تحریر: سبطین رضا
مذہب کے نام پر لوگ اتنی عبادت نہیں کرتے جتنی نفرت کرتے ہیں۔ انسانی تاریخ ایسے ہزار ہا واقعات سے عبارت ہے کہ ایک انسان کا کسی دوسرے انسان کو قتل کرنے کے لیئے سب سے مضبوط ہتھیار عقیدے اور مذہب کے نام سے فرد جرم لگا کر کے اسے ختم کر دیتا رہا ہے۔ مذہب اور عقیدے کی بنا پر انسانی نسل کشی کے واقعات آئے روز نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت اور دوسرے ممالک میں زور پکڑ رہے ہیں ۔
یہاں مذہب پرستی کے نام پہ ہونے والے واقعات پر روشنی ڈالوں گا۔
اسلام دین رحمت ہے اسکا دامن محبت سازی پر محیط ہے۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو سخت تاکید کی ہے کہ وہ دیگر اقوام اور اہل مذہب کے ساتھ مساوات ، ہمدردی، غمخواری اور رواداری کا معاملہ کریں اور اسلامی نظام حکومت میں انکے ساتھ کسی طرح کی زیادتی بھید بھاؤ اور امتیاز کا معاملہ نہ کیا جائے۔ انکے جان و مال عزت و آبرو اموال اور جائیداد اور انسانی حقوق کی حفاظت کی جائے۔
اسلام اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا یے کہ بے ضرر کافروں پہ ظلم کی جائے یہ کام اسلام کی نظر میں غیر مطلوب اور انتہائی نا پسندیدہ ہے۔ اسلام نے کفار مکہ یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ بھی کھل کر حسن و سلوک کی ہدایت دی ہے۔
اسلام نے جہاں رشتہ داروں قرابت داروں کے حقوق متعین کیئے ہیں وہیں قیدیوں عام انسانوں اور غیر مسلم رعایا کے حقوق کی بھی وضاحت کی ہے۔
لاقانونیت کسی بھی معاشرے کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے جبکہ پاکستان کے تھانے رشوت کا گڑھ بن چکے ہیں، عدالتوں میں انصاف کوڑیوں کے بھاؤ بکتا ہے۔ امیر اور غریب کے لیئے یکساں قانون نہ ہونا عام آدمی کو آم کی طرح چوسا جاتا ہے جبکہ کوئی با اثر شخص ظلم و زیادتی کرتا ہے تو پہلے تو کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کی جاتی اور اگر کی جاتی ہے تو نامعلوم شخص کے نام پر کی جاتی ہے اور اگر متعلقہ با اثر شخص کے خلاف بھی کی جائے تو حوالات میں ایسی آسائشیں مہیا کی جاتی ہیں جیسا کہ کوئی نیکی کا کام بجا لایا ہو۔
آجکل مبحث واقعات میں فرقہ واریت ، مذہب پرستی توہین رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور توہین معتبرک آسمانی کتابیں شامل ہیں ۔ یہاں زیادہ گہرائی میں جا کر کے کسی خاص فقہ ، مذہب کی بات کر کے انصاف کو محدود نہیں کرونگا ہر ملک کا ایک قانون ہوتا ہے اور رعایا کو چاہیے کہ اس پر دل و جاں سے عمل پیرا ہو نہ کہ خود سے عدالت لگا کر کے مذہبی انتشار پھیلائیں اگر مجرم کو سزا لوگوں نے خود دینی ہے تو معذرتانہ انداز میں یہی کہوں گا کہ تھانے ، کچہریاں عدالتوں کو تالے لگا دیئے جائیں تاکہ ہاتھوں ہاتھ فیصلہ ہو اور 19,20,21 گریڈ کے کالے عورتوں کے برقعہ نما بھیس میں ججز صاحبان اور وردیوں میں ملبوس افسران جو کہ بظاہر تو ملک و قوم کے خادم ہیں لیکن افسر شاہی برقرار رکھے ہوئے ہیں ان کو چاہیے کے گھروں میں بیٹھیں جو کہ سرکاری خزانہ پر ہر قسم کی جائز و ناجائز مراعات وصول کر کے بوجھ بنے ہوئے ہیں ۔
نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ دوسرے تمام مذاہب پر فرض ہے کہ کسی بھی مذہب عقیدے کی مقدسات کی توہین سے باز رہیں اس سے نہ صرف مذہب پرستی بلکہ عقیدے رکھنے والوں کی روح کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
یہاں میں 25 مئی 2024 کے سرگودھا مسیحی برادری کے ساتھ رونما ہونے والے واقعہ پر تھوڑی نظر دوڑاؤں گا
نذیر مسیحی نامی شخص کو زندہ جلا دیا گیا یہ کہہ کر کے (نعوذباللہ) اس نے قرآن پاک کے اوراق کو نذر آتش کیا ہے بحیثیت مسلمان مجھے خود اس بات سے تکلیف پہنچی لیکن اگر ایسا کچھ تھا بھی تو پاکستان میں قانون ہے ادارے تحقیقات کرتے اور قانون کی روسے احتساب کیا جاتا لیکن یہ حرکت کے ہجوم نے ملکر اپنا قانون بنایا اور انسانیت سوز واقعہ رونما ہوا جسکی جتنی مذمت کی جائے کم ہے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس یا پھر اقوام متحدہ کو چاہیے کے کسی بھی ملک میں کسی بھی مذہب پرستی کے نام پر قتل عام پر ایک قانون بنائے اور پھر اگر کوئی اس معاملے میں قصوروار ہے تو اسکو قومی/بین الاقوامی سطح پر لا کر سزا دی جائے تاکہ کسی بھی ملک میں کسی بھی مذہب اور فقہ کی توہین ہو روکا جائے ۔
فلسطین میں اسرائیلی یہودیوں کی طرف سے اور کشمیر میں مودی سرکار کی مذہب پرستی کے نام پر مسلم کشی ہو یا پاکستان میں مذہب کے نام پر قتل عام ہو اس پر لائحہ عمل تیارکیا جائے اور جلد از جلد عملدرآمد کروایا جائے ۔
اپنے عقیدے کی بالادستی اور دوسرے کے عقیدے کی بیخ کنی کرنا ، عقیدے تو شاید بالادست ہو جاتے ہیں لیکن انسانیت کہیں پستی میں جا گرتی ہے کیونکہ جبر اور قہر کے آگے بڑے بڑے پناہ مانگتے نظر آئے ہیں ۔
انسانیت بہت بڑا مذہب ہے گر سمجھا جائے
نہ سمجھا جائے تو کچھ بھی نہیں ہے پھر