سیاسیات- سیاسی اور ادارہ جاتی سطح پر فوری مفاہمت کیلئے اپنی کوششوں کا آغاز کرتے ہوئے سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم لودھی نے اداروں کیخلاف بد زبانی کے خاتمے، تمام سیاسی انتقامی کارروائیوں کی بندش اور موجودہ حکومت کو کم از کم دو سال تک چلتے رہنے کیلئے اپنی تجاویز پیش کی ہیں۔
پیر کو میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ریٹائرڈ جرنیل نے کہا کہ اگرچہ ابتدائی سطح پر ایسا لگتا ہے کہ متعلقہ فریقین کوئی سمجھوتا کرنا نہیں چاہتے لیکن ملک اور اس کے غریب عوام کی خاطر مخلص گروپس اور افراد کو بظاہر اس مشکل اور بڑے کام سے گھبرانا نہیں چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں کچھ سیاسی شخصیات کی حمایت حاصل ہے لیکن وہ اس کوشش میں شامل ہونے والوں کے نام اس وقت ظاہر کریں گے جب مفاہمت کی کوششوں میں مصروف گروپ مکمل ہو جائے گا۔
جنرل لودھی مصالحتی کوششوں کی خاطر دو سابق وفاقی وزراء سے رابطے میں ہیں اور مزید لوگوں کو گروپ میں شامل ہونے کی دعوت دے رہے ہیں۔
جنرل لودھی نے مطالبہ کیا ہے کہ قومی سکیورٹی کمیٹی کا غیر معمولی اجلاس بلایا جائے جس میں خصوصی طور پر چیف جسٹس پاکستان، بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان، میڈیا کی نمایاں شخصیات، کاروباری کمیونٹی کے افراد وغیرہ کو دعوت دی جائے اور مصالحتی امور پر بات کی جائے۔
ان کے مطالبات میں جو باتیں شامل ہیں وہ یہ ہیں: حریف سیاسی گروہوں اور اداروں کیخلاف ہر طرح کی بدزبانی اور جارحانہ مؤقف کی روک تھام، حکومت اور دیگر کی طرف سے سیاسی سطح پر انتقامی کارروائیوں کی بندش، انتخابی شکایات کے حوالے سے سیاسی محرکات کی بنیاد پر شروع کیے گئے ٹرائلز اور اپیلوں کے فیصلے کیلئے عدلیہ اور ٹریبونلز کو آزادانہ فیصلے کرنے دیے جائیں، پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے ذریعے سیاسی مخالفین کو ہراساں نہ کیا جائے، موجودہ حکومتوں (وفاقی اور تمام صوبائی) کو کم از کم دو سال (سال 2025 کے آخر تک) تک کام کرنے دیا جائے، جو لوگ انتخابی نتائج کو قبول نہیں کرتے وہ پرامن رہ سکتے ہیں اور احتجاجاً اس عبوری عرصے کے دوران حکومت کو کام کرنے دیں، انہیں خاموش احتجاج (جس میں بازوؤں پر پٹیاں باندھنے وغیرہ جیسے اقدامات شامل ہوں) کرنے دیا جائے جن میں تشدد کا عنصر نہ ہو، ان دو برسوں کے دوران سڑکوں پر یا بڑے پیمانے پر مظاہرے نہ کیے جائیں، تنظیمی مقاصد کیلئے اجتماعات کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
جنرل (ر) لودھی کا کہنا تھا کہ دو حقیقتوں کو سمجھنا ہوگا: اول، کوئی سیاسی گروپ پورے ریاستی انتظام کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ دوم، ریاست معاشرے کے بڑے حصے کی آواز اور خواہش کو دبا نہیں سکتی۔
انہوں نے سب کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ معیشت، سلامتی اور سیاست کیلئے سنگین نتائج کے ساتھ اگر ہم ایسے ہی تصادم کی راہ پر چلتے رہے تو اب ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں بچا۔
انہوں نے کہا کہ سب کو پتہ ہونا چاہئے کہ خاموشی کے باوجود زندگی کے تمام شعبوں (میڈیا، عدلیہ، انتظامیہ، تاجر برادری، وکلاء، طلباء، سابق فوجیوں وغیرہ) سے تعلق رکھنے والے ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی آواز بلند کر رہے ہیں اور آنے والے طوفان کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