سیاسیات- اسرائیلی حکام نے یرغمالیوں کی رہائی میں خود اپنے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو رکاوٹ قرار دے دیا۔
ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق ایک طرف حماس یرغمالیوں کو رہا کرنے پر تیار ہے جس کےلیے وہ اپنے سب سے اہم مطالبے غزہ میں پیشگی جنگ بندی سے بھی دستبردار ہوگئی ہے اور مذاکرات کی امریکی پیشکش قبول کرلی ہے۔
وہیں دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے بات چیت کےلیے ناقابل قبول شرائط کی فہرست تھمادی جس میں یہ شرط بھی شامل ہے کہ اسرائیل کو جب چاہے دوبارہ جنگ چھیڑنے کا حق حاصل ہوگا۔
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اسرائیلی سیکیورٹی حکام اور ثالثوں نے وزیراعظم پر یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے امکان کو جان بوجھ کر سبوتاژ کرنے کا الزام لگایا ہے۔
اسرائیلی سیکیورٹی ایجنسی شاباک کے سربراہ کی قیادت میں مذاکراتی ٹیم یرغمالیوں سے جنگ بندی کے معاہدے پر بات چیت کے لیے قاہرہ روانہ ہونے والی ہے۔
ایسے میں بنجمن نیتن یاہو نے مطالبات و شرائط کی ایک فہرست پیش کردی ہے جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ ان شرائط کو لازمی تسلیم کرنا ہوگا، جن میں اس بات کی ضمانت بھی شامل ہے کہ اسرائیل جب چاہے جنگ دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔
یرغمالیوں کی رہائی کےلیے ہونے والے مذاکرات کے اس اہم موقع پر نیتن یاہو کی اس حرکت سے نہ صرف اسرائیلی حکام بلکہ ثالث ممالک بھی شدید برہم ہیں اور کچھ نے نیتن یاہو پر بڑی مشکل سے ہونے والی اس پیش رفت کو سبوتاژ کرنے کا الزام لگایا۔
اسرائیلی میڈیا ہارٹز کے مطابق موساد کی غیر ملکی انٹیلی جنس سروس کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا نے بھی قطر میں ثالثوں کو نئے مطالبات کی فہرست تھمادی ہے جس کی وجہ سے مذاکرات میں خلل پڑنے کی توقع ہے اور ان مطالبات کو تسلیم کرنا حماس کےلیے بہت مشکل ہوگا۔
اسرائیلی اپوزیشن جماعتیں، میڈیا اور یرغمالیوں کے اہل خانہ سبھی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر کڑی تنقید کررہے ہیں اور اس پر الزام لگارہے ہیں کہ وہ محض اپنی سیاست کے لیے جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی کوششوں کو ناکام بنارہا ہے۔