تحریر: سید روح اللہ رضوی
“اے اللہ! تیرا شکر کہ تو نے مجھے علی (علیہ السلام) کی اولاد پر گریہ کرنے کی توفیق دی جو ایسی بے قراری ہے جس میں سب سے بڑھ کر قرار ہے، ایسا غم ہے کہ جس میں سکون اور روحانیت ہے۔” شہید سردار کی وصیت سے اقتباس
عزاداری امام حسین علیہ السلام در حقیقت تحریک و قیام امام حسین علیہ السلام کا تسلسل ہے، مقصد و ہدف وہی ہے جو امام علیہ السلام کے قیام کا ہدف و مقصد تھا۔ مدینہ سے مکّہ اور مکّہ سے کربلا تک امام عالی مقام علیہ السلام کے کلمات، خطوط و تقاریر ان اہداف و مقاصد کے بیان کے لئے کافی ہیں؛ ان بیانات کا خلاصہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر، معاشرے کی اصلاح، کتاب الہی و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سیرت امیر المومنین علیہ السلام کا احیاء، بدعتوں کا خاتمہ، نااہل حاکمیت کی برطرفی اور حکومت الہیہ کی زمینہ سازی، ظلم اور فسق و فجور کے مدمقابل سکوت اختیار کرنے والوں کی مذمت ہے۔
عزاداری بھی اسی تحریک کا تسلسل ہے جسے یزید (لع) نے ۶۱ھ میں ختم کرنا چاہا لیکن سید سجاد و سیدہ زینب سلام اللہ علیہما کے خطبوں نے اسے گلی گلی، قریہ قریہ پہنچا دیا اور آج ۱۴۴۳ھ (۱۴۴۵ھ) کے اختتام تک یہ تحریک؛ عزاداری کی شکل میں ایک چمکتے سورج کی مانند زندہ ہے اور انسانیت کی ہدایت کا سبب ہے۔ آج اس تحریک کا عَلَم ہمارے ہاتھ میں ہے پس یہ ذمہ داری بھی ہماری ہے کہ بالخصوص عزاداری میں ان اہداف کو مد نظر رکھیں جو سید الشہداء علیہ کے مد نظر تھے۔ اور ہر اس عمل سے بیزاری اختیار کریں جو ان اہداف کے مدمقابل قرار پارہا ہو۔ (جاری ہے)