تحریر: عمر فاروق
سیاست میں روحانی اصطلاحات کااستعمال بڑھ گیاہے، آج کل لفظ ،،مرشد،،زیرعتاب ہے ،ایسے میں مرشدکے متعلق کچھ لکھنے کاارادہ ہی کررہاتھا کہ اتنے میں موبائل پرپیرومرشدخادم الامت ابوالحسن حضرت سیدنورزمان شاہ نقشبندی شاذلی کاحرمین شریفین سے صوتی پیغام موصول ہوااورڈھیروں دعائوں کے ساتھ ،،مرشد،،کے رموزواسرارکھلتے گئے ۔
حضرت سلطان ہاہوفرماتے ہیں کہ مرشد تین قسم کے ہوتے ہیں: مر شدِ د نیا۔ مرشدِ عقبی اورمرشد کامل اکمل۔
مرشد دنیا ۔مال ودولت ، عزت وشہرت اور رجو عاتِ خلق کا طا لب ہوتا ہے ، مرید کی ہڈیاں بیچ کھانے ، خا نقا ہیں بنانے ،زمین وآسمان کا سیر تما شا کرنے، صاحبِ کشف وکرامات ہونے اور بادشاہِ دنیا کے قرب وملا قات کا طا لب ہوتا ہے ۔ ایسی طلب کا تعلق مرتبہِ مخنث(ہیجڑہ) سے ہے لہذا عارفِ دنیا مرشدمخنث ہوتا ہے ۔اس کا طا لب بھی مخنث ہو تا ہے۔(آج کل گھڑیوں کی خریدوفروخت کے حوالے سے جس آڈیولیک کاچرچاہے وہ شایداسی قسم سے تعلق رکھتی ہے )دوم مرشدِ عقبی۔ عابدزاہد ، ا ہلِ علم اور متقی وپر ہیز گا ر ہو تا ہے جس پر خوفِ جہنم سوار رہتا ہے اور ہر وقت طلبِ جنت میں عبا دت کرتا ہے ،اس کا تعلق مرتبہِ مئونث سے ہے اور اس کا طالب بھی مئونث ہی ہو تا ہے ۔ سوم مر شد کا مل اکمل جو عارفِ مولی عارفِ باللہ تو حیدِ الہی میں غرق صاحبِ حضور ہوتا ہے جو دنیا و عقبی سے دور اور اشغالِ اللہ میں مسرور ہوتا ہے ۔ اللہ بس ماسوی اللہ ہوس ۔(عین الفقر)
مرشدِ کامل کے بارے میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں:مرشدوہ ہوتاہے جومردہ قلب کو زندہ کرتا ہے زندہ نفس کو مارتا ہے۔مرشداس سنگِ پارس کی مثل ہوتاہے جو اگر لوہے کوچھو جا ئے تو لوہا سو نا بن جاتا ہے ۔مرشد کسوٹی کی مثل ہے ۔اس کی نظر آفتاب کی طرح فیض بخش ہوتی ہے جو طالب کے وجود سے خصائلِ بد کو مٹادیتی ہے۔مرشد رنگریز کی مثل ہے۔ مرشد تنبولی کی مثل ہے جو پا ن کے پتوں سے کار آمد پتوں کو چھانٹتا ہے۔
مہربان ایسا کہ ماں باپ سے زیادہ مہربان ،راہِ خدا کاہادی وراہنما ،گوہر بخش ایسا کہ جیسے کانِ لعل وجواہر ،موجِ کرم ایسے کہ جیسے دریائے در، منزل کشا ایسے کہ جیسے قفل کی چابی ، مال وزردنیا سے بے نیاز ،طمع سے پاک ،طالبوں کو اپنی جان سے عزیز تر رکھنے والا مفلس درویش۔مرشد مردوں کے غسا ل کی مثل ہوتا ہے اور ہر وقت مردہ طالب کی تلاش میں رہتا ہے جو ” موتوا قبل ان تموتوا (مرنے سے قبل مرجا)کا مصداق بن کر مرنے سے پہلے مرچکا ہو ، جس کا نفس مردہ مگر دل زندہ ہو اور ر اہِ فقر میں فاقہ کشی کرنیوالا ہو ورنہ نالا ئق طالب تو اپنی مرضی پر چلتا ہے۔
