تحریر : عصمت اللہ شاہ مشوانی
ایک بات ہو تو بتاوّں ایک کام ہو تو بتاوّں ایک مسلہ ہو تو بتاوّں اگر بات بتانے اور سمجانے تک کی ہوتی تو ٹھیک ہوتا مگر افسوس کہ میں جاوّں تو کس کے پاس اور کیوں جب مجھے اپنوں نے ایک لمحے کیلئے بھی اپنا نہیں سمجھا تو میں شکایت کس سے کروں یہاں میرا نام تو ہر کوئی استعمال کرتا ہے مگر بات وہی ہے کہ مجھے آخر کب ترقی ملیے گی میں کب اپنے پاوّں پر کھڑا ہونگا میرے اپنوں کی مثال کچھ اسطرح ہے جنہوں نے مجھے اپنا سمجھا ہی نہیں آپ سے میں یہ سب نام ضروری شئیر کرونگا میرے نام کا استعمال پہلے دن سے آج تک یعنی کہ
1) عطا اللہ مینگل 1973
2) جام غلام قادر خان 1973
3) محمد خان باروزئی 1976
4) جام غلام قادر خان 1985
5) میر ظفر اللہ خان جمالی 1988
6) نواب اکبر بگٹی 1989
7) تاج محمد جمالی1990
8) ذوالفقار علی مگسی 1993
میر ظفر اللہ خان جمالی 1996
9) اختر جان مینگل 1997
10) میر جان محمد جمالی 1998
11) جام محمد یوسف 2002
12) محمد صالح بھوتانی2007
13) نواب اسلم رئیسانی 2008
14) عبد المالک بلوچ 2013
15) ثناء اللہ زہری 2015
16) جام کمال خان 2018
17) میر عبدالقدوس بزنجو
تا حال اگر آپ نے اب بھی مجھے نہیں پہچانا تو میں پاکستان کا صوبہ بلوچستان ہو اُوپر وہ نام اور سٙن آپ نے پڑھے جِنہوں نے میرا نام استعمال کرکے مجھے کچھ نہیں دیا یہ وہ تمام نام ہے جو وزیراعلیٰ بلوچستان صاحبان کہلاتے تھے اور اب بھی میرے بہت محترم صاحبان موجود ہے جو میرے بولے بالے عوام کو اپنی باتوں میں لاکر ان کو کہتے ہے کہ میں وہ کرونگا جو مجھے سے پہلے کسی نے نہیں کیا یہ باتیں صرف اُس وقت ہوتی ہے جب اُن کو میری نہیں اپنے کُرسی کی فِکر رہتی ہو آخر مجھ میں کیا کمی ہے جو میں اِتنا پیچھے رہ گیا میری خوبیاں کسی سے ڈکی چپی نہیں میرے پاس اوّل نمبر کے معدنیات موجود ہے میرے پاس قدرتی گیس موجود ہے میرے پاس دنیا کا بہترین بندرگاہ موجود ہے میرے پاس بہترین زمینے جو زمینداری کیلئے مشعور ہے موجود ہے میرے پاس کاروبار کے مختلف مواقعے موجود ہے میرے پاس دو ہمسایہ ممالک کے سرحد ہے میرے پاس خوبصورتی ہے میرے پاس بڑا رقبہ موجود ہے مگر جس کی مجھے اٙشد ضرورت ہے اُن میں سے میرے پاس کوئی چیز آج تک موجود نہیں نا میرے پاس اچھا تعلیمی نظام ہے نا میرے پاس کوئی اچھا نظام صحت ہے نا میرے پاس صاف پانی ہے نا میرے پاس بجلی ہے نا میرے پاس گیس ہے نا میرے پاس میرے نوجوانوں کیلئے روزگار ہے نا میرے پاس سڑکیں ہے وغیرہ وغیرہ میرے محترم رہنماءوں کو یہ سمجھ ہی نہیں آرہا کے ہمارے پاس سڑکیں ڈبل نا ہونے کی وجہ سے روزانہ کتنی لاشیں اٹھائی جاتی ہے میرے رہنماءوں کو یہ پتہ ہی نہیں کہ روزانہ صحت کا اچھا نظام نا ملنے سے مجھ سے میرے کتنے پیارے اِس زندگی سے ہاتھ دوں بیٹتے ہے آخر مجھے کب ترقی ملیے گی آخر مجھے کب ترقی ملیے گی مجھے کب میرے ضروری او بنیادی نظام زندگی ملیے گی مجھے کب تعلیم ملیے گا مجھےاگر اچھا تعلیم ملیے گا تو میں دُنیا کے ہر مقام میں اپنی ترقی خود تلاش کرلونگا مجھے (صوبہ بلوچستان) کو میرے اپنوں مجترم حکمرانوں نے آج تک اپنا نہیں سمجھا اُنہوں نے مجھے اس وقت اپنایا جب اُن کو میرے نام کی ضرورت ہوتی ہو میرے رہنماء جب کُرسی سے اُتر جاتے ہے تو میرا نام استعمال کرتے ہے اور پھر کہتے ہے کہ ہمارے ہاں تو امن خراب ہے ہمارے ہاں ہمارے نوجوان لاپتہ ہوجاتے ہے ہمارا تعلیمی نظام ٹھیک نہیں ہمارا نظام صحت ٹھیک نہیں ہمیں ہمارا گیس نہیں دیا جارہا وغیرہ وغیرہ مجھے میرے مُلک کے سیکیورٹی اداروں نے ہر مقام پر بچایا میرا نام (صوبہ بلوچستان) جو اب تک پہچانا جاتا ہے اِس کے پیچھے وردی ہے تو میرے بولے بالے عوام اور میرے نوجوانوں آخر کب مجھے ترقیافتہ دیکھنا پسند کروگے یہ آپ نے سوچنا ہے اور یہ فیصلہ آپ نے ہی کرنا ہے…