سیاسیات ـ کئی حصوں میں بٹی قومی کرکٹ ٹیم بکھر کر رہ گئی جب کہ ورلڈکپ میں ناقص کارکردگی نے مسائل عیاں کردیے۔
ٹی 20 ورلڈکپ میں شریک پاکستانی ٹیم کو میزبان امریکہ اور پھر بھارت سے بھی شکست کے بعد پہلے ہی رائونڈ سے اخراج کا سامنا ہے، کمزور حریف سے مات کا صدمہ ابھی بھلایا نہیں جا سکا تھا کہ روایتی حریف کیخلاف جیتا ہوا میچ بھی ہاتھ سے نکل گیا۔اس سے قبل آئرلینڈ سے پہلا میچ ہارنے کے بعد بمشکل سیریز جیتی جبکہ انگلینڈ کیخلاف ناکامی ہوئی۔
سابق کرکٹرز اور ماہرین کھلاڑیوں کی غیرمعیاری کارکردگی سے ناخوش ہیں۔ذرائع کے مطابق قومی ٹیم کئی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے، کپتانی کے تنازع نے دوستوں کو حریف بنا دیا، کئی پلیئرز صرف کام کی حد تک ہی بات چیت کرتے ہیں، بعض گروپس تو مخصوص حوالوں کی وجہ سے بھی بنے ہیں، بورڈ حکام 15 کرکٹرز میں اس حد تک تقسیم سے حیران ہیں۔
ذرائع نے بتایا کچھ عرصے قبل تک بابر اعظم اور شاہین آفریدی کی اتنی دوستی تھی کہ قیادت میں تبدیلی کی بات پر ’’سوچنا بھی منع ہے‘‘ کا ٹرینڈ تک سامنے آیا البتہ پھر جب بابر کی جگہ شاہین کو کپتان بنایا گیا اور انھوں نے ذمہ داری قبول کر لی تو تعلقات میں دراڑ آ گئی۔
قومی ٹیم کے بیشتر اسٹار کرکٹرز کے ایک ہی ایجنٹ ہیں، ان کا بعض سابق کرکٹرز سے بھی قریبی تعلق ہے، یہ سب مل کر ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا جب شاہین آفریدی کو صرف ایک سیریز کی بنیاد پر کپتانی سے ہٹایا گیا اور بابر نے عہدہ قبول بھی کر لیا تو معاملات مزید خراب ہوئے۔
ذرائع کے مطابق بابر اعظم کوبطور کپتان کئی کرکٹرز سے وہ عزت نہیں مل رہی جس کے وہ مستحق ہیں۔ عماد وسیم اور محمد عامر کو بابر پسند نہیں کرتے مگر ان دونوں کو رٹائرمنٹ واپس لینے کے بعد ٹیم میں شامل کرایا گیا گروپنگ اور دوستی یاری کی وجہ سے ہی شاداب خان اور افتخار احمد ناقص کارکردگی کے باوجود مسلسل مواقع پا رہے ہیں۔
پی سی بی کے پاس اس حوالے سے ورلڈکپ سے قبل ہی رپورٹ موجود تھی لیکن بڑا ایونٹ سر پر آنے کی وجہ سے فوری ایکشن لینے سے گریز کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق نہ صرف کرکٹ ٹیم بلکہ بورڈ میں بھی گروپنگ ہے، ایسے لوگ ایک دوسرے کی ڈھال بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
آئندہ چند روز میں ان کیخلاف ایکشن لیا جائے گا، چیئرمین محسن نقوی قومی ٹیم میں بھی آپریشن کلین اپ کا عندیہ دے چکے، ورلڈکپ کے بعد اہم تبدیلیاں متوقع ہیں،بعض حیران کن فیصلے بھی سامنے آ سکتے ہیں۔