مرشد کمہار کی مثل ہوتا ہے جس کے سامنے مٹی دم نہیں مارتی، چاہے وہ اس سے جو بھی سلوک کرے۔مرشد کو چاہیے کہ وہ خدابین ہو اور طالب کو چاہیے کہ وہ صادق الیقین ہو۔ مرشد رفیق کو کہتے ہیں چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ”پہلے رفیقِ راہ تلاش کرو پھر راہ چلو”۔(آج کل کے سیاسی مرشدوں کے متعلق کہاجاسکتاہے کہ )اِس دور کے مرشد زرپرست ہیں ،نظر سے مٹی کو سونا بنانے والے مرشد نایاب ہیںآج کل کے مرشد زر پرست و زن پرست ہیں ،زر پر ست وزن پرست ودل سیاہ خود پرست ہیں۔
مرشد درخت کی مثل ہوتا ہے جو موسم کی سردی گرمی خود برداشت کرتا ہے لیکن اپنے زیرِ سایہ بیٹھنے والوں کو آرام وآرائش مہیا کرتا ہے مرشد کو دشمنِ دنیا اور دوستِ دین ہونا چاہیے اور طالب کو صاحبِ یقین، جو مرشد پر اپنی جان ومال قربان کرنے سے دریغ نہ کرے۔مرشد کو نبی اللہ کی مثل ہونا چاہیے اور طالب کو ولی اللہ کی مثل۔(عین الفقر)
گھڑیابیچ کریارشوت کے طورپرپلاٹ حاصل کرنے والوں کے ساتھ اللہ پاک کے مقربین، اولیا کرام یا سچی روحانی شخصیات کے ساتھ ذکر ہی بے ادبی ا ور بے انصافی ہے۔ مرشد سڑکوں کے کنارے اشتہار لگائے بیٹھے نہیں ہوتے اور نہ ہی گول مول باتوں سے لوگوں کو ورغلاتے ہیں۔ مرشد تلاش کرنا پڑتا ہے اور یہ تلاش طویل محنت، سچی لگن، استقامت، اللہ پاک سے بار بارالتجا و دعا، زہد و عبادت اور ذکر الہی کی آزمائشوں سے گزر کر ثمر آور اور شرمندہ تعبیر ہوتی ہے۔ بڑے ہی خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں منزلِ مقصود جلد مل جاتی ہے لیکن یہ جلد کامیابی بھی بزرگوں کی دعا اور کسی صاحب ِ نظر کا اعجاز ہوتی ہے۔ احترام انسانیت، سراپا محبت اور خلوص کے یہ نمونے برداشت کے سمندر ہوتے ہیں جنہیں ہم روحانی شخصیات کہتے ہیں۔ ان کا منتہائے مقصود صرف رضائے الہی ہوتا ہے۔
مرشدکیساہوتاہے ۔ جس ہستی کے پاس بیٹھ کر آپ سراپا مودب ہوجائیں، دل ذکر الہی کی جانب راغب ہو جائے، طبیعت میں عبادت کا میلان پیدا ہو اور گفتگو غور و فکر کے سانچوں میں ڈھلنے لگے، وہ ہستی صحیح معنوں میں روحانی اور اللہ والی ہوتی ہے۔ اگر آپ کا ان کے قدموں میں بیٹھے رہنے کو جی چاہے، آپ تھوڑی سی خود فراموشی کے عمل سے گزر رہے ہوں اور دل کو سکون اور طبیعت کو آسودگی مل رہی ہو تو سمجھ لیں کہ وہ ہستی مرشد ہے۔مرشد کا مطلب روحانی رہنما جو اپنے عقیدت مند کے باطن کی صفائی کرتا ہے اور یہ صفائی بہرحال برسوں پر محیط طویل عمل ہوتا ہے کیونکہ باطن میں تعصب غرور، حسد، انتقام ، دنیاوی عہدوں یا کتابی علم کے گھمنڈ، ہوس و حرص، بغض، جھوٹی انا وغیرہ کے بت توڑنا نہایت محنت اور توجہ طلب عمل ہوتا ہے۔ یہ عمل د ونوں جانب سے یکسوئی، استقامت اور زہد و عبادت کا متقاضی ہوتا ہے اور اکثر قلبی بیعت پر منتج ہوتا ہے۔
دلوں اور نگاہوں کے یہ رشتے ابدی نوعیت کے ہوتے ہیں اور دونوں جہانوں میں کام آتے ہیں۔ میں نے اپنی گناہگار آنکھوں سے دعا کو چٹانوں سے راستہ بناتے اور ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدلتے دیکھا ہے مرشد کی نگاہ اور عقیدت مند کی سچی لگن شرط ہے۔ دنیاوی حرص و ہوس اور لذتوں کی دلدل میں پھنسے ہوئے شخص کو اللہ کی راہ پر لگادینا ہی کرامت ہے اور یہ ایسی کرامت ہے جو دونوں جہان سنوار دیتی ہے۔ جو شخص کبھی اس راہ کا راہی نہیں رہا، جس کے اندر کبھی یہ تڑپ پیدا ہی نہیں ہوئی، جسے کبھی روحانی کیفیت کا تجربہ ہی نہیں ہوا، وہ کتابی علم کے زور پر پتھر برسائے یا تمسخر اڑائے اس سے فرق نہیں پڑتا۔ ضمیر ملامت کرے تو وہ زندہ ہے، اگرملامت نہ کرے تو وہ مردہ ہے۔
پس مرشدکسے کہتے ہیں ؟ جو دل کو زندہ کردے اور نفس کو ما ر دے اور جب طا لب پر جذب وغضب کی نگاہ ڈالے تو اس کے دل کو زندہ کردے اور نفس کو ما ردے ۔ مرشد اسے کہتے ہیں جو فقر میں اس درجہ کا مل ہو کہ اس نے خود پر غیر ما سوی اللہ کو حرام کر رکھا ہو اور ازل سے ابد تک احرام با ند ھے ہوئے حاجی بے حجاب ہو۔ایسا مرشد طبیب کی مثل ہوتا ہے اور طا لب مریض کی مثل ۔ طبیب جب کسی مریض کا علا ج کرتا ہے تو اسے تلخ وشیریں دوائیں دیتا ہے اور مریض پر لازم ہو تا ہے کہ وہ یہ دوائیں کھائے تاکہ صحت یاب ہوسکے۔
حضرت سلطان ہاہوکی زبان میں پھرکہوںگاکہ
کامل مرشد ایسا ہووے جیہڑا دھوبی وانگوں چھٹے ھو
نال نگاہ دے پاک کریندا وچ سچی صبون نہ گھتے ھو
میلیاں نوں کر دیندا چٹا وچ ذرہ میل نہ رکھے ھو
ایسا مرشد ہووے باھو جیڑا لوں لوں دے وچ وسے ھو
آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مرشد کامل کو دھوبی کی طرح ہونا چاہیے۔ جس طرح دھوبی کپڑوں میں میل نہیں چھوڑتا اورمیلے کپڑوں کو صاف کردیتا ہے اسی طرح مرشد کامل اکمل طالب کو وردوظائف ،چلہ کشی ،رنجِ ریاضت کی مشقت میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ اسمِ اللہ ذات کی راہ دکھا کر اور نگاہِ کامل سے تز کیہ نفس کر کے اس کے اندر سے قلبی اور روحانی امراض کا خاتمہ کرتا ہے اوراسے خواہشاتِ دنیااور نفس سے نجات دلاکر غیر اللہ کی محبت دل سے نکال کر صرف اللہ تعالی کی محبت اور عشق میں غرق کردیتا ہے اور ایسا مرشد تو طالب کے لوں لو ں میں بستا ہے۔