تحریر: ارشاد حسین ناصر
محرم الحرام کے مقدس اور غمناک ایام دنیا بھر میں فرزند رسول اللہ ؐ حضرت ابا عبداللہ الحسین ؑ ان کے خانوادہ عصمت و طہارت اور اصحاب باوفا جن میں ششماہا علی اصغر اور اسی سال کا صحابی رسول حبیب ابن مظاہر بھی شامل ہے، جن میں ہم شکل پیغمبر علی اکبر ؑبھی شریک ہے، جن میں بھائی حسنؑ کی یاد گار تیرہ برس کا قاسم ابن الحسنؑ بھی شامل ہے، جن میں امام کی طاقت، قوت، بازو اور امید عباس ابن علی علمدار کربلا بھی شریک ہیں۔ ان سب کا دکھ اور غم ہر غیرت مند آنکھ میں آنسوءوں کا سیلاب برپا کیے ہوئے ہے، یہ آنسو کسی کمزوری کی علامت نہیں، کسی بزدلی اور بے بسی کی علامت نہیں بلکہ یہ کائنات کے برترین انسانوں کے کائنات کے غلیظ ترین انسانوں کے شجرہ والے بزدلوں کے ظلم پر احتجاج کی علامت ہیں، یہ آنسوءوں کا سیلاب چودہ سو برس سے جاری ہے اور ہر دور کے ظالمین کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہے۔
دنیا بھر کے طاغوت پرست، یزید نواز، شاہان وقت اس نوحہ و ماتم کی صداءوں سے خوف کھاتے ہیں، اسی وجہ سے ممکن حد تک ان مجالس و محافل پر پابندیاں لگاتے ہیں، اپنے پالتوءوں کے ذریعے ان مجالس ذکر کربلا پر حملے کرواتے ہیں۔ ان کے خلاف اپنے اجداد کی مانند پراپیگنڈہ کرتے ہیں، پراپیگنڈہ کے یہ ازل سے بہت ماہر اور اس پر بہت زیادہ یقین رکھنے والے ہیں۔ امام علی ؑ کے خلاف جیسا پراپیگنڈا یہ لوگ کرتے تھے، تاریخ اس کو بتاتی ہے کہ جب آپ کی شہادت مسجد کوفہ میں ہوئی تو اہل شام حیرت سے ایک ووسرے سے سوال کرتے تھے کہ علیؑ اور مسجد کا کیا تعلق اور اسی پراپیگنڈہ کے بل بوتے پر ہی امام حسینؑ جو اس وقت کی حجت خدا تھے، فرزند رسول اللہ ؐ تھے، اپنے جد کے وارث تھے، ان کو باغی کا پراپیگنڈا کروا کر شہید کروا دیا اور ان کے خانوادہ عصمت و طہارت کو رسن بستہ بے کچاوہ اونٹوں پر بازاروں اور درباروں میں پھرایا۔
یہ پراییگنڈا کے بل بوتے پر کربلا کی جنگ جیت جاتے، ایک لق و دق صحرا میں بہتر(72) پاکیزہ نفوس کا خون بہانا ان کیلئے مشکلات کا باعث ہرگز نا ہوتا، گر سیدہ زینب (س) سیدہ کلثوم (س) امام زین العابدین ؑ اپنے دکھوں اور غموں کو بھول کر تاریخی خطبات ارشاد نہ فرماتے۔ یہ تاریخی خطبات، زندہ بچ جانے والے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کا سبب بنے اور جو تماشا دیکھنے آئے تھے، وہ ایک پیغام لے کر گئے اور یوں کربلا کا فاجعہ پوری شد و مد سے امت کے مختلف حلقوں میں پہنچ گیا۔ یہ خطابت خانوادہ عصمت و طہارت ہی اولین مجالس عزا کا درجہ رکھتے ہیں کہ جہاں بھی موقعہ ملا، حقیقت بیان ہوگئی۔ درد و غم کا سیلاب امڈ آیا اور لوگوں کے قلوب منقلب ہوئے، آل نبی ؑکا غم اجاگر ہوا اور لوگوں میں یزید و یزیدیت سے نفرت کا باعث بنا۔
آج جو الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کا دور دورہ ہے، اس دور میں کربلا کے حقایق، واقعات شہادت، یزید اور اس کے کمانڈرز کا کردار، یزید کے شجرہ خبیثہ کا کردار، یزیدیت پر عمل پیرا تاریخ کے مختلف ادوار کے کرداروں اور ان کی کارستانیوں کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے تو دوسری طرف اس دور سے اہل ایمان، اہل حق اور حقیقت پسند افراد جن کا تعلق شیعیت سے ہو نہ ہو، وہ اپنا حق ادا کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف ایریاز اور علاقوں کے بعض نامور لوگ بڑی شد و مد سے حسینیت کا پرچم سربلند رکھے ہوئے ہیں، ہمیں ان کی کمک اور پشتبانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک زمانہ تھا، جب بڑے بڑے مناطر ہماری مجالس میں للکارتے تھے، چیلنج دیتے اور چیلنج قبول کرتے تھے، اب ان کا وقت نہیں رہا، اب وقت ہے شارٹ اور مختصر انداز میں ویڈیو ریکارڈ کو نشر کرکے کسی بھی ایشو کا جواب دیا جائے اور حقیقت ایسے بیان ہو کہ مخالف بھی قبول کر لے۔ جیسے بعض حضرات احادیث بیان کرتے ہوئے باقاعدہ دونوں طرف کے موثر لوگوں کی آرا ٗ کو بڑے مناسب انداز سے پیش کرتے ہیں کہ ریفرنس کے ہوتے ہوئے کوئی بھی اس کو قبول کر لیتا ہے۔
اس بار ہم دیکھ رہے ہیں کہ حسینیت کے مخالفین نے وہ سارے کام کر لیے ہیں، جو ان لوگوں کے بنیادی مطالبات کی شکل میں سامنے آئے تھے یا جن کی بنیاد ہی ان لوگوں نے اپنی انجمن سازی کی تھی۔ مثال کے طور پر یہ مطالبہ شروع سے تھا کہ مجالس و جلوسوں کو محدود کرکے چار دیواری میں کیا جائے، اب یہ لوگ اپنی پسنددیدہ شخصیات کے جلوس بڑی شاہراہوں پر لے کر آتے ہیں۔ ہمیں کہا جاتا تھا کہ چودہ سو برس پہلے ہوئے واقعہ کا غم کیسا، غم تو تین دن کا ہوتا ہے، جبکہ خود چودہ صدیاں پہلے گزر جانے والوں کا یوم منا کر بتاتے ہیں کہ ہم فلان کے پیروکاران ہیں۔ یہ لوگ اہلبیت اطہار بالخصوص مولا حسین ؑ کے نام پر لوگوں کو سبیل کی شکل میں پیش کیے جانے والے پانی، شربت، دودھ اور نیاز کو شرک کہتے نہیں تھکتے تھے، مگر اب یہ حالت ہوچکی ہے کہ اپنی پسندیدہ شخصیات کے دن مناتے، ان کے نام کا لنگر پیش کرتے فخر کا اظہار کر رہے ہیں۔
پرچم عباس کی نقل بھی دیکھی جا رہی ہے، اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ یزید پلید کا دفاع کرنے والے، اس کو صحابی رسول بنا کر اس کے حق میں جھوٹی احادیث لانے والے بھی بے نقاب ہیں، ایسا لگتا ہے کہ حجت آخر، منتقم خون حسین (ع) کی آمد سے پہلے سب کے قبیلے واضح ہو جائیں گے، ہم کربلا والے ہیں، ہم حسینی ہیں، ہم عاشورائی ہیں، ہم حسینیت کا پرچم سر بلند رکھے ہیں اور اس پرچم کو سربلند رکھیں گے، چاہے ہمیں لبنان کو کربلا بنانا پڑے یا یمن کو، عراق کو یا شام کو، حجاز کو یا نائجیریا کو، پاکستان کو یا بحرین کو، ہم ساری دنیا کو کربلا بنا دیں گے، کربلا ہماری ہے، ہم کربلا کے ہی، ہم حسینیت کا پرچم سر بلند رکھیں گے۔
بشکریہ اسلام ٹائمز