تحریر: عاصمہ شیرازی
عمران خان کیا کہہ رہے ہیں اور کیوں کہہ رہے ہیں؟ ’71 کا سچ‘ کہنے کے لیے اس وقت کا انتخاب کیوں کر رہے ہیں؟ یہ سب سوال اہم ہیں اور دلچسپ بات یہ کہ جواب نہ مقتدرہ کے پاس ہے اور نہ حکومت کو کچھ خبر؟
جو نظر میں ہے وہ دکھائی نہیں دے رہا اور جو دکھائی دے رہا ہے وہ سُجھائی نہیں دے رہا۔ کل تک لگائے جانے والے اندازے اور خدشے آج حقیقت کا روپ دھارے سامنے کھڑے ہیں۔ ہم بند گلی میں جا چکے ہیں۔ وقت تیزی سے نکل رہا ہے۔
قوم ہجوم میں بدل رہی ہے اور بے لگام ہجوم بغیر رہنما کے کسی موقعے کی تلاش میں ہے۔ انقلاب کے نام پر انتشار، جمہوریت کی جگہ مقبولیت، رہبر کی جگہ ڈھنڈورچی لے چکے ہیں۔ عوامی رائے، شخصیت پرستی اور اجتماعی دانش فرد واحد کے ہاتھ یرغمال ہو چکی ہے۔
اداروں کے درمیان اختیار کی جنگ اقتدار کو بے وقعت کرچکی ہے اور نمائندہ پارلیمنٹ ’ڈبیٹنگ کلب‘ کا درجہ بھی کھو چکی ہے۔ ڈھونڈنے سے بھی کوئی مثبت اور خوش کن خیال نہیں، خبر نہیں۔
طاقت اور ادارہ جاتی اختیار کی لڑائی کیا آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے؟ جس ملک میں مقتدرہ اور عدلیہ تقسیم ہو اور دو مخالف سیاسی دھڑوں میں محلول ہو جائے وہاں حادثے کیسے رک سکتے ہیں۔ مقتدرہ طاقت کو برقرار رکھنے کی آخری کوشش میں ہے تو عدلیہ اپنی طاقت کے حصول کے لیے کوشاں۔
پارلیمنٹ پہلے ہی اپنی تکریم کھو چکی ہے جبکہ حکومت کہیں نظر نہیں آتی۔ اس کشکمش اور محاذ آرائی میں ریاست ایک ایسی جگہ پہنچ گئی ہے جہاں اختیار کی کھینچا تانی نظام کو برہنہ کرتی چلی جا رہی ہے۔
جس محنت سے نظام بگاڑا گیا ہے اب اتنی ہی محنت سے نظام کو ٹھیک بھی کیا جانا چاہیے لیکن بدقسمتی سے وقت اب میسر نہیں، جس جانفشانی سے مملکت کو تقسیم کیا گیا ہے، اسی لگن سے متحد کرنے کی کوشش کرنا ہوگی مگر وقت کہاں ہے۔
ایک جانب معاشی محاذ پر آئی ایم ایف کے مطالبات کی فہرست اور چین کے قرضوں سے مشروط پیکج تو دوسری جانب ہمارے لیے محدود راستے، اصلاحات کے تقاضے اور سکڑتی جیب۔ اور پھر عمران خان کی جون جولائی میں پاکستان میں کشمیر طرز کے احتجاج کی دھمکی، جیل کی چکی میں اصل حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ کی تشہیر، معلوم ٹوئٹر ہینڈل سے نامعلوم بیانیے کی موجودہ حالات سے تشبیہ، عوامی ذہن سازی اور بین الاقوامی میڈیا پر ’نامعلوم‘ انٹرویو۔
بڑھتے، مچلتے عوامی جذبات کا رخ موجودہ فوجی سربراہ یا یوں کہیے کہ سنہ 71 کے ذمہ داروں کے ساتھ موجودہ آرمی چیف کا موازنہ، سب سمجھ آ رہا ہے لیکن خدا کرے کہ نہ سمجھے کوئی۔
قابلِ اعتراض بات یہ نہیں کہ عمران خان کے بھیجے گئے جوابات امریکہ میں کیسے شائع ہوئے؟ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اب تک ذرائع دستیاب نہیں ہوسکے کہ آرٹیکل اور جواب نامے کیسے جرائد کی زینت بنتے ہیں۔
عمران خان کی ٹیم لاعلم ہے جبکہ عمران خان سوشل میڈیا کو زبردست خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ عمران خان کیا کہہ رہے ہیں اور کیوں کہہ رہے ہیں؟ عمران خان امریکہ سے الزام واپس لے کر دوبارہ جگری دوست باجوہ صاحب کے گرد کیوں ہو گئے ہیں اور ’71 کا سچ‘ کہنے کے لیے اس وقت کا انتخاب کیوں کر رہے ہیں؟
یہ سب سوال اہم ہیں اور دلچسپ بات یہ کہ جواب نہ مقتدرہ کے پاس ہے اور نہ حکومت کو کچھ خبر؟
مقتدرہ دیوار کے ساتھ لگائی جا رہی ہے جبکہ طاقت کا مرکز تیزی سے فردِ واحد یعنی عمران خان کی جانب بڑھ رہا ہے۔ سیاست کے طالب علم کے طور پر یہ ایک خوش کن بات ہے لیکن طاقت کا حصول کیا جمہوریت کے لیے ہے یا فرد واحد کی ذات کے لیے، آئین کے لیے ہے یا شخصیت پرستی کے لیے، سماج کے لیے ہے یا اشرافیہ کے لیے جبکہ دوسری جانب مقتدرہ طاقت کا مرکز بننے کے لیے سیاست کا استعمال کر رہی ہے یا سیاست سے نکلنے کے لیے بھرپور سیاست کا کھیل؟
بشکریہ انڈیپینڈینٹ اردو