تحریر: محمد شاہد رضا خان
پیغام :
1- خطاؤں کے سبب مؤاخذه نہ کرنے کی درخواست؛
2- خطا کے عذر کی قبولیت؛
3- دنیاوی آفات و بلیات کے راستے میں نہ آنے کی درخواست؛
4- عزت خدا کی جانب سے ہے۔
5۔ اميرالمومنين علی علیہ السّلام فرماتے ہیں: «الدُّنيا دارٌ بِالبَلاءِ مَحفُوفَة؛ دنیا، ایک ایسا آشیانہ ہے جو بَلاؤں سے گھِرا ہے»۔
دعا ۔
أَللّـهُمَّ لا تُؤاخِـذْنى فيهِ بِالْعَـثَراتِ وَ أَقِـلْنى فيهِ مِنَ الْخَطـايا وَ الْهَـفَواتِ وَ لا تَجْعَلْنى فيهِ غَرَضاً لِلْبَلايا وَ الاْفاتِ بِعِـزَّتِـكَ يـا عِـزَّ الْمُسْلِـمينَ۔
ترجمہ: اے معبود! آج کے دن میں میری لغزشوں پر میرا مؤاخدہ نہ کر، اور گناہوں سے دوچار ہونے سے دور رکھ، مجھے آزمائشوں اور مشکلات کا نشانہ قرار نہ دے، تیری عزت کے واسطے، اے مسلمانوں کی عزت و عظمت ۔
نکات
(1)پروردگار سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ اپنی لطف و کرم والا معاملہ کرے
(2) ہمیں بلاوں اور بیماری و مشکلات کا نشانہ قرار نہ دے۔
تشریح
1– أَللّـهُمَّ لا تُؤاخِـذْنى فيهِ بِالْعَـثَراتِ:
عثرات جسکے معنی لغزش کے ہیں، جیسا کہ واضح و روشن ہے کہ لغزش کرنے سے پہلے کے مرحلہ کا نام ہے، اسی لئے اگر کسی کا پیر لغزش کھاتا ہے پھسل جاتا ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ پھر سے اٹھ کھڑا ہو اوراپنے تعادل کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی حفاظت کرلے جائے اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ گر ہی پڑے؛ یہاں پر عثرہ اور لغزش سے مراد وہ رذائل اخلاقی ہیں جنمیں پھنس کر انسان گناہ کے گڑھے میں گرنے لگتا ہے اور اگر غفلت کا شکار ہو یا اپنی خطاؤں میں سرمست ہو تو پھر گناہ کی کھائی مقدر بن جاتی ہے ۔
امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں: اللّهم مولای کم من قبیحٍ سترته و کم من عثارٍ وقیته۔۔۔۔اللهم و من ارادنی بسوءٍ فارده ۔۔ و اَقلنی عثرتی و اغفر زلّتی ۔
آپ نے کچھ دکانوں کو دیکھا ہوگا کہ انہیں سیل کر دیا جاتا ہےمُہر بند کردیا جاتا ہے اور انہیں کاروبار کرنے اور کمانے کی اجازت نہیں دی جاتی، کبھی کبھی وہ دوکان شہر کے بہت اچھے اور اہم نقطے پر واقع ہوتی ہے اور اگر وہ اصول و ضوابط اور قوانین کا خیال رکھتے ہوئے کاروبار کرے تو اسے بڑا فائدہ بھی ہو سکتا ہے، مگر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس دکان کو سیل کر دیا جاتا ہے کیوں کہ اس نے بارہا سمجھائے جانے اور نوٹس دیے جانے کے باوجود قوانین کی خلاف ورزی کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسے سیل کر دیا گیا اور اسکے کاروباری پرمٹ کو باطل قرار دے دیا گیا؛ ہماری آنکھیں، ہمارے کان اور ہمارا دل و دماغ ایک دکان کی مانند ہے جس کے ذریعہ ایک اچھا کاروبار کرتے ہوئے ایک بڑا منافعہ کمایا جا سکتا ہے۔خداوند عالم نے ہمیں یہ نعمتیں دی ہیں تاکہ ان کو ہم جنت کا سودا کرنے کے لئے استعمال کریں ؛آنکھیں دیں تاکہ خدا کی نشانیاں اور نیک مناظر دیکھ کر عبرت حاصل کریں، کان دئے تاکہ اس کی آیات اور نیک باتیں سن کر سبق لیں، دماغ دیا تاکہ اس کی آیات اور کائینات میں غور و فکر کرکے کمال کی منزلیں طے کریں اور نتیجہ میں خدا کی خوشنودی اور جنت کمائیں؛مگر کبھی کبھی ہمارے وجود کی یہ دکانیں اس قدر قانون کی خلاف ورزی کرتی ہیں کہ خداوند عالم انہیں ’’سیل‘‘ کر دیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آنکھیں ہوتی ہیں مگر وہ دیکھتی نہیں، کان ہوتے ہیں مگر وہ سنتے نہیں، دماغ ہوتا ہے وہ سمجھتا نہیں ؛جب انسان نافرمانیوں پر اتر آتا ہے اور مسلسل لغزشوں کا شکار ہو کر کفر کی منزلوں تک پہونچ جاتا ہے تو اسکے دل و دماغ، کان اور اسکی آنکھوں پر مہر لگا دی جاتی ہے،ارشاد ہوتا ہے:خَتَمَ اللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ؛خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر گویا مہر لگا دی ہے کہ نہ کچھ سنتے ہیں اور نہ سمجھتے ہیں اور آنکھوں پر بھی پردے پڑ گئے ہیں۔ ان کے واسطےآخرت میں عذابِ عظیم ہے [1]۔ عذاب اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ آنکھ کان اور دماغ ہوں مگر وہ کسی کام کے نہ ہوں اور انسان کو وہ کوئی فائدہ نہ پہونچا سکتے ہوں[2]!
جنگ احد میں جو واقعہ پیش آیا اسکی جانب توجہ فرمائیں ، قرآن میں ارشاد ہے؛إِنَّ اَلَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ اِلْتَقَى اَلْجَمْعٰانِ إِنَّمَا اِسْتَزَلَّهُمُ اَلشَّيْطٰانُ بِبَعْضِ مٰا كَسَبُوا وَ لَقَدْ عَفَا اَللّٰهُ عَنْهُمْ إِنَّ اَللّٰهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ ؛ جن لوگوں نے دونوں لشکروں کے ٹکراؤ کے دن پیٹھ پھیرلی یہ وہی ہیں جنہیں شیطان نے ان کے کئے دھرے کی بنا پر بہکا دیاہے اور خدا نے ان کو معاف کردیا کہ وہ غفور اور حلیم ہے[3]۔ یہ آیت ایک حقیقت بیان کرتی ہے اور وہ یہ کہ جو لغزشیں انسان سے شیطانی وسوسوں کے باعث صادر ہوتی ہیں وہ در اصل ان گذشتہ گناہوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی روحانی کمزوریوں کا نتیجہ ہوتی ہیں جو انسان کے لیے دوسرے گناہوں کا راستہ ہموار کرتی ہیں ، جب ہم لغزش کرتے ہیں رذائل اخلاقی کی طرف جاتے ہیں تو یہ لغزش نا محسوس طریقہ سے ہمارے ایمان پر حملہ کرتی ہے ”إِنَّمَا اِسْتَزَلَّهُمُ اَلشَّيْطٰانُ بِبَعْضِ مٰا كَسَبُوا”ہماری لغزشیں شیطان کو موقع فراہم کردیتی ہیں کہ وہ ہمیں مزید گناہوں کے اندھیرے میں ڈھکیلتا چلا جائے۔
2– وَ أَقِـلْنى فيهِ مِنَ الْخَطـايا وَ الْهَـفَواتِ: ”
’’اقالہ‘‘ کر یعنی درگزر کر اور ہمارے گناہوں کو بخش دے دعائے کمیل میں بھی یہ لفظ ہے کہ خدایا ہماری لغزشوں اور خطاؤں کو “اقالہ” کر درگزر کر یعنی ہمیں بخش دے اور یہ لفظ فقہ میں معاملہ کے لئے استعمال ہوتا ہے یعنی بچنے اور خریدنے والا جب تک ساتھ ہیں اقالہ (فسخ) کرنے کا حق رکھتے ہیں مگر دنوں کی جدائی کے بعد اگر مشتری جنس واپس کرنے آئے تو بچنے والے پرمستحب ہے کہ اسے قبول کرے۔
ظاہر ہے انسان غلطیوں اور لغزشوں کاپتلاہے، خطائیں ہوسکتی ہیں لیکن شجاع انسان وہ ہے جو ان غلطیوں کا اعتراف کرے اور اپنے آپ کو عادل مطلق خدا کی عدالت میں پیش کرے اور اعتراف کرے کہ خدایا میں گناہ گارہوں، میں نے نادانی میں، شہوت نفس کی وجہ سے گناہ کیا لیکن میرے مولا میں نادم ہوں، پیشمان ہوں میرے گناہوں کی مغفرت فرما تاکہ میں اس قابل بن سکوں کہ تیرے مہینے میں تیری رحمت، برکت اور مغفرت کے دسترخوان پر مہمان بن کے آؤں، تو ضرور خدا ہماری دعا قبول کرے گا۔
اللّهم اغفر لی کلَّ ذنبٍ اَذنبته و کلَّ خطیئةٍ اَخطاتها ۔
3– وَ لا تَجْعَلْنى فيهِ غَرَضاً لِلْبَلايا وَ الاْفاتِ:
خدایا ہمیں بلاؤ ںکا نشانہ نہ بنا،دنیا کے حادثے اس حد تک انسان کے اعمال کے تابع ہوتے ہیں کہ اگر انسان خدا کی اطاعت کرے اور اس کی بندگی کرے تو خداوند متعال اس پر رحمتوں کو نازل کرتا ہے، لیکن اگر خدانخواستہ انسان، خدا کی نافرمانی کرتا ہوا نظر آئے تو معاشرے میں اس کی وجہ سے جدید سے جدید قسم کی بلائیں نازل ہونے لگتی ہیں جس کے بارے میں خداوند متعال اس طرح فرمارہا ہے: ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ؛ لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی بنا پر فساد، خشکی اور تری ہر جگہ غالب آگیا ہے تاکہ خدا ان کے کچھ اعمال کا مزہ چکھا دے تو شاید یہ لوگ پلٹ کر راستے پر آجائیں[4]۔اس آیت میں قرآن مجید نے ان گناہوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے جن کے وجہ سے سب لوگ پریشانیوں میں گرفتار ہوجاتے ہیں، علامہ طباطبائی اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انسان کے اعمال اور انسان کی تکوینی زندگی کے درمیان بہت گہرا تعلق پایا جاتا ہے، اگر انسان فطرت کے قانون پر چلتا رہے تو خدا کی برکتیں اس پر نازل ہوتی رہینگی اور جب وہ خدا کے بنائے ہوئے قانون کو توڑنے لگے گا تو اس کی زندگی خراب ہوجائیگی[5]۔ امام باقر علیہ السلام انسان کے گناہوں کے اثرات کے بارے میں اس طرح فرمارہے ہیں:
جان لو کہ کسی بھی سال کی بارش گزشتہ سال سے کم نہیں ہوتی، بلکہ خدا جس جگہ پرچاہے اس کو برساتا ہے، بیشک جب معاشرے میں لوگ گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں تو خدا اس حصہ کی بارش وہاں پر نہیں برساتا اور اس بارش کو بڑے اور وسیع بیابانوں اور پہاڑوں پر برسادیتا ہے[6]۔
4– بِعِـزَّتِـكَ يـا عِـزَّ الْمُسْلِـمينَ: اپنی عزت کی خاطر ان دعاؤں کو ہمارے بارے میں مستجاب کر اے مسلمانوں کی عزت و عظمت ۔
پیغام:️
اميرالمومنين علی علیہ السلام فرماتے ہیں: «الدُّنيا دارٌ بِالبَلاءِ مَحفُوفَة؛ دنیا، ایک ایسا آشیانہ ہے جو بَلاؤں سے گھِرا ہے[7]» ۔
[1]– سورہ بقرہ ۔ آیت 7
[2]– استاد محمد رضا رنجبر
[3]– آلعمران، 155
[4]– سورۂ روم، آیت:۴۱
[5]– الميزان، ۱۸، ص۵۹
[6]– كافي، ج۵، ص۳۷۴
[7]– نهج البلاغه، خ ۲۱۷