تحریر: محمد شاهد رضا خان
پیغام:
کسی بھی اچھے کام کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہیے۔بلکل ویسے ہی کہ جیسے اچھے اور نیک کام انجام دینے پر مغرور نہیں ہونا چاہیے؛کیونکہ قصدِ قربت اور خلوص، دونوں ہی حالت میں ضروری ہے، امام صادق فرماتے ہیں: لاتُصَغِّر شَیئاً مِنَ الخَیرِ، فَإنَّکَ تَراهُ غَداً حَیثُ یَسُرُّکَ؛ کسی بھی کارِ خیر کو چھوٹا نہ شمار کرناکیونکہ کل وہی تمہاری خوشحالی کا باعث بنے گا ۔
ماہ رمضان المبارک کے تیسرے دن کی دعا:
اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي فِيهِ الذِّهْنَ وَ التَّنْبِيهَ وَ بَاعِدْنِي فِيهِ مِنَ السَّفَاهَةِ وَ التَّمْوِيهِ وَ اجْعَلْ لِي نَصِيباً مِنْ كُلِّ خَيْرٍ تُنْزِلُ فِيهِ بِجُودِكَ يَا أَجْوَدَ الْأَجْوَدِينَ۔ترجمہ:بارالٰہا! مجھے آج کے دن ہوش و ہواس اور آگہی عنایت فرما،اورمجھے آج کے دن بیکار اور بیہودہ کاموں سےدور رکھ،اور میرا ہر، اس نیکی میں حصہ قرار دے جو آج کے دن؛ تیرے فیضِ کرم سے جاری ہو، اے بے پناہ عطا فرمانے والے۔
نکات
تیسرے دن کی دعا میں پانچ باتوں کا ذکر کیا گیا ہےکہ جنمیں سے تین کا مثبت ہے؛ یعنی ایسی خصوصیات کا ذکر ہے جنکے حصول کے لئے ہم خدا سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ چیز ہمیں دیدے، اور دو منفی ہیں۔ یعنی ہم خدا سے درخواست کرتے ہیں کہ ان چیزوں سے ہمیں دور رکھ۔
الف: تین مثبت:
1۔تیز ہوشی،بیداری اور اچھے کاموں میں شرکت۔
2۔ دومنفی پہلو:بیکار اور بے ہودہ کاموں سے دوری اور پھر مکر و فریب اور جعلسازی سے دوری۔
دعائیہ فِقرات کی تشریح
1– اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي فِيهِ الذِّهْنَ وَ التَّنْبِيهَ:
اس روز ہم خدا سے چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں تیزئ ذہن اور بیداری عنایت فرمائے،ہمیں جاننا اور سمجھناچاہیئے کہ ذہن کیا ہے ؟ لغت میں ذہن کے کئی معنی ذکر کیے گئے ہیں جو ایک دوسرے سےتقریباً نزدیک ہیں ،ذہن کے معنی عقل و ہوش فہم و فراست اور ایک ایسی اندرونی طاقت کے معنوں میں مذکور ہے جوکمالات کے حصول کا میدان فراہم کرتا ہے،خلاصۂ کلام یہ کہ ہم خدا سے چاہتے ہیں کہ وہ صحیح سمجھ ،فہم و فراست اور عقل و زیرکی کے ساتھ ہماری بصیرت وآگہی کی آنکھیں بھی کھول دے۔۔۔،اسی طرح التَّنْبِيهَ کے معنیٰ بیداری کےہیں: اَلنَّاسُ نِيَامٌ فَإِذَا مَاتُوا اِنْتَبَهُوا [1]،واقعات و حوادث سے عبرت بیداری کا سبب بنتے ہیں۔۔۔۔
2– وَ بَاعِدْنِي فِيهِ مِنَ السَّفَاهَةِ وَ التَّمْوِيهِ:
سفاہت کے معنی بے وقوفی اور حماقت کے ہیں اگر ایک مسلمان چاہے کہ اس کی زندگی بابرکت ہو بے کار اور بیہودہ نہ ہو تو اس کے لیے ضروری یہ ہے کہ اپنے روزمرہ کے نظام کو اسلام کے بتاۓ ہوۓ طریقوں کے مطابق گزارے اور بے کار اور بیہودہ کے کاموں سے دوررہے، حقیقت حال تو یہ ہے کہ ہماری جوان اور نوجوان نسل گھنٹوں انٹرنٹ،ٹی وی، اور کمپیوٹر گیم کھیلتے ہوئے بیوقوفی بھرا کام کرتی ہے اور دنیا کی چمک دمک میں گم رہتی ہے؛ التَّمْوِيهِ کے معنی ، دھوکہ دھڑی ،جعلسازی اور نیرنگی کے ہیں؛ اور مومن انسان ہرگز اہل فریب ہوتا۔
3– وَ اجْعَلْ لِي نَصِيباً مِنْ كُلِّ خَيْرٍ تُنْزِلُ فِيهِ:
اس دعا کا تیسرا مثبت جملہ یہ ہےکہ جسمیں کار خیر میں شرکت کی درخواست کی گئی ہےاس دعائیہ جملہ میں بڑی ہی خوبصورت بات کہی گئی ہےاور وہ نیکی سے فائدہ اٹھانا ہے،اچھے اور نیکی کے امور کسی خورشید کی طرح ہیں جو چمکتے رہتے ہیں؛یہاں اور اس جگہ پر معاملہ یہ ہے کہ یہاں اس خورشید کے نور سے فائدہ اٹھانے کی درخواست کی جارہی ہے اس لیے نیکی کے کام میں شریک ہونا بھی ایک نیکی ہےکیونکہ کبھی انسان خود ایک اچھا کام انجام دیتا ہے اور کبھی دوسروں کے اچھے کام میں شریک ہوجاتا ہے۔
4– بِجُودِكَ يَا أَجْوَدَ الْأَجْوَدِينَ:
اور آخر میں ہم خدا کو اسکے جود و کرم عطا و بخشش کا واسطہ دیتے ہیں۔
پیغام:
1- بیداری
2- سفاهت و جهالت سے دوری
3- نیکیوں سے فائدہ اٹھانا
4- خدا کی عطا سے فائدہ اٹھانا۔
نتیجه:
کسی بھی اچھے کام کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہیئے ؛بلکل ویسے ہی کہ جیسے اچھے اور نیک کام انجام دینے پر مغرور نہیں ہونا چاہیئے ؛کیونکہ قصدِ قربت اور خلوص، دونوں ہی حالت میں لازم و ضروری ہے، امام صادق فرماتے ہیں: لاتُصَغِّر شَیئاً مِنَ الخَیرِ، فَإنَّکَ تَراهُ غَداً حَیثُ یَسُرُّکَ؛ کسی بھی کارِ خیر کو چھوٹا نہ شمار کرناکیونکہ کل وہی تمہاری خوشحالی کا باعث بنے گا[2]۔
[1]– عیون الحکم و المواعظ، ص66
[2]– مجلسی بحار الأنوار ج ۷۱ ص ۱۸۲