاش پڑی ہے اس کے والد نے جیسے ہی جوان بیٹے کی لاش دیکھی ہاتھ دعا کے لئے آسمان کی طرف بلند کئے اور کہنے لگا خدایا میں تیرا شکرگزار ہوں کہ تو نے میری دعا کا دوسرا حصہ بھی قبول فرمایا اس کے بعد وہ اپنے بیٹے کی طرف آیا لاش سے کپڑا ہٹایا اور جھک کر بیٹے کے گال کا بوسہ لیا لیکن پھر کھڑا نہ ہوسکا!!!!
آج دس محرم کو یہ تحریر لکھتے ہوئے میرا قلم کپکپا رہا ہے دل لرز رہا ہے اور آنکھوں میں آنسووں کا اک سمندر موجزن ہے اس کربلائی کا جوان بیٹا بھوکا پیاسا نہ تھا نہ ہم شکلِ پیغمبر نہ زخمی نہ تلوار و نیزہ کے زخم کھائے طبعی موت مرا اس کا باپ مگر اسکی لاش پہ جھکا پھر کھڑا نہ ہو سکا۔
روایات کے مطابق حسین اپنے جوان بیٹے علی اکبر کی لاش پہ آئے جھکے “وَضَعَ خَدَّهُ عَلَى خَدِّهِ ” اپنا رخسار بیٹے کے زخمی رخسار پہ رکھا لیکن پھر اللہ اکبر کہ کر کھڑے ہو گئے ، اس جوان بھتیجے کی لاش اٹھائی جس کے بارے میں تاریخ کے الفاظ ہیں “وجھہ کالشقۃ القمر” قاسم ابن حسن گویا چاند کا ٹکڑا تھا کڑیل جوان بھائی قمر بنی ہاشم ابالفضل العباس کے کٹے شانوں کو دیکھا علی اصغر کو اپنے ہاتھوں پہ حرملہ کے تیر سہ شعبہ سے سیراب کیا مگر
بقول شاعر
کربلا والوں کے حوصلے تھے دید کے قابل
جہاں پہ صبر مشکل تھا وہاں پہ شکر کرتے تھے
اور اب
ننھی سی قبر کھود کے اصغر کو گاڑ کے
شبیر اٹھ کھڑے ہوئے دامن کو جھاڑ کے
حسین درِ خیمہ پہ آئے بہنوں اور بیٹیوں کے ہاتھ چوم کر واردِ میدان ہوئے اور “الموت خیر من رکوب العار” موت ذلت بھری زندگی سے بہتر ہے کہ کر جنگ شروع کی تاریخ میں کسی پیاسے نے پھر ایسی جنگ نہ کی لیکن بالآخر وہ وقت آیا جب عرشِ خدا روئے فرش آگیا مظلومِ کربلا زینِ ذوالجناح سے زمین پر کیسے آئے
صاحبِ لہوف سید ابن طاووس لکھتے ہیں “وَ لَمَّا أُثْخِنَ الْحُسَیْنُ ع بِالْجِرَاحِ وَ بَقِیَ کَالْقُنْفُذِ طَعَنَهُ صَالِحُ بْنُ وَهْبٍ الْمُرِّیُّ عَلَى خَاصِرَتِهِ طَعْنَةً فَسَقَطَ الْحُسَیْنُ ع عَنْ فَرَسِهِ إِلَى الْأَرْضِ عَلَى خَدِّهِ الْأَیْمَنِ” امام جب زخموں کی وجہ سے انتہائی نحیف و کمزور ہوگئے تو صالح بن وہب مری ملعون نے امام کے پہلو میں نیزہ مارا جس سے حسین دائیں رخسار کے بل گھوڑے سے زمین پہ گرپڑے
شیخ صدوق امالی میں یوں رقمطراز ہیں :” ورمي بسهم فوقع في نحره و خر عن فرسه” شیخ صدوق کہتے ہیں امام مظلوم کے گلے میں ایک تیر لگا اور امام گھوڑے سے گرے
آیت اللہ قزوینی ریاض الاحزان میں کہتے ہیں: عصرِ عاشور امام کی مظلومیت کا عالم یہ تھا کہ جب آپ زخموں سے چور چور ہوکر ذوالجناح سے اتر آئے تو کبھی کوئی تیر مارتا تو امام دائیں رخسار کے بل گر جاتے کوئی پتھر مارتا تو بائیں رخسار کے بل گرتے بالآخر امام حالتِ سجدہ میں گر پڑے
“وَ الشِّمْرُ جالِسٌ عَلى صَدْرِہ”
شمر ملعون سینہ امام پہ بیٹھا ضربیں مار رہا تھا اچانک ایک شور بلند ہوا آندھی چلنے لگی زمینِ کربلا پہ زلزلہ آیا سرِ حسین نوکِ نیزہ پہ بلند ہوا۔ آواز آئی قَد قُتِل الحُسینُ بِکربلا عَطشانا، قَد ذبح الحُسینُ بِکربلا عَطشانا
بقولِ شاعر
دلیلِ فتح تو دیکھ اے حسین کے قاتل
کہ جس سرکو جھکانے چلے تھے اسی کو اٹھا کر چلے
اور جوش ملیح آبادی نبی مکرم اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں
اے محمّد موت وہ تیرے نواسے کو ملی
آج تک جس سے درخشاں ہے ضمیرِ آدمی
اللہ اللہ روشنی تیرے چراغِ ذہن کی
کربلا کی دھوپ پر چھٹکی ہے ابتک چاندنی
یہ انی پہ سر نہیں تیری انا کا تاج ہے
کربلا تیرے نظامِ فکر کی معراج ہے۔