تحریر: محمد شاہد رضا خان
مقدمہ:
قرآن کریم اللہ تعالی کی کتاب اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر خدا کا ایسا معجزہ ہے کہ جو رہتی دنیا تک ہدایت انسان کی ساری ضروریات پر پورا اترنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لیے یہ کتاب معارف کا سب سے بڑا مخزن اور اکمل ترین کلام ہے۔ قرآن کے ذریعے معاشرے کے تمام پہلو کی شناخت جامع ،عمیق و دقیق اور حقیقت پر مبنی ہے۔ در حقیقت معاشرے کے تمام گمراہیوں کی صحیح شناخت کا ذریعہ قرآن ہے ، کیونکہ معارف اور علوم الہٰی کسی خاص زمان و مکان اور زبان سے مخصوص نہیں ہیں اسی لئے تمام عالم امکان اور انسان و انسانیت کو شامل ہونے والے ہیں۔ قرآن کريم بشریت کے مورد نياز تمام علوم و معارف کا سر چشمہ ہے، بالخصوص معاشرے کے مختلف فردی،اجتماعی،اور معاشرتی موضوعات سے لے کر فرد اور معاشرہ کی متقابل تاثیرات ، اجتماعی دگر گونیوں، آئیڈیل معاشرہ ، اجتماعی گروپ بندیوں ، اجتماعی اھمیتوں، معاشروں کی قوانین بندیوں معاشرے کی ترقی میں مؤثر عوامل ، اجتماعی طبقات، فردی اور اجتماعی ضرورتوں ، الہٰی جہان بینی کے اعتبار سے مسلم معاشرہ کا مستقبل، اجتماعی تہذیب کی سلامتی، عمومی لغزشوں ، معاشروں کی مدیریت کی نئی تدابیر، جوامع انسانی کے بنیادی تفاوت اور اشترکات ،معاشرے کے انحرافات کی شناخت کا بہترین راہ حل پیش کرتا ہے۔اس بنا پر تمام موارد خصوصاً اجتماعی روابط کی ترویج میں اصيل ترين، بھترين اور کامل ترين نظريات قرآن سے اخذ کئے جاسکتے ہیں۔
قرآن کی نظر ميں معاشرے اجتماعی روابط کی معرفت و شناخت کی عظمت و اہمیت، در حقیقت قرآن کے نظریات اور اس کے اصلاحی و عملی اعتقادات و نظریات کے حقیقت پر مبنی اور واقع بین ہونے میں ہے، یعنی قرآن میں معاشرے کے حقائق کی شناخت، نفسانی پہچان ، زندگی گذارنے کے آداب کی پہچان اور اسی طرح انسان کے مختلف فردی و اجتماعی پہلوؤں کی شناخت واقع کے مطابق اور تفکر بشری کی حدود سے بالاتر مورد تحقیق و جستجو قرار پاتے ہیں۔قرآنی کے آفاقی پیغام میں فکر و تدبر سے حاصل ہونے والی معلومات جہاں معاشرے میں انسانوں کے اجتماعی تعلقات کی ضرورت و اہمیت فراہم کرتی ہیں وہاں ان تعلقات کے فروغ میں کمال مطلوب تک رسائی کے لیے واضح اور روشن راہوں کی طرف رہنمائی بھی فراہم کرتی ہیں۔ معاشرہ پر قرآن کی حاکمیت ہونے کی صورت میں کسی کے لئے کوئی ایسی نیاز و احتیاج باقی نہیں رہ جاتی جو کہ پوری نہ ہو، اس لئے کہ قرآن کریم موحدین کی زندگی کے لئے سب سے زیادہ بلند و عالی، الٰہی دستور العمل ہے اور خداوند متعال نے اس آسمانی کتاب کے پیروؤں کی دنیا و آخرت کی عزت و کامیابی کی ضمانت لی ہے۔ اس بنا پر جب ہمارا اسلامی معاشرہ قرآن کے حیات بخش احکام و فرامین پر عمل کرے او راس کے وعدوں کی سچائی پر ایمان رکھتے ہوئے اس کو اپنے عمل کا نمونہ قرار دے، تو قرآن معاشرہ کی تمام فردی، اجتماعی، مادی اور معنوی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور اسلامی معاشرہ کو ہر چیز اور ہر شخص سے بے نیاز کر دیتا ہے۔قرآن ہمیں معاشرے میں قرآنی طرز زندگی کے تحت امن و امان, بھائی چارہ, رواداری, عدل و انصاف کے قیام, صلح پسندانہ اقدامات, مساوات, اور قومی,ملی ,مذہبی, فردی و اجتماعی آزادی کے مناسب و منظم طریقوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ جو مطلوبہ اجتماعی روابط کی بحالی سے لے کر نفاذ تک ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اس مقالہ میں ایک بہترین قرآنی طرز زندگی کے تحت مطلوبہ اجتماعی روابط کی نشاندہی کرتے ہوئے قرآن کے پیغام کی روشنی میں ان روابط کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے نیز ان اجتماعی روابط کے معاشرے میں عملی نفاذ کے لیے قرآنی راہ حل پیش کیا گیا ہے۔
اجتماعی روابط کا فروغ
صحیح و سالم اجتماعی زندگی وہی ہے کہ افراد ایک دوسرے کے لئے قوانین حدود اور حقوق کا احترام کریں۔ عدل و انصاف کو ایک مقدس امر جانیں ایک دوسرے سے مہر و محبت سے پیش آئیں جو اپنے لئے پسند کرتے ہیں وہی دوسروں کے لئے بھی پسند کریں جسے خود نہیں چاہتے اسے دوسروں کے لئے بھی نہ چاہیں ایک دوسرے پر اعتماد کریں اور اطمینان رکھیں دوسروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا کر ان کے لئے روحانی تکلیف کا باعث نہ بنیں۔ ہر شخص اپنے کو معاشرے کا زمہ دار اور معقول فرد سمجھے۔ کھلے بندوں جس تقویٰ و پاکدامنی کا مظاہرہ کرتا ہے اپنی انتہائی خلوت میں بھی اسی تقویٰ و پاکدامنی کو تھامے رکھے۔ سب لوگ بغیر کسی لالچ کے ایک دوسرے کے ساتھ نیکی کریں۔ ظلم و ستم کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں ظالم اور فاسد لوگوں کو من مانی نہ کرنے دیں اخلاقی قدروں کا احترام کریں ہمیشہ ایک جسم کے اعضاء کی مانند متحد و متفق رہیں۔
یہ مذہبی ایمان ہی ہے جو ہر چیز سے بڑھ کر حقوق کا احترام کرتا ہے عدالت کو مقدس سمجھتا ہے دلوں میں الفت و مہربانی ڈالتا ہے۔ ایک دوسرے کے دل میں اعتماد پیدا کرتا ہے انسان کے قلب و روح پر تقویٰ و پر ہیزگاری کی حکومت قائم کر دیتا ہے۔ اخلاقی قدروں کو معتبر اور قابل قدر بناتا ہے ظلم و زیادتی کے مقابلے کے لئے شجاعت بخشتا ہے۔ تمام افراد کو ایک جسم کی مانند قرار دے کر متحد رکھتا ہے۔حوادث سے انسانی تاریخ میں آسمانی ستاروں کی مانند انسان کی جو انسانی تجلیاں دکھائی دیتی ہیں یہ درحقیقت مذہبی احساسات سے ہی جنم لئے ہوئے ہیں۔
انسان بعض دوسرے جانداروں کی طرح اجتماعی طبیعت پر پیدا کیا گیا ہے۔ فرد اکیلا اپنی ضرورتیں پوری نہیں کر سکتا۔ زندگی ایک کمپنی یا سوسائٹی کی صورت میں ہونی چاہئے جس میں حقوق و فرائض کے اعتبار سے ہر ایک حصہ دار ہو افراد میں ایک طرح کی تقسیم کار ہو۔ شہد کی مکھیوں میں ذمہ داریوں اور کام کی تقسیم ان کی سرشت اور فطرت کے حکم پر ہوتی ہے ان میں کام سے انکار یا نافرمانی کی طاقت نہیں ہوتی۔ ان کے برعکس انسان ایک آزاد اور خود مختار جاندار ہے اپنے کام کو ذمہ داری اور مسئولیت کے عنوان سے انجام دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ اگرچہ دوسرے جانداروں کی ضروریات اجتماعی ہیں لیکن یہ اپنے جہلی و طبیعی امور کی انجام دہی پر مجبور ہیں۔ انسان کی ضرورتیں بھی اجتماعی ہیں۔ بغیر اس کے کہ ویسے جہلی تقاضے اس پر حکم فرما ہوں۔ انسان کی جہلی و فطری اجتماعی خواہشات اس کے اندر ایک “تقاضے” کی صورت میں ہوتی ہیں جنہیں تعلیم اور تربیت کے سائے میں پروان چڑھنا چاہئے۔
قرآنی طرز زندگی کے چند اہم اور بنیادی محرکات پر نظر ڈالنے کے بعد اب ہم دیکھتے ہیں کے ان محرکات کے تحت ہم کس طرح اجتماعی روابط کو فروغ دے سکتے ہیں۔ ہم پہلے تو یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں کس طرح کے اختلاف پائے جاتے ہیں اور وہ کون سے اختلافات ہیں جو اجتماعی روابط میں رخنہ انداز ہوتے ہیں۔ اور پھر ان اختلافات کا قرآنی راہ حل تلاش کریں گے تاکہ قرآنی طرز زندگی کے تحت مطلوبہ اجتماعی روابط کی شناخت کرکے انہیں فروغ دینے کی راہ تلاش کی جا سکے۔انسانوں میں دو قسم کے امتیازات و اختلافات پائے جاتے ہیں۔
1_فطری امتیازات 2_غیر فطری امتیازات
سب سے پہلے ان امتیازات و اختلافات پر روشنی ڈالتے ہیں۔
1_فطری امتیازات:۔
انسان کی خلقت میں بہت سے فطری امتیازات موجود ہیں جو رنگ و نسل, زبان و علاقہ اور صلاحیت و استعداد کی بنیاد پر وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ خدا نے انسان کے اندر یہ فطری امتیازات رکھ دینے کے باوجود اسے اجتماعی روابط کو مضبوطی سے بحال رکھنے کی تاکید کی ہے کیونکہ اللہ کے نزدیک یہ
فطری امتیازات لوگوں کی ایک دوسرے پر برتری کا سبب نہیں ہیں اسی لیے فرمایا:
“يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَىٰ وَجَعَلْنَاكُم ْ ُشعُوبا َوقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ”
“اے لوگو ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا یے اور تمہیں قوموں و قبیلوں میں تقسیم کر دیا ہے تاکہ تم پہچانے جاؤ, بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سے سب سے زیادہ پرہیزگار ہے,بے شک اللہ علیم و خبیر ہے”[ا لحجرات 13]۔پس ان فطری امتیازات کو سامنے رکھ کر اجتماعی روابط کی اہمیت کم نہیں ہوسکتی اس لیے یہ برتری کا معیار نہیں ہے۔ اسی طرح ایک اور مقام پہ ارشاد ہوا:
“وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِلْعَالِمِينَ”
“اور خدا کی نشانیوں میں سے ہے زمین و آسمان کی تخلیق اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا مختلف ہونا,بے شک اس میں جاننے والوں کے لیے نشانیاں ہیں”۔[ الروم: 22] اسی طرح سورہ نوح میں ارشاد ہوا
“وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا”
بتحقیق خدا نے تمہیں مختلف انداز میں پیدا فرمایا ہے”[ نوح : 14] اور پھر سورہ زخرف میں درجات کے اختلاف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
“أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ”
“کیا وہ تیرے رب کی رحمت کو تقسیم کرتے ہیں, ہم ان کے درمیان دنیوی زندگی کی معیشیت کو تقسیم کرتے ہیں۔ اور ہم نے ان میں سے بعض کے درجات کو بعض سمے بلند رکھا ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لے سکیں۔ اور تیرے رب کی رحمت اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے جو یہ جمع کرتے ہیں”۔[ا لزخرف : 32 ] پس ان چند آیات کے معانی میں دقت کرنے سے ہتا چلتا ہے کہ خدا نے انسانوں میں زات, رنگ, نسل,زبان, قوم, قبیلہ, اور دنیوی درجات کے لحاظ سے امتیاز رکھا ہے لیکن ان میں سے کوئی ایک مورد بھی انسان کی عزت, سربلندی اور برتری کا معیار نہیں قرار دیا۔ لہذا ان امتیازات کے بوجود بھی اجتماعی روابط بحال رکھنے کی ضرورت بہر حال موجود رہتی ہے۔
انسان بعض میلانات کے لحاظ سے غیر انسان سے امتیاز رکھتا ہے۔ ان میلانات کو ایک لحاظ سے ”مقدس میلانات“کہا جاسکتا ہے۔ دوسرے لحاظ سے یہ ایسے میلانات ہیں کہ ”خود محوری“ کے مفہوم سے خارج ہیں۔ یہ ”خود محوری“ پر مبنی نہیں ہیں۔ یعنی انسان ایسے میلانات رکھتا ہے کہ جو”خود محوری“ کے مفہوم سے خارج ہیں۔ یہ ”خود محوری“ کیا ہے؟ یعنی ایسے میلانات کہ جو انجامِ کار صرف انفرادی ہوں۔ ایسے میلانات حیوان میں بھی ہیں اور انسان میں بھی ہوتے ہیں، حیوان بھی غذا کی خواہش رکھتا ہے لیکن غذا کی اس خواہش کا رجحان اور تعلق خود اسی سے ہوتا ہے یعنی اس کا میلان خود اپنے لئے حصول غذا کی خاطر ہے۔ انسان میں بھی خود محوری پر مبنی بعض میلانات ہیں چونکہ انسان انسان ہونے کے ساتھ ساتھ حیوان بھی ہے بلکہ پہلے حیوان ہے بعد میں انسان ہے لہٰذا ایسے میلانات انسان میں بھی ہیں۔حیوانات کی بھی اجتماعی زندگی ہوتی ہے لیکن ان کا عمل آزادی انتخاب کے ذریعے نہیں ہے بلکہ انتسابی ہے یعنی طبیعت کی طرف سے وہ اس کام کے لئے منتخب ہوئے ہیں اور وہ اپنا کام جبری طور پر انجام دیتے ہیں اس طرح سے اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ مثلاً شہید کی مکھیاں یا بعض چیونٹیاں اجتماعی زندگی رکھنے والے جانوروں میں شمار ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہرن بھی کسی حد تک اجتماعی زندگی بسر کرتا ہے ۔ البتہ ان کا عمل بھی جہلی ہوتا ہے یعنی خود بخود اور نیم آگاہی کے ساتھ ہو رہا ہوتا ہے نہ کہ ان کے اپنے انتخاب کے ذریعے ۔ شروع ہی سے ان کی طبیعت میں یہ سب کچھ موجود ہے اور یہ اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ حیوانات کے میلانات کی یہ کیفیت ہے۔
2_غیرفطری امتیازات: ۔
اس دنیا کی روز بروز ترقی سے جہاں بہت سے فوائد حاصل ہوئے ہیں وہیں انسانوں میں بہت سے نئے اختلافات نے بھی جنم لیا ہے۔ اختلافات و امتیازات خاندان سے شروع ہوتے ہوئے معاشرے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ اولاد کے دلوں سے والدین کا احترام ختم ہوتا جارہا ہے۔ اور کئ ایسے والدین دیکھنے کو ملتے ہیں جو اولاد کو خود سے عاق کرنے حتی معصوم بچوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرنے جیسے انتہائی اقدام سے بھی دریغ نہیں کرتے۔اسی طرح زوجین کے درمیان اختلافات بھی دور حاضر کا ایک بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ طلاق کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔ ک یں شوہر بیوی پہ تیزاب پھینک رہا ہے کہیں بیوی کو زلیل کیا جارہا ہے تو کہیں بیوی شوہر سے طلاق لے کر جان چھڑانے کی حسرت لیے بیٹھی ہے۔
اسی طرح چار دیواری سے باہر کے معاشرے میں بھی کئی قسم کے اختلافات نمودار ہورہے ہیں۔ زمینوں اور جائیدادوں کے اختلافات جہاں کئی افراد کی جان لیتے ہوئے پورا خاندان برباد کر دیتے ہیں وہاں کئی سالوں کی دشمنی کا باعث بن آنے والی نسل کی بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہو رہے ہیں۔سب سے بڑا مسئلہ مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات ہیں جن کی آڑ میں ہزاروں خاندان تباہ ہوگئے اور پورا معاشرہ فساد اور بدامنی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔
اجتماعی روابط میں حائل رکاوٹیں:
مسلم فرقوں میں اتحاد اور بھائی چارے کے مقدس ہدف جسے ہم تحریک تقریب کہتےہیں اسے علمی شکل دینے کے لئے ہمیں اپنے اندرونی مسائل کا جائزہ لینا پڑے گا کہ وہ کونسے مسائل ہیں جو تقریب و اتحاد کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور ان کا موثر طریقوں سے علاج کرنا ہوگا۔ آیت اللہ شہید مرتضی مطہری نے مسلمانوں کے اتحاد کی راہ میں موجود رکاوٹوں کے بارے میں تحقیق کی ہے اور ان کا راہ حل بھی پیش کیا ہے ۔ وہ مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ ان مسائل پر غور کریں اور انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔ شہید مطہری کہتےہیں کہ “غلط فہمیاں”مسلمانوں کے اتحاد میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ شہید مطہری سب سے پہلے غلط فہمی کی تعریف کرتے ہوئے کہتےہیں کہ غلط فہمی ایک دوسرے کا غلط ادراک ہے اور اس کے مقابل حسن تفاہم یا ایک دوسرے کو اچھی طرح سے سمجھنا ہے ۔ وہ کہتےہیں اچھی طرح سے ایک دوسرے کا ادارک کرنا یہ ہےکہ ہم اپنے مدمقابل کو اسطرح سمجھیں جیسا کہ وہ ہے اور غلط فہمی بھی اسی طرح ہےیعنی اپنے مدمقابل کو اس طرح سے نہ سمجھا جائے جیسے وہ ہے ۔ بلکہ اسکے بارےمیں بدگمانی اور توہمات کا شکار ہوا جائے ۔ غلط فہمی ہرشخص اور ہر مسئلہ کے بارےمیں ایک انتہائی منفی چیز ہے کیونکہ یہ گمراہی کا سبب بنتی ہے ۔
انسان کے اجتماعی روابط میں اس کے غیر فطری اختلافات سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ قرآنی طرز زندگی میں قرآن نے ان غیر فطری اختلافات کی مذمت کی ہے۔ لہذا اب دیکھتے ہیں کہ وہ کون سے اسباب ہیں جن کی وجہ سے قرآن نے ان غیر فطری اختلافات کی مذمت کی ہے۔
غیر فطری اختلافات کے اسباب:۔
بعض اوقات لوگ اس لیے بھی اختلاف پیدا کرتے ہیں تاکہ وہ بزعم خود پانی کو گدلا کرکے اس میں سے مچھلیاں پکڑ سکیں۔ جیسے وہ لوگ جو کتاب آسمانی میں اختلاف پیدا کرتے ہیں۔ایسے لوگوں کے بارے قرآن میں ارشاد ہوا:
“وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ”
“اور جو لوگ اس کتاب میں اختلاف کرتے ہیں وہ گہرے شگاف اور پراکندگی میں پڑے ہوئے ہیں”[ البقرۃ : 176] قرآن نے ان لوگوں کو حقیقت سے دور قرار دیتے ہوئے شقاق بعید کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس تعبیر کی وضاحت میں صاحب تفسیر نمونہ کچھ یوں رقمطراز ہوتے ہیں:لفظ شقاق کا معنی ہے شگاف اور جدائی۔ یہ تعبیر شاید اس طرف اشارہ ہو کہ ایمان و تقوی اور اظہار حق انسانی معاشرے میں وحدت و اتحاد کی رمز ہے جب کہ کفر و خیانت اور اخفائے حق پراکندگی, جدائی اور شگفتگی کا سبب ہے اور اس سے مراد سطحی جدائی اور شگاف نہیں کہ جس سے صرف نظر کیا جا سکے بلکہ ایسی جدائی, پراکندگی اور شگاف ہے جس میں جدائی ہو۔” [تفسیر نمونہ ج 1 ص417] قرآن نے غیر فطری اختلاف کا ایک سبب ظلم و زیادتی و سرکشی بتایا ہے۔ارشاد ہوا:
“إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ “اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اور جنھیں کتاب دی گئی انھوں نے علم آ جانے کے بعد آپس کی زیادتی کی وجہ سے اختلاف کیا”۔[ آل عمران : 19 ] اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے صاحب تفسیر الکوثر لکھتے ہیں:
“واضح رہے کہ اہل کتاب نے اس دین واحد میں اختلاف پیدا کیا۔ اس کی وجہ ان کی لاعلمی نہیں تھی بلکہ وہ جانتے تھے کہ دین میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ وہ جانتے ہوئے آپس کی ضد بازی میں اور ایک دوسرے پر زیادتی کی توجیہ کرنے کے لیے اختلاف کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے خلاف قتال کرتے نیز دین میں تصرف و تحریف کرتے اور اپنے زاتی مفادات کو دین پر مقدم رکھتے تھے۔”۔ پس ان کا اب اس دین واحد میں یوں اختلاف کرنا دراصل ظلم و زیادتی کی وجہ سے تھا۔”[ الکوثر فی تفسیر القرآن ج 2 ص 32]
مذہبی اختلافات کا سر چشمہ۔
مذکورہ آیت میں دقت کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ زیادہ تر مذہبی اختلافات جہالت و لا علمی کی وجہ سے نہیں ہوتے بلکہ ان کی بنیادی وجہ یہی ظلم و زیادتی اور حق سے انحراف ہے۔ پس جب علم ہونے کے باوجود اختلاف ہے تو اس کا سدباب صرف اسی وقت ممکن ہے جب لوگ زاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے, تعصب کی عینک اتارتے ہوئے حق شناسی اور عدل و مساوات سے کام لینے لگیں تو یہ تمام اختلافات رفو چکر ہو جائیں گے۔آج بھی جب کوئی تفرقہ پیدا ہوتا ہے تو دنیاوی حرص، اپنی بڑائی یا انا اور اپنی ایک الگ پہچان و شہرت کے لئے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناتا ہے۔ یعنی آج بھی اس تفرقے کی ایک بڑی وجہ یہی “بغیاً” یعنی ضد ہے ۔
تفرقے کا دوسرا سبب “غلو” یعنی حد سے آگے بڑھ جانا ہے۔ اللہ تعالٰی نے قران حکیم میں فرمایا ہے “لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ”(سورۃ النساء:177)ترجمہ:”دین میں غلو نہ کرو”۔ اصل میں موجودہ دور میں جو غلو تفرقہ بازی کا سبب ہے وہ غیر شعوری ہے اور غلو کرنے والے اسے دین کی خدمت سمجھتے ہوئے کرتے ہیں، جبکہ وہ دین کا نقصان کر رہے ہوتے ہیں۔ فروعی اور اجتہادی امور میں تعصب برتنا اور اپنی اختیار کردہ رائے کے علاوہ دوسری رائے کے حاملین کو مخطی یعنی اجتہادی غلطی کرنے والا ہی نہیں بلکہ باطل اور گنہگار قرار دینا اور ان سے ایسا رویہ رکھنا کہ جیسا اہل باطل سے رکھا جاتا ہے، آج کے دور میں غلو کی واضح مثالیں ہیں۔ بعض لوگ تو غلو میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اپنے مسلک کی دعوت اس طرح دیتے ہیں کہ جیسے کسی غیر مسلم کو اسلام کی دعوت دی جاتی ہے۔ اکثر یہ غلو علماءِ سوء میں پایا جاتا ہے جو بغیر اہلیت و تدبر کے دوسروں پر فتوے جڑتے ہیں اور اس طرح سلف صالحین کے منہج سے انحراف کرتے ہیں۔ نبی اکرم ؐ کا فرمان ہے ((أَنَا زَعِیمٌ بِبَیْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَآئَ وَإِن کَانَ مُحِقًّا) ترجمہ: میں اس شخص کو پہلے جنت کی ضمانت دیتا ہوں جو حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا چھوڑ دے۔
کیا ہم نبی اکرم ؐکے اس فرمان کو ان فروعی معاملات میں تفرقے سے بچنے کا ذریعہ نہیں بنا سکتے؟ یہ ایک غور طلب سوال ہے۔
تفرقے کا تیسرا اور سب سے اہم سبب قرآن سے دوری ہے۔ بقولِ اقبال:
؎ خوار از مہجوری قرآں شدی
شکوہ سنج ِگردشِ دوراں شدئ
قرآن وہ واحد شے ہے جس پر مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کا بھی اتفاق ہے کہ یہ وہی کتاب ہے جو حضرت محمد ؐنے اپنی امت کو دی۔ مسلمانوں کا ایمان ایک قدم اور آگے ہے کہ یہ وہی کتاب ہے جو اللہ نے جبرائیل کے ذریعے حضرت محمد کو عطا فرمائی۔ مگر آج مسلمانوں کا حال ہے کہ “إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ( (سورۃ بنی اسرائیل:9)ترجمہ:”بےشک یہ قرآن ہدایت دیتا ہے اس راہ کی طرف جو بالکل سیدھی ہے” کے باوجود ہم نے اس ہدایت کے سرچشمے کو چھوڑ رکھا ہے۔ وہ” حبل اللہ” جسے تھام کر تفرقے سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے ہم نے اسے پسِ پشت ڈالا ہوا ہے۔ وعظ ہو یا خطاب وہاں بھی قرآن کا کوئی ذکر نہیں، کوئی اصلاحی درس ہو تو وہاں بھی” فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ( (سورۃ ق:45)ترجمہ:”پس تزکیر کیجئے اس قرآن کے ذریعے”کے حکم پر عمل نہیں اور عموماً بیانات میں قرآن کے علاوہ دیگر غیر منصوص کتب سے تذکیر کرائی جاتی ہے۔ وہ قرآن جو دلوں کو جوڑنے کے لئے نازل ہوا تھا وہ آج دوسروں کے خلاف گواہیاں دینے کے لئے کام آتا ہے۔ وہ کتاب جس پر عمل کرنے کی وجہ سے یہ قرآن بروزِ قیامت ہماری شفاعت کرتا، آج ہم “وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا( (سورۃ الفرقان:30)ترجمہ:”اور کہیں گے رسول، اے رب! میری قوم نے اس قرآن کو پسِ پشت ڈال دیا”کے مطابق اپنے آپ کو نبی ؐکی بددعا کا مستحق بنا رہے ہیں ۔
اختلافِ رائے ایک فطری اور طبعی امر ہے جس کو نہ مٹایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کو مٹانا اسلام کا منشاء ہے۔ قرآن میں بھی اللہ نے فرمایا ہے ” وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ( (سورۃ ھود:118)ترجمہ:”اگر آپ کا رب چاہتا تو بنا دیتا لوگوں کو ایک ہی امت، مگر وہ اختلاف میں ہی رہیں گے”۔کا مل اتفاقِ رائے صرف دو صورتوں میں ممکن ہے، یا تو ان لوگوں میں کوئی سوجھ بوجھ والا شخص ہی نہ ہو یا پھر اس مجمعے میں تمام انسان ایسے ضمیر فروش اور خائن ہوں کہ ایک بات کو غلط جانتے ہوئے بھی غلط نہ کہیں اور ” إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا( (سورۃ النساء:58)ترجمہ: بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں(مشوروں) کو لوٹا دو ان کے اہل کی طرف”۔ پر بھی عمل نہ کریں۔ اسلام چونکہ فطری دین ہے اس لئے اس نے فطری جذبے کو دبایا نہیں ہے بلکہ صحیح رخ دیا ہے۔ اسلام میں شورائیت کا نظام قائم کیا گیا تاکہ مختلف آراء کی موجودگی میں بصیرت کے ساتھ فیصلہ کیا جاسکے۔
نبی اکرم ؐکے دورِ مبارک میں بھی انتظامی اور تجرباتی معاملات میں اختلاف کیا گیا۔ نبی اکرم ؐکی وفات کے بعد صحابہ کے دور میں پیش آمدہ نئے دینی امور ، اجتہادی مسائل اور تعارض ِ آیات و احادیث کے فہم میں اختلاف ہوا۔ یہاں تک کہ روز مرہ کے اعمال جیسے نماز و روزہ کے فروعی و جزئی امور پر بھی اختلافات ہوئے اور ان مباحث کا ذکر بھی ملتا ہے۔پھر یہ اختلاف تابعین اور تبع تابعین میں بھی جاری رہا۔ یہاں تک کہ بعض امور میں تو حلال حرام تک میں اختلاف ہوا۔ مگر قابلِ تقلید بات یہ ہے کہ یہ اختلاف مخالفت میں نہ بدلا۔ نہ کسی شخص یا گروہ نے مخالفین کو باطل کہا نہ سب و شتم کا نشانہ بنایا۔ بلکہ تمام ایک دوسرے کے تنوع علم سے فائدہ اٹھاتے تھے۔
مذہب خود اختلاف کا سبب نہیں:۔
بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مذہب لوگوں میں اختلاف پیدا کرتا ہے اور اسی کی ہی وجہ سے تاریخ میں کئی خون ریزیاں ہوچکی ہیں۔
دراصل یہ لوگ کسی شبہ میں مبتلا ہیں ورنہ مذکورہ آیۃ اس اعتراض بھر جواب دیتے ہوئے اعلان کررہی ہے کہ اختلافات کا سبب مذہب نہیں لوگوں کے زاتی مفادات اور طغیانی و سرکشی اس کا بڑا سبب ہیں۔ ورنہ مذہب تو سعادت بشر کا خواہاں ہے اور تمام مذہبی قوانین اس بات کا ببانگ دہل اعلان کررہے ہیں کہ مذہب اختلاف کا سر چشمہ نہیں امن و سلامتی کا پیامبر ہے۔
اجتماعی روابط کی قرآنی دعوت:۔
قرآن نے مختلف مقامات پر مختلف انداز میں اجتماعی روابط اور اتحاد و اتفاق کی دعوت دی ہے۔ اختلافات کا حل کرنا ،خاص طور سے دینی اختلافات کو حل کرنا، امن, بھائی چارہ, برادری اور محبت کی فضا بنانا ،حسد اور کینہ توزی کے اسباب کا ازالہ ،اور پیار ومحبت پھیلانا قرآنی طرز زندگی کے اہم امور ہیں۔ خداوند متعال نے قرآن میں تمام مومنین کو برادر قرار دیا ہے اور انہیں امت واحدہ اور عظیم امت میں شامل کرتے ہوئے اپنا بندہ کہا ہے۔ارشاد ہوا:
“وَإِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ”
“اور بے شک یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تم سب کا پروردگار ہوں لھذا میری ہی عبادت کیا کرو۔[ المومنون: 52 ]خدا نے اتحاد کو نعمت قرار دیے کر تمام انسانوں کو اتحاد کی دعوت دی ہے ارشاد ہوتا ہے:
“واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا ۔واذکرونمعت اللہ علیکم اذکنتم اعداءفالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا۔”
“اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی توتم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے ۔”[ آل عمران 103] قرآن کریم انسانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ تقوی اختیار کر کے اپنے اختلافات حل کریں ۔ارشاد ہوتا ہے”فاتقواللہ وااصلحوا بینکم”تقوی اختیار کرو اور آپس کے اختلافات حل کرو۔”[ الانفال: 1 ] قرآنی طرز زندگی کا تقاضہ ہے کہ گھریلو اختلافات اور مسائل حل کرکے گھرانے میں چین و سکون کا ماحول بنایا جائے۔ سورہ حجرات میں حکم خداوندی ہےکہ:
“وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَاَ”
اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو ۔”[ الحجرات : 9] قران نے اس طرح کے صلح پسندانہ اقدامات کو بھائیوں کے درمیان اصلاحی اقدامات سے تعبیر کیا ہے۔ اگلئ آیت میں فرمایا
“إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ”
“بے شک مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا اپنے بھائیوں کے درمیان صلح و صفائی رکھو۔”[ الحجرات : 10] خدا نے قرآن میں خاص طور سے دین میں تفرقہ اندازی کی مذمت کی ہے اور اسے عذاب کا سبب قرار دیا ہے۔ارشاد ہوا:
“وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ٌ”
“ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے تفرقہ کیا اور واضح نشانیاں آ جانے کے بعد اختلاف کیا”[ آل عمران: 105] قرآن نے مذہب و دین میں تفرقہ ڈالنے والوں کو سنت وسیرت پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دور اور آنحضرت کو ان سے بیزار بتایا ہے ۔
سورہ انعام میں ارشاد ہوتا ہے:
“إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ”
“جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے ان کا معاملہ خدا کے حوالے ہے پھر وہ انہیں ان کے اعمال کے بارے میں باخبر کرے گا۔”[ الانعام : 159] قرآنی طرز زندگی میں مسلمانوں کے درمیان تنازعات اور تصادم ہرگز قابل قبول نہیں ہیں۔ کیونکہ اس سے مسلمان کمزور پڑجاتے ہیں اور ان کی عظمت و عزت میں کمی واقع ہو جاتی ہے, ان کی ساکھ متاثر ہوتی ہے اور دشمنوں پر سے ان کا رعب جاتا رہتا ہے۔ اسی لیے قرآن کی نظر میں اتحاد و انسجام ایک طرح کی طاقت ہے جس کا حصول ضروری ہے تاکہ اس کے ذریعے دشمن پر اپنی ہیبت طاری کی جائے تاکہ وہ مسلمانوں کے خلاف کسی بھی طرح کا قدم اٹھانے کی جرات نہ کرسکے۔
سورہ انفال میں ارشاد فرمایا:
“وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُم”
“اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تم بزدل پڑ جاؤ گے اور تمہارا رعب ختم ہو جائے گا۔”[ الانفال : 46 ] قرآن کریم نے حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامنے اور خدا و رسول و اولی الامر کی اطاعت کو اتحاد کا مرکز و محور قرار دیا ہے اسی طرح طاغوت کو حکم بنانے , جاہلیت کی پیروی کرنے نیز خدا و رسول اور آپکی سنت سے روگردانی ،اور اپنے اختلافات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنے کو عدم ایمان کی نشانی اور غیر حق کی پیروی نیز تفرقہ کا بنیادی سبب قرار دیا ہے۔
[ نساء59,احزاب36,نساء65]
صدر اسلام کی تاریخ شاہد ہے کہ مشیت الٰہی کے تحت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقدامات کے سہارے دیرینہ اختلافات محو ہوگئے تھے اور ایسی دوستی کی فضا قائم ہوئی تھی کہ جس کی مثال آج تک نہیں ملتی ،اوس و خزرج کے بڑے قبیلے جو کبھی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے آپس میں بھائی بھائی بن گئے ۔خداوند متعال نے نہ صرف اپنے نبی کو مسلمانوں اور مومنین کے درمیان اتحاد قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی بلکہ انہیں خدا پر عقیدے کی روشنی میں اھل کتاب کوبھی مسلمانوں کے ساتھ متحد کرنے کا حکم دیتے فرمایا:
“قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ”
“کہہ دو کہ اے اہل کتاب آجاؤ اس کلمہ کی طرف جو تمہارے اور ہمارے بیچ ایک ہے”[ آل عمران : 64]۔
اجتماعی روابط کے لیے امام علی علیہ السلام کی قربانیاں
حضرت امام علی علیہ السلام جیسی با عظمت و باکمال شخصیت کا 25 سالہ خاموشی کا زمانہ دراصل اپنے اندر ایک بہت بڑا پیغام رکھتا ہے۔
اس خاموشی کے زمانے میں امام چند چیزوں میں مصروف تھے جو درج ذیل ہیں:
1۔ خدا کی عبادت: وہ بھی ایسی عبادت جو حضرت علی کی شخصیت کی شایان شان تھی یہاں تک کہ امام سجاد اپنی تمام عبادت و تہجد کواپنے دادا کی عبادت کے مقابلے میں بہت ناچیز جانتے ہیں۔
2۔ قرآن کی تفسیر اور آیتوں کی مشکلات کو حل اور شاگردوں کی تربیت کرتے تھے وہ بھی ابن عباس جیسے شاگرد جو امام کے بعد سب سے بڑے مفسر قرآن کے نام سے مشہور ہوئے۔
3۔ تمام فرقوں اور مذہبوں کے دانشمندوں کے سوالات کے جوابات دیتے تھے، خصوصاً وہ تمام یہودی اور عیسائی جو پیغمبر کی وفات کے بعد اسلام کے سلسلے میں تحقیق کرنے کے لئے مدینہ آئے تھے. ان لوگوں نے ایسے ایسے سوالات کئے تھے کہ جس کا جواب حضرت علی ، جو توریت اور انجیل پر مکمل تسلط رکھتے تھے اور جیسا کہ ان کی گفتگو سے بھی واضح تھا،کے علاؤہ کوئی بھی صلاحیت نہیں رکھتا، اگر یہ فاصلہ امام کے ذریعے پرُ نہ ہوتا تو جامعہ اسلامی شدید شکست کھا جاتا، اور جب امام علیہ السلام نے تمام سوالوں کا محکم اور مدلل جواب دیدیا تو وہ خلفاء جو پیغمبر کی جگہ بیٹھے تھے ان کے چہرے پر مسکراہٹ اور عظیم خوشی کے آثار نظر آئے۔
4۔ بہت زیادہ ایسے نئے مسائل کا حل پیش کرنا جس کا اسلام میں وجود نہ تھا اور اس کے متعلق قرآن مجید اور حدیث پیغمبر موجود نہ تھی یہ امام ـ کی زندگی کا ایک حساس پہلو ہے اور اگر صحابیوں کے درمیان حضرت علی ـ جیسی شخصیت موجود نہ ہوتی ۔ جو پیغمبر اسلام کی تصدیق کے مطابق امت کی سب سے دانا اور قضاوت و فیصلہ کرنے میں سب سے اہم شخصیت تھی تو صدراسلام کے بہت سے ایسے مسائل بغیر جواب کے رہ جاتے اور بہت سی گتھیاں نہ سلجھتیں.
یہی نئے نئے رونما ہونے والے حادثات وواقعات ثابت کرتے ہیں کہ پیغمبر کی رحلت کے بعد ایک آگاہ اور معصوم، مثل پیغمبر کے لوگوں کے درمیان موجود ہو جو اسلام کے تمام اصول و فروغ پر کافی تسلط رکھتا ہو اور اس کا علم وکمال امت کو غیر شرعی اور بے جا عمل اور وہم و گمان سے دور کردے اور یہ تمام عظیم خصوصیتیں پیغمبر کے تمام دوستوں صحابیوں کی تصدیق کی بنیاد پر حضرت علی علیہ سلام کے علاوہ کسی اور میں نہ تھیں،
امام ـ کے کچھ فیصلے اور قرآن مجید کی آیتوں سے ان کو ثابت کرنا وغیرہ حدیث وتاریخ کی کتابوں میں تحریر ہیں ۔
5۔جب خلافت پر بیٹھنے والے سیاسی مسائل یا مشکلات کی وجہ سے مجبور و لاچار ہوئے تو ان کی نگاہ میں تنہا امام ـ مورد اعتماد تھے جو ان کے سروں پر منڈلاتی ہوئی مشکلات کو حل کرتے اور ان کی راہ ہموار کر تے ان میں ںسے بعض مشورے نہج البلاغہ اور تاریخ کی کتابوں میں نقل ہوئے ہیں ،
6۔پاک ضمیر اور پاکیزہ روح رکھنے والوں کی تربیت تاکہ وہ امام ـ کی رہبری اور معنوی تصرف کے زیر نظر معنوی کمالات کی بلندیوں کو فتح کر سکیں اور وہ چیز یں جسے آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے وہ دل کی نورانی آنکھوں اور باطنی آنکھوں سے دیکھ سکیں ۔
7۔بہت زیادہ بیوہ اور یتیموں کی زندگی کے روز مرہ کے امور کے لئے کوشش و تلاش کرنا یہاں تک کہ امام ـ نے خود اپنے ہا تھوں سے باغ لگایا اور آب پاشی کے لئے نہریں نکال کر اسے خدا کی راہ میں وقف کر دیا۔
آپ نے اس عرصہ میں مسلمانوں کو متحد رکھنے کی بھر پور سعی کی اور ایک اجتماعی و متحد قرآنی معاشرہ کے قیام کی خاطر اپنے مسلّم حق ولایت سے چشم پوشی کیے رکھی۔ لہذا اس وقت ہم جبکہ امت اسلامی کو سب سے زیادہ ضرورت اتحاد کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور روایات کے بر خلاف نسلی تعصب ، اندھی تقلید اور اپنے اسلاف کی غلط روشوں اور ان کی بعض غلطیوں پر قائم رہ کر اجتماعی تعلقات میں رخنہ ڈالنا کسی صورت قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔ اکثر اوقات ہماری یہ غلط روشیں ، حق اور سنت نبوی و علوی پر مبنی اتحاد آفریں افکار و نظریات کی راہ میں مسلمانوں میں اتحاد و اخوت پیدا کرنے کی منصوبہ سازی اور ان منصوبوں پر عمل درآمد کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ ہماری بدگمانیاں غلط فہمیاں ، خودسری اور اپنے مذہب کو حق ثابت کرنے کے لئے ایک دوسرے پر تہمت و بہتان لگانا اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے معاشرے کے اجتماعی تعلقات میں بگاڑ پیدا کررہا ہے۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ:
الااخبرکم باشرارکم قالوا: بلی یا رسول الله! قال:المشاؤن بانمیمة المفرقون بین الاحبة الباغون للبراءالعیب۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا نہیں چاہتے ہو میں تم میں سے بدترین افراد کی نشاندھی کروں : لوگوں نے کہا ہاں یا رسول اللہ:آپ نے فرمایا وہ شخص تم میں سب سے برا ہے جو نمامی اور سخن چینی کرکے دوستوں میں جدائی ڈالتا ہے اور بے گناہ افراد کے لئے عیب تراشتا ہے[جامع السعادات ج 2 ص212] اجتماعی نگرانی:۔
اجتماعی نگرانی قرآنی طرز زندگی کا ایک کلیدی عنصر ہے جس کی طرف قرآن نے بطور خاص توجہ دی ہے اور اسے امر باالمعروف و نہی عن المنکر سے تعبیر فرمایا ہے۔ امر باالمعروف و نہی عن المنکر اجتماعی روابط کی پختگی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
قرآن میں اس کام کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:
كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ
تم لوگوں کے لیے بھیجی گئی امتوں میں سے بہترین امت ہو جو نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو”۔[ آل عمران : 110]
پس یہ امت بہترین امت تب بن سکتی ہے جب وہ نیکیوں کی دعوت دینے اور برائیوں سے منع کرنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لے۔
اجتماعی نگرانی کے اس اصول میں اجتماعی روابط کی بحالی اور مضبوطی کا سامان موجود ہے اور مذکورہ آیت کی تفسیر میں شیخ محسن قرائتی چند اہم نکات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:”امر باالمعروف و نہی عن المنکر اس قدر اہم ہے کہ امتوں کے معیار کا فرق اس سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اور بہترین امت ثابت یونا صرف نعروں سے نہیں بلکہ ایمان, امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی کے ساتھ ہے۔
پس خاموش اور بزدل امت نیکی اور بھلائی حاصل نہیں کرسکتی۔ “[ تفسیر نور ج 1 ص653]رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے لوگوں کو گناہ و گمراہی سے بچانے کے لیے ان کی خبر گیری کرنا, جد و جہد کرنا, انہیں اچہے اخلاق اپنانے کی ترغیب دلانا اور اچھائی و برائی کے تمام مصادیق کو واضح کرنا دراصل ایک خوبصورت اور پرامن اجتماعی معاشرے کی تشکیل کا سامان ہے۔ البتہ اجتماعی نگرانی کا فریضہ ادا کرنے والے اس بات کی طرف بطور خاص متوجہ رہیں کہ انھیں خود محوری، خود غرضی, خودسری، صرف خود کو حق پر سمجھنے اور دوسروں کو سراسر باطل سمجھنے, گفتار رفتار میں شدت پسندی ، سے پرہیز کرنا ہوگا کیونکہ قرآن کریم کی نظر میں وہم و گمان باطل سے پرہیز کرنے پر تاکید کی گئی ہے اور بعض گمانوں کو گناہ قرار دیا ہے اسی طرح اس نہایت اہم واجب فریضے پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کا مذاق اڑانے ، عیب جوئی کرنے، پردہ فاش کرنے اور ایک دوسرے کو برے ناموں سے یاد کرنے سے پرہیز کرنا ضروری ہے کیونکہ قرآن نے سورہ حجرات کی آیات میں ان تمام امور سے منع کیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے امر بالمعروف اور نہی از منکر کے سلسلے میں عملی نمونہ پیش کیا ہے کہ اس موقع پر لوگوں کا احترام باقی رکھا جائے اور ادب کی حدود سے تجاوز نہ کیا جائے ۔ نفرت انگیز گفتگو نہ کی جائے بلکہ رواداری،حیا،صداقت،تواضع نرم کلام ، بزرگوں کے احترام اور چھوٹوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آنے کا پورا پورا خیال رکھا جائے۔ اسی طرح لوگوں کے راز فاش نہ کئے جائیں اور نہ ہی ان کی غلطیوں کو بار بار دہرایا جائے۔امر بالمعروف اور نہی از منکر کا فریضہ بجا لاتے ہوئے ہمیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح خندہ پیشانی سے پیش آنا چاہئے۔ آپ نرم اخلاق کے حامل اور نہایت پر سکون ہم نشین تھے نہ تند گو تھے نہ ہی سخت گیر ۔ نہ فحاش تھے اور نہ ہی عیب تلاش کرتے تھے اور نہ کسی کی چاپلوسی کرتے تھے جو چیز پسند نہ فرماتے اس سے چشم پوشی فرماتے اور کوئی بھی آپ سے مایوس نہیں ہوتا تھا۔
ان تعلیمات کی اساس پر ہم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں ہمیں امر بالمعروف اور نہی از منکر کے بہانے ایک دوسرے کی جان کے درپے نہیں ہو جانا چاہئے اور نہ ہی دوسروں کے لئے سبب آزار و اذیت اور تصادم کا باعث بننا چاہئے ، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اخلاقی لحاظ سے آپ سے سب سے زیادہ شباھت رکھنے والا شخص وہ ہے جو اچہے اخلاق کا حامل ہو، جس میں نرمی اور ملائمت زیادہ ہو ، اپنے عزیز و اقارب کے حق میں زیادہ نیکیاں کرتا ہو اپنے دینی بھائیوں سے زیادہ مہربانی سے پیش آتا ہو، حق پر جن کا صبر زیادہ ہو جو غصے کو پی جاتا ہو اور زیادہ بذل و بخشش اور انصاف کا حامل ہو۔
بنابریں غیرت الٰہی سے حاصل شدہ غیرت دینی کے سہارے اسلامی معاشرے کو اس سمت میں لے جایا جانا چاہئے جہاں ہر مسلمان منکر سے بیزار ہو، اور اسلامی ملکوں میں محرمات کی ترویج کے مقابل خاموشی اختیار نہ کرے اور احکام خداوندی کے سلسلے میں رواداری کا اظہار نہ کرے۔
اگر ہم غور کریں تو فی زمانہ ، داخلی سطح پر امت اسلامی کا فریضہ ہے کہ وہ داخلی سطح پر اپنی اصلاح اور اتحاد کے لئے تعمیری گفتگو کی راہ ہموار کرنے ، اور بیرونی سطح پر دشمن کا ہر طرح سے مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں اتر آئے۔ شریعت مطہرہ نے ہمیں دو چیزیں دی ہیں۔ ایک سے دُشمن قطعاً پریشان نہیں، اس کی اجازت وہ ٹھیٹھ معنی میں ’’دارالحرب‘‘ یا ’’دارالکفر‘‘ کہلائے جانے والے ممالک میں بھی دیتا ہے۔ دوسرے سے اسے اتنی پریشانی ہے کہ ان ممالک میں بھی وہ اسے پنپنے نہیں دیتا جن کی پہچان ہی اسلام ہے، بلکہ وہ عالم اسلام کے قائد مانے جاتے ہیں۔ ُدشمن کی طرف سے متفقہ طور پر پہلی چیز کی حوصلہ افزائی کرنا اور دوسرے کی تاک میں رہنا بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دوسری چیز پہلی سے بھی زیادہ اہم ہے، بلکہ پہلی چیز کی بقاء اس میں مضمر ہے کہ اس دوسری کو بہرحال زندہ رکھا جائے اور اس پہلی چیز پر تب ہی بہتر طریقے سے عمل ہوسکتا ہے جب دوسری کا سایہ اور سہارا موجود ہو۔ انسان کے خالق اللہ تعالیٰ ہیں۔ وہ بہتر جانتے ہیں کہ انسان عبادات ہوں، یا معاملات یا اخلاقیات، تب ہی بہتر طریقے سے ادا کرسکتا ہے جب نظامِ حیات اور معاشرے کے سماجی رجحانات اور ذہنی میلانات کو تشکیل دینے والے عناصر شریعت سے ہم آہنگ اور اس کے تابع و قائل ہوں۔ شریعت نجی اعمال سے زیادہ اجتماعی زندگی میں اعمال کے احیاء و قیام پر زور دیتی ہے اور کفر اجتماعی نظام کو شریعت کے تابع بنانے سے نہایت خائف رہتا ہے کہ اسے اندازہ ہے جب سرپرستی رعب و شوکت یا اجتماعی سرپرستی اور نگرانی دوسرے لفظوں میں ترغیب و تربیت کے ساتھ شان و شوکت کا سایہ نہ ہو، تو نجی اعمال آہستہ آہستہ خود ہی چھوٹتے جائیں گے۔ اگر ہوں گے بھی تو ان سے کفر کے نظام کو کوئی خطرہ نہ ہوگا، اس لیے کہ کفر کے نظام کو آسمانی نظام ہی شکست دے سکتا ہے، جیسا کہ کفر کے گھڑے ہوئے نظریات یا اعمال کو سچے نظریات یا مسنون اعمال ہی ختم کرسکتے ہیں۔
نجی اعمال اور اجتماعی نظام دو اہم شعبے ہیں، جس کا اندازہ اپنوں پرایوں سب کو ہے۔ تبھی تو علامہ ابن کثیر اپنی شہریہ آفاق تاریخ ’’البدایہ و النہایہ میں سن وار واقعات ذکر کرتے ہوئے اس سن ہجری پر پہنچتے ہیں جب عباسی خلافت کے مسند نشین تاتاریوں کے ہاتھوں شہید کردیے گئے تو وہ کہتے ہیں کہ دوسرا سال شروع ہوچکا ہے اور مسند خلافت خلیفۃ المسلمین کے وجود سے محروم ہے اور مسلمان ایک اہم حکم کے قیام سے محروم ہوئے بیٹھے ہیں۔ علامہ خصکفی ’’الدرالمختار‘‘ میں نماز کی امامت کے بیان میں لکھتے ہیں کہ یہ امامت صغریٰ ہے، جبکہ نبوت کی نیابت و خلافت امامت کبریٰ ہے۔ تبھی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تدفین سے پہلے اپنے امام کا انتخاب کیا۔ بعد میں تاجدارِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری آرام گاہ میں رحمتِ الٰہی کے سپرد کیے گئے۔
دوسری طرف امریکی صدر ہر سال افطار پارٹی دیتا ہے۔ اسلامی ممالک سے ذہین طلبہ کو اسکالر شپ پر دینیات میں پی ایچ ڈی کے لیے یورپی ممالک میں بصد اعزاز لے جایا جاتا ہے۔ بعض بیرونی ممالک میں حجاج کرام کے لیے خصوصی پروازوں اور واپسی پر سرکاری دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اب تو ماشاء اللہ ایسے مدرسے بھی وجود میں آگئے ہیں جہاں بیرونی سفارت خانوں کے فرسٹ سیکریٹری مہمانِ خصوصی کے طور پر شریک ہوتے ہیں۔ ناروے جیسے توہین رسالت کے حوالے سے گستاخ ترین ممالک ان مدرسوں کے لیے خصوصی فنڈ جاری کرتے ہیں۔ کفر ان سب چیزوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس ریاکارانہ خوش اخلاقی کے ذریعے وہ اپنے خانخوارانہ مظالم چھپانے کی اور عالم اسلام میں ’’کام‘‘ کے لوگ تیار کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن وہ افغانستان میں ٹوٹی پھوٹی یا زخموں سے چور امارت کو کبھی اور کسی قیمت پر برداشت نہیں کرتا۔ کیوں؟ آئیے! اس نکتے کو سمجھتے ہیں۔
انسانی آبادیوں میں 90 فیصد انسان وہ ہوتے ہیں جو تحقیقی ذہن نہیں رکھتے۔ وہ معاشرے میں رائج نظریات اور رویوں کے پیچھے چلتے ہیں۔ جو چیز ان کے آس پاس ہورہی ہے وہ بیہودہ سے بیہودہ تر ہو، لیکن ان کے لیے بآسانی قابل قبول ہوتی ہے، جبکہ آسمان سے نازل کی گئی مقدس و معقول ہدایات انہیں اس لیے عجیب و غریب اور اجنبی و اوپری لگتی ہیں کہ وہ ان کے نام نہاد آئیڈیلز نے اپنائی ہوئی نہیں ہوتیں، لہٰذا ان کا روایت پرست اور غیرتحقیقی ذہن انہیں قبول نہیں کرتا۔ اس لیے شریعت بقیہ دس فیصد لوگوں کو حکم دیتی ہے جو معاشرے کو چلارہے ہوتے ہیں کہ نجی اعمال کی طرح اجتماعی اعمال کا نظام قائم کرو ورنہ ساری محنت ادھوری رہ جائے گی۔ عام انسان معقول نظریے کے بجائے محض اس لیے کسی غیرمعقول اور بے ہودہ چیز کو اپنالیتا ہے کہ وہ انہیں اپنے آس پاس رائج و نافذ دیکھ کر مرعوب و مسخر ہوجاتا ہے۔
دین پر عمل کے لیے انسان کے اندر جو محرک پیدا ہوتا ہے، اس کا سبب جس طرح زبان سے سمجھانا، اسی طرح مثال قائم کرکے دکھانا اور ہاتھ سے روکنا بھی ہے۔ نظام کے بغیر کوئی چیز متفرق طور پر تو وجود میں آسکتی ہے، لیکن اجتماعی اور قومی زندگی میں رواج نہیں پاسکتی۔ عالم کفر کو جس چیز سے اندیشہ نہیں، اس سے مسلمانوں کی کامل فلاح کیسے ہوسکتی ہے؟ نجی زندگیوں کا آدھے سے زیادہ سدھار وہ نظریہ کرتا ہے جو زمین پر عملاً نافذ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطا فرمائے کہ اسلام کو غالب شکل میں لانے کے لیے خارجی زمینی حقائق کو آسمانی تعلیمات کے مطابق کرنے سے ہی نظامِ شریعت کی تکمیل ہوسکتی ہے۔
اجتماعی روابط کے قرآنی راستے
قرآن مجید نے معاشرے کے افراد کے درمیان اجتماعی روابط کی ضرورت و اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کے مختلف عملی راستوں کی طرف رہنمائی بھی فرمائی ہے۔ گویا معاشرے کے اجتماعی روابط کے فروغ اور اختلافات کے خاتمے کا مسئلہ قرآن کے پیش نظر رہا ہے۔ انسانی اور اسلامی معاشرے کی اکائیوں میں اجتماعی روابط کو فروغ دینے کے لیے قرآن مجید نے کچھ اصول کا ایک مجموعہ بیان فرمایا ہے جس میں حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ تبلیغ کی دعوت ، صلح وصفائی اور خیرخواہی کے لئے کوششیں، درگذر، عفووبخشش، زیادتی اور دشمنی کے مقابلہ کھڑے ہوجانا، حادثات کے وقت علم ودانش پر تکیہ کرنا شامل ہے۔
قرآن اجتماعی روابط کو کس قدر اہمیت دیتا ہے اس کا اندازہ قرآن قرآن کے انداز تخاطب سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ قرآن کا طرز تخاطب عموما مجموعی رہا ہے۔ جب قرآن تمام عالم انسانیت سے مخاطب ہوتا ہے تو یا ایھا الناس کہ کر آواز دی جاتی ہے۔ یا پھر اہل ایمان سے بطور مجموع خطاب کرتے ہوئے یاایھاالذین آمنو کہا جاتا ہے اور جب ہدایت کے منکرین سے خطاب ہو تو یا ایھا الکافرون کہا جاتا ہے۔ پس اس طرح بطور مجموع خطاب
کرکے سمجھایا جا رہا ہے کہ قرآن کی تعلیمات و ہدایات تمام لوگوں کے لیے ہیں۔ اور لوگوں کی انفرادی زندگی کی طرح اجتماعی روابط کو بھی قرآن بہت اہمیت دیتا ہے۔ گویا قرآن کا ہدف فقط افراد نہیں بلکہ تمام سوسائیٹی ہے۔
قرآن نے مشورے کا حکم دے کر اجتماعی روابط میں گویا جان ڈال دی ہے۔ ارشاد ہوا:(وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمَْ)”اور ان کے معاملات آپس میں باہمی مشورے سے انجام پاتے ہیں۔”[ الشوری : 38 ] اجتماعی روابط کی مضبوطی کے لیے مزید فرمایا:
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنتُمْ اَعْدَاءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فاَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ اِخْوانا
“اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔”[ آل عمران : 103] انسانوں کے متحد اور مجتمع ہونے سے ایسی اجتماعیت تشکیل پاتی ہے کہ جس پر نگاہ ڈالتے ہی دشمن وحشت زدہ ہو جاتا ہے اور کبھی بھی اس کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ قرآنِ مجید نے ہمیں اپنے زمانہ نزول سے ہی یہ راز سکھا دیا تھا کہ:
تُرہِبُونَ بِہِ عَدُوَّ اللہ وَعَدُوَّکُم
’’تم اس ( طاقت وصف بندی )کے ذریعہ اپنے اور خدا کے دشمنوں کو خوف زدہ کرو۔ ‘‘
قرآن مجید کی دیگر متعدد آیات میں مسلمانوں کو متحد رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَاعتَصِمُوابِحَبلِ اللہِ جَمِیعاًوَلَا تَفَرَّقُوا۔
’اور تم سب ملکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو – ‘‘ [2] آیتِ مبارکہ میں فرد واحد کے بجائے پوری امت سے خطاب ہے۔ اعتصام بحبل اللہ یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینا ہرمسلمان کا فریضہ ہے۔ قران نے صرف خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے حکم پر اکتفا نہیں کیا ہے بل کہ کہا ہے ’ ’ جَمِیعًا ‘‘ کہ سب مل کر خدا کی رسی کو تھامیں۔ مسلمانوں کو ساتھ ساتھ مل کر اجتماعی شکل میں اعتصام بحبل اللہ کرنا ہو گا اور ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہونا ہو گا۔ بالفاظِ دیگر اس آیت کریمہ میں اتحادِ اُمت کا حکم دیا گیا ہے اور تفرقہ سے بالکل منع کیا گیا ہے۔ مفسرینِ کرام کے نزدیک ’’حبل اللہ‘‘ سے مراد کتاب و اہل بیت ؑ ہیں۔ لہٰذا اُمت مسلمہ کے درمیان کتاب اللہ اور اہل بیت رسول اللہ کی شکل میں اتحاد و اتفاق کی دو مضبوط بنیادیں موجود ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے :
’’میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں : ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میرے اہل بیت ؑجب تک تم ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہو گے گمراہ نہ ہو گے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ کا پیغام اور اس کی تعلیم و ہدایت قرآن کریم کی شکل میں موجود ہے۔ اس میں انسانوں کے لیے زندگی گذارنے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ جس کی عملی شکل حضور اکرم ؐ کی ذاتِ گرامی کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہئے کہ کتاب و سنت کی بنیاد پر متحد و متفق ہوں۔
اتحاد کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ تمام مسلمان اپنی انفرادی رائے، اعتقادات و مسلک حیات سے دستبر دار ہو جائیں، بل کہ اتحاد سے مراد و مقصود یہ ہے کہ ہر شخص اپنے اعتقادات پر قائم رہتے ہوئے ان پر عمل کرے دوسروں کی رائے و دلیل کے حوالے سے احترام، وسعت قلبی اور رواداری کا اظہار کرے اور تعصب سے پرہیز کرے کیونکہ تعصب تنازعہ و تصادم کو جنم دیتا ہے۔ جس طرح اصحابِ رسول اور قرونِ اولیٰ کے مسلمان باوجود اختلافِ رائے احترامِ باہمی کا خیال رکھتے ہوئے اخوت و محبت سے زندگی بسر کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اختلاف اور باہمی انتشار و بد امنی کی مذمّت بیان کرتے ہوئے اسے بدترین عذاب قرار دیا ہے :
قُل ھُوَ القَادِرُ عَلَی اَن یَبعَثَ عَلَیکُم عَذَابