تحریر:قادر خان یوسف زئی
کسی بھی ملک و قوم کی مضبوطی کے لئے جدید ہتھیار، مستحکم معیشت، سیاسی استحکام اور عوام کے اتحاد کے ساتھ دفاعی افواج پر انحصار ناگزیر خیال کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام ممالک اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی قوم کی زندگی ایک مضبوط قومی دفاعی قوت سے لازم و ملزوم ہے۔ مروجہ طور پر اب جنگ کے پیمانے بدل چکے ہیں، جہاں تباہ کن ہتھیاروں نے دنیا میں تباہی مچائی تو مخالف پر دباؤ کے لئے قدرتی وسائل سمیت تجارتی پابندیوں کا ہتھیار استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر1973 ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران، سعودی عرب نے تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک کی قیادت میں امریکہ اور یورپ پر تیل کی پابندی عائد کردی تھی تاکہ مغرب پر دباؤ ڈالا جا سکے کہ وہ اسرائیل پر دباؤ بڑھائے۔ اس پابندی کے نتیجے میں تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا اور مغرب میں کساد ہوئی، اور امریکی صدر نکسن نے سعودی تیل کے شعبوں پر مسلح قبضے کا بھی مشورہ دیا۔
اوپیک تیل پیداوار سے در پیش معاشی مشکلات یورپ، برطانیہ اور امریکہ کو متاثر کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ روس اور یوکرین تنازع میں ایک بار پھر تیل کی پیداوار میں کمی اور قیمتوں میں اضافے نے ترقی یافتہ ممالک کو تاریخی طور پر متاثر کیا۔ جولائی 2022میں سعودی دورے پر امریکی انتظامیہ کو منقسم ہونا پڑا اور امریکی صدر جو بائیڈن نے چند ماہ قبل یہاں تک کہا تھا کہ سعودی عرب کو تیل میں کٹوتی کے نتائج بھگتنا ہوں گے لیکن تنظیم اوپیک پلس سے سپلائی بڑھانے کی کوشش میں ناکامی کا سامنا ہوا۔ حالاں کہ مشرق وسطی میں سعودی عرب، امریکہ کا بڑا اتحادی ہے لیکن امریکہ سعودی عرب کو یمن معاملے سے لے کر خوشگی قتل کیس تک دباؤ میں لانے کی کوشش کرتا رہا تاہم سعودی عرب بین الاقوامی برادری کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم امریکہ کے ”چھوٹے بھائی” نہیں بنیں گے۔ عربوں کے ساتھ چین کے تعلقات سینکڑوں برس پر محیط ہیں، تاہم80برس بعد 21جولائی 1990سے سعودیہ اور چین کے درمیان باقا عدہ سفارتی تعلقات کا نیا دور شروع ہوا۔ حالیہ دنوں چینی صدر شی جن پنگ نے چھ برس بعد خلیجی ممالک کے سربراہی اجلاس میں سعودی عرب کے دورے پر گئے۔ شی جن پنگ 2016میں سعودیہ، ایران ن اور مصر کا دورہ کر چکے ہیں، چین اب تک 14سفارتی معاہدوں کے علاوہ20عرب ممالک اور عرب لیگ کے ساتھ ون بیلٹ ون روڈ پروجیکٹ کو مشترکہ طور پر تیار کرنے کے معاہدہ سمیت توانائی اور انفرااسٹرکچر کے شعبے میں 200منصوبے بھی مکمل کر چکا ہے واضح رہے کہ چین گذشتہ پانچ برسوں سے سعودی عرب کا پہلا تجارتی شراکت دار ہے۔
امریکہ اپنی ترجیحات نیو ور لڈ آرڈر کی وجہ سے بدلتا رہتا ہے، 1979میں ایرانی انقلاب میں 66امریکی یرغمال بنا ئے گئے تو امریکہ انہیں 4444دن تک رہا کرانے کی کوشش میں ناکام رہا 1979نیو ور لڈ آرڈر کے نفاذ کا سال تھا،20 نومبر1979 میں شدت پسندوں نے حرم الحرام پر قبضہ کیا تو، اسی سال دسمبر میں سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کرکے کابل پر قبضہ کرلیا جس کے بعد امریکہ اور سعودی قربت میں مزید اضافہ ہوا۔ سوویت یونین خلیج فارس پر میں فوجی اڈے قائم کر سکتا تھا کیونکہ یہ راستہ مشرق وسطیٰ میں تیل کی برآمدات کا ایک ذریعہ ہے۔ سوویت یونین کے عزائم کو روکنے کے لئے امریکی صدر جمی کارٹر نے جنوری 1980میں اسٹیٹ آف دی یونین میں خطاب کرتے ہوئے واضح طور پر امریکی مفادات کو ضرب پڑنے پر فوجی طاقت سمیت ہر قسم کی کاروائی استعمال کرنے کا عندیہ دیا اور یہ بیان ”کارٹر ڈاکٹرائن“ کے نام سے معروف ہوا افغانستان اور عراق پر امریکی قبضے کے بعد مشرق وسطیٰ میں وائٹ ہاؤس کی ترجیحات بھی بدلتی چلیں گئیں ان حالات میں کہ خام تیل صنعت کا خون ہے۔ مغربی مفادات کے گروپوں سے متعلق ممالک نے مشرق وسطی میں تیل کی دولت سے مالا مال ممالک پر اپنی نظریں مرکوز کر رکھی ہیں۔
سعودی عرب سے رویے کے تناظر میں اگرچہ امریکہ جارحانہ ہے لیکن مشرق وسطیٰ میں تیل پیدا کرنے والا یہ اہم ملک اب بھی چین کے ساتھ تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے پر عزم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روایتی اقتصادی اور تجارتی تعلقات کے علاوہ علاقائی سلامتی کے نمایاں مسائل بھی چین اور سعودی عرب کے درمیان تعاون کے لیے ایک اہم انٹری پوائنٹ بن چکے ہیں سعودی عرب کا چین کے ساتھ تعاون دراصل ناگزیر ہے۔ سب سے پہلے تجارت کے میدان میں چین سعودی عرب کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ 2021 میں چین اور سعودی عرب کے درمیان باہمی تجارت کا حجم 87.31 ارب ڈالر تک پہنچا جس میں سے چین نے 56.99 ارب ڈالر کی درآمدات کیں۔ جب کہ چین اور عرب ممالک کے درمیان 330ارب ڈالر کی مشترکہ تجارت بھی ہوئی سعودی عرب نے 2005 سے2020 تک عرب دنیا میں چین کی سرمایہ کاری کا 20.3 فی صد سے زیادہ حصہ لیا اس کی کل مالیت 196.9 ارب ڈالر ہے اس عرصے کے دوران میں چین کی جانب سے قریباً 39.9 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سعودی عرب میں کی گئی، اس طرح وہ چینی سرمایہ کاری حاصل کرنے والا سب سے بڑا عرب ملک بن گیا۔
دفاعی تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو واضح رہے کہ 80 کی دہائی کے اوائل میں سعودی عرب نے چین سے ڈونگ فینگ سیریز کے میزائلوں کی ایک کھیپ خریدی تھی اور فوجی پریڈ اور دیگر سرگرمیوں میں کئی بار ان کی نمائش کی تھی۔ غیر سرکاری طور پر یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ سعودی عرب نے چین سے ڈی ایف 21 بیلسٹک میزائلوں کا آرڈر دیا۔ تاہم، چین نے اس کی تصدیق نہیں۔ ڈونگ فینگ 21 میزائل کے علاوہ سعودی عرب نے چینی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں ”ونگ لونگ” سیریز کی جاسوسی اور جنگی مربوط ڈرونز حاصل کرنے کی اطلاعات بھی ملیں۔ یمن خانہ جنگی میں ”ونگ ڈریگن” کی کارکردگی کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ڈرونز کے علاوہ سعودی عرب نے پی ایل زیڈ 45 سیلف پروپیلڈ ہوویٹزر بھی خریدے، جس سے ان کے لیے چینی فوج کے دفاعی سازو سامان کے مزید حصول کے راستے کھلے۔ امریکہ کے موجودہ رویے کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب اور چین کے درمیان سہ جہتی تعاون میں اضافہ یقینی ہے۔ سعودی عرب اور چین کے سفارتی، تجارتی اور دفاعی تعلقات میں قربت امریکی منفی رویوں کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ سعودیہ اور امریکہ کے درمیان تعلقات جتنے خراب ہوں گے اتنا ہی چین، عرب ممالک کے قریب آئے گا۔ گمان کیا جا سکتا ہے کہ نئے جغرافیائی سیاسی پیٹرن کے تحت، مستقبل کے مشرق وسطی میں، تمام سازو سامان کے ساتھ ایک نئی طاقت ابھر سکتی ہے۔