تحریر: ڈاکٹر علی محمد جوادی
امریکہ نے 7 اکتوبر 2023 طوفان الاقصی آپریشن کے فورا بعد اسرائیل کے ساتھ پوری قوت کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا اور اسرائیل کی سلامتی کے لئے ہر قسم کی مدد سے گریز نہیں کیا۔ الاقصیٰ طوفان آپریشن کے صرف ایک گھنٹے بعد بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو ہنگامی امداد بھیجنے کے لیے 2 بلین ڈالر مختص کرنے کا اعلان کیا۔ 20 اکتوبر کو بائیڈن حکومت نے دنیا کے مختلف حصوں میں امریکہ کے اتحادیوں کی مدد کے لیے 106 بلین ڈالر کا منصوبہ مختص کیا جس میں سے صیہونی حکومت کی مالی امداد کے لیے 14 بلین ڈالر مختص کیے گئے۔۔ اسرائیل نے 7 اکتوبر کی ھمہ گیر شکست کا انتقام لینے کے لئے جب غزہ کے نہتے مسلمانوں پر ہر طرف سے حملو کا آغاز کیا تو امریکہ نے حماس کی طاقت کو کچل نے کے لئے بے دریغ مہلک ہتھیار اسرائیل پہنچایا۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق 7 مارچ 2024 تک امریکا سے مختلف قسم کے ہتھیاروں کی 100 سے زائد کھیپ مقبوضہ فلسطین بھیجی جا چکی ہے جس کا وزن 20000 ٹن بتایا جاتاہے۔ سیاسی محاذ پر، امریکہ نے اب تک تل ابیب کے حق میں سلامتی کونسل کی پانچ قراردادوں کو ویٹو کر دیا ہے اور صہیونیوں کے جرائم کی مذمت اور غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے عالمی اتفاق رائے پیدا نہیں ہونے دیا۔ حتیٰ کہ جب واشنگٹن نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنے ویٹو کا حق استعمال نہیں کیا تو اس نے صیہونی حکومت کے لیے اس کونسل کی قرارداد کو غیر لازم الاجراء قرار دیا۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ ایران کے جوہری تنازعے کے دوران امریکی حکام نے ہمیشہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیتا رہا لیکن غزہ جنگ کے تجربے نے ظاہر کیا کہ اسرائیل کی سلامتی امریکہ کے لئے کتنی اہم ہے اور اسرائیل کی سلامتی کی حفاظت کے لئے امریکہ سلامتی کونسل کی ایک جیسی قرادادوں کی اہمیت میں بھی ڈبل اسٹینڈرڈ کا قائل ہوا۔
یہی امریکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں ڈیمو کریسی نہ ہونے کا ڈنڈورا پیٹ تا ہے اور ڈیموکریسی کو انسانی حقوق کا ضامن قرار دیتا ہے جبکہ دنیا کا اعلی ترین سیاسی ادارہ سلامتی کونسل میں پانچ ملکوں کی ڈیکٹیٹر شپ قائم ہے جب چاہے ویٹو کا حق استعمال کرکے دنیا کے کمزور قوموں اور انسانوں سے جینے کا حق بھی چھین لیتے ہیں۔ امریکہ نے اپنی ناجائز اولاد اسرائیل کی سلامتی کے لئے 1948 سے اب تک سلامتی کونسل کی 80 سے زائد قرار دادوں کو ویٹو کرکے فلسطینیوں سے جینے کا بنیادی ترین حق بھی چھین لیا ہے جبکہ دوسری طرف سے دنیا میں ڈیمو کریسی اور انسانی حقوق کی علمبر داری کا بے شرمانہ اور جھوٹا دعوا بھی کرتا ہے!!
امریکہ 8 مہینے تک اپنے مہلک ہتھیاروں کی ترسیل، اربوں ڈالر کی مالی مدد اور سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے لئے پیش گئی قراردادوں کو ویٹو کرکے، غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں اسرائیل کے ساتھ شریک جرم رہا ہے۔
اب تعجب آور بات یہ ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے تین مرحلوں پر مشتمل فار مولہ پیش کیا ہے!
اس فارمولے میں جنگ کے مکمل خاتمے، غزہ کے مہاجرین کی واپسی، اسیروں اور قیدیوں کا تبادلہ اور غزہ کی تعمیر نو شامل ہے۔
بائیڈن نے اس فارمولے کو “مستقل جنگ بندی اور تمام قیدیوں کی رہائی کا روڈ میپ” قرار دیا ہے۔
بائیڈن کے فار مولے میں حماس کی نابودی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ جبکہ حماس کی نابودی، اسرائیل کی غزہ پر جارحیت کے اہم ترین اہداف میں سے ایک تھا جس کی حمایت خود امریکہ نے بھی کی تھی۔
حماس نے بھی مذکورہ فارمولے پر ابتدائی رد عمل میں کہا ہے کہ اس فارمولے کو مثبت نگاہ سے دیکھتے ہیں، لیکن اسرائیل نے ابھی تک بائڈن کے اس فارمولے کے متعلق کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے
اب سوال یہ ہے کہ کیا چیز سبب بن گئی کہ امریکہ اسرائیل کی خواہش کے بر خلاف غزہ میں جنگ بندی کے لئے فارمولہ پیش کرنے پر مجبور ہوگیا ہے؟!
غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور فلسطیوں کی نسل کشی نے بہت سارے پوشیدہ حقائق کو دنیا کے لئے آشکار کر دیا ہے۔ جن میں 75 سالہ فلسطین پر ناجائز قبضہ، فلسطینیوں پر اسرائیلی 75 سالہ جرائم، صہیونیوں کے انسانیت دشمن اعتقادات، اور دہشگردانہ ماہیت اور خطے میں اسرائیل کی شرارت اور انسانیت سوز جرائم کے پیچھے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا تاریخی کردار سب کے لئے واضح اور آشکار ہوگیا ہے۔ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی اب ان تاریخی حقائق کو اپنی میڈیا کے زریعے مزید چھپانے اور دنیا والوں کو مشرق وسطی کی الٹی اور غیر حقیقی تصویر دیکھاکر بے وقوف بنانے سے ناکام ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ یہ ممالک بھی دنیا والوں کی نظروں میں ذلیل اور رسوا ہورہے ہیں۔ لہذا میرے خیال سے درج ذیل 4 اہم عوامل جنگ بندی کی نا خواستہ کوششوں کے لئے محرک بن گئے ہیں۔
1۔ پوری دنیا میں اسرائیل اور امریکہ کے خلاف بڑھتی ہوی عوامی نفرت؛ مذکورہ حقائق کے سامنے آنے پر پوری دنیا میں اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کی ہمدردی میں بڑے بڑے مظاہرے ہوے اور اسی ابتدا سے ہی عوام نے فورا جنگ بند کرنے کا مطالبہ کیا لیکن امریکہ اور اسرائیل نے ان سنی کر کے طاقت کے زور پر اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کی مگر 8 مہنے مسلسل جنگ کے بعد بھی اہداف کے حصول میں ناکام رہے ہیں خصوصا رفح میں پناہ گزین کیمپوں پر اسرائیلی وحشیانہ حملے کے بعد دنیا میں اسرئیل اور امریکہ کے خلاف نفرت کی نا تھم نے والی موج چلی ہے اب امریکہ کو یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ عالمی رائ عامہ ان کے منفی اور مہلک اقدامات کے خلاف ہے اور اپنے مخدوش اور مکروہ چہرے کی دوبارہ سے سرجری کرنا چاہتاہے۔
2۔ امریکہ میں جوبائڈن انتظامیہ کے خلاف بڑھتی ہوی عوامی نفرت اور آنے والے صدارتی انتخابات میں پارٹی کی آبرو داری؛ امریکہ کی تاریخ میں شاید پہلی بار ایسا ہواہے کہ عوام حکومت کی خارجہ پالیسی کے خلاف میدان میں اتری ہے اور دن بہ دن احتجاج میں اضافہ ہوتا جارہاہے۔ خصوصا امریکہ کے اعلی تعلیمی اداروں میں اساتید اور اسٹوڈینس میں بیداری کی لہر چلی ہے۔ فلسطین کے مسئلے پر اپنی حکومت کے ظالمانہ اور غیر انسانی اقدامات کو سمجھ چکے ہیں اور ان کا جائز مطالبہ ہے کہ اسرائیل کی ناجائز سفاک حکومت کو مہلک ہتھیاروں کی ترسیل اور اربوں ڈالر مالی مدد کرنا بند کردو ۔ یونیورسٹی کے طلبا نے اعلان کیا ہے کہ جب تک اسرائیل کی مدد بند نہ ہوجائے گی اپنا احتجاج جاری رکھیں گے ۔ طلبا اور اساتید کا پر امن احتجاج کے باوجود اب تک 3000 سے زائد طلبا اور اساتید گرفتار ہوچکے ہیں سنکڑوں طلبا کو تعلیمی حق سے محروم کیا گیا ہے سینکڑوں کے تعلیمی اسناد باطل کردئے گئے ہیں۔ سینکڑوں کو امریکہ سے اخراج کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود احتجاج شدت کے ساتھ جاری ہے۔اب امریکی جامعات کے طلبا کے نام رہبر معظم حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا لیٹر میڈیا میں آنے اور طلبا میں اس کی بھر پور پذیرائی کے بعد بائدن انتظامیہ بوکھلاہٹ اور اضطراب کا شکار ہوچکی ہے۔ اگر یہیں احتجاج انتخابات تک جاری رہے تو الیکشن میں بائڈن کو شکست کا قوی امکان ہے اس لئے بائڈن چاہتا ہے صدارتی الیکشن سے کم ازکم چار پانچ مہینے پہلے غزہ میں جنگ بندی ہوجائے تاکہ اس عرصے میں اپنی حیثیت رفتہ کی ترمیم کرسکے۔
3۔ اسرائیل کی تاریخ میں طولانی ترین جنگ کے بڑھتے ہوے اخراجات سے روک تھام اور صہیونی حکومت کو اقتصادی نابودی سے بچانا؛ عسکری ماہرین کے مطابق اسرئیل کی غزہ پر جنگ میں اس رژیم کا روزانہ 100 ملین ڈالر کے قریب اقتصادی نقصان ہورہاہے ۔ مقبوضہ فلسطین کا شمالی علاقہ جوکہ اسرائیل کا اقتصادی پوائنٹ بھی ہے روزانہ مسلسل حزب اللہ کے میزائلوں اور ڈرون طیاروں کی زد میں ہے اور بہت سارے کارخانے نابود ہوچکے ہیں دیگر خانے بیٹھ گئے ہیں اسرائیل کے شمال سے لاکھوں صہیونی علاقہ چھوڑکر تل ابیب کے ہوٹلوں اور مسافر خانوں میں حکومت کے خرچے پر رہ رہے ہیں اور واپس جانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
ادھر سے بحیرہ احمر اور دریای عدن میں اسرائیل جانے والی تجارتی کشتیوں کے خلاف یمنی انصار اللہ کی کاروائیوں نے اسرائیل کی ایلات بندر گاہ کو ویران کرکے رکھ دیا ہے اور دیگر بندر گاہوں میں بھی تجارتی کشتیوں کی رفت وآمد 50 فیصد کم ہوچکی ہے۔ اگر یہ مہلک جنگ جاری رہی تو اسرائیل کو یقینی طور پر ناقابل تلاقی اقتصادی نقصان ہوجائے گا۔ جس کو سنبھالنا بعد میں امریکہ کےلئے بھی مشکل ہوجائے گا کیوں کہ عوامی بیداری کے بعد اب امریکہ کے لئے بھی اتنا آسان نہیں ہوگا حکومت، امریکی عوام کے ٹیکس سے اسرائیل کی مالی مدد کرسکے۔ لہذا اسرائیل کو نابودی سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ اقتصادی ناقابل تلافی نقصان سے روک تھام کیا جائے یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ غزہ میں دائمی جنگ بندی ہوجائے۔
4۔ محور مقاومت میں مزید ملکوں اور گروہوں کی شمولیت اور اسرائیل کو مزید کمزرو ہوجانے سے بچانا؛ غزہ اس وقت پوری دنیا میں انسانیت، وجدان اور انسانی شرافت کا میزان بن چکا ہے۔ آئے روز نسل کشی کی وجہ سے ملسمانوں کے غم و غصے میں اضافہ ہوتا جارہاہے۔ مسلمان ملکوں کے بہت سارے گروہوں نے راہ داری مل جانے کی صورت میں فلسطین جاکر اسرائیل کے خلاف لڑنے کے لئے اپنے عزم و ارادے کا اظہار کیا ہے۔ اگر غزہ میں جنگ جاری رہی تو مستقبل قریب میں مسلمان ملکوں میں نئے مزاحمتی گروہ وجود میں آئیں گے اور پہلے سے محور مقاومت میں موجود ملکوں اور گروہوں کی طاقت میں اضافہ ہوجائے گا یوں محور مقاومت کی طاقت اور بھی بڑھ جائے اور دوسری طرف سے روز بہ روز اسرائیل پہلے سے زیادہ کمزور ہوتاجائے گا اور مکمل مزاحمتی تحریکوں کے حصار میں آجائے گا۔ غزہ کی جنگ میں واضح ہوگیا کہ اب نہ امریکہ کی طاقت کام آئے گی اور نہ ہی اسرائیل کوئی غلطی کر سکے گا۔ کیوں کہ مقاومت نے اپنی توانائیوں کا لوحا منوایا ہے۔ اپنے ہتھیاروں کا تجربہ اس جنگ میں کرکے دشمن کو دیکھایا ہے۔ بائڈن نے اعتراف کیا ہے کہ اگر امریکہ اور اس کے اتحادی اسرائیل کی مدد نہ کرتے تو پھر ایران کا اسرائیل پر حملہ تباہ کن تھا اور ادھر سے امریکی طیارہ بردار بحری بیڑہ ہائزن ہاور بھی انصار اللہ یمن کے بلیسٹک میزایلوں کا پہلی بار نشانہ بن چکا ہے، ایسے میں غزہ جنگ کاجاری رہنا امریکہ کی مصلحت میں نہیں ہے اگر غزہ کی جنگ جاری رہی تو امریکہ حطے کے ملکوں اور عوام میں بے آبرو آور مزید رسوا ہو جائے گا۔ محور مقاومت کی مزید توانائیان آشکار ہو جائیں گی اور امریکہ و اسرئیل کی مزید کمزوریاں اور ناکامیاں ظاہر ہوتی جائیں گی۔ اس لئے غزہ میں دائمی جنگ بندی ان کی عافیت میں ہے۔ وگرنہ بائڈن کی اچانک انسانیت نہیں جاگی ہے نہ اس میں انسانی وجدان بیدار ہواہے اور نہ ہی اس کو فلسطینیوں کے انسانی حقوق یاد آئے ہیں بلکہ غزہ میں جنگ بندی اس کی اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کی مجبوری بن چکی ہے۔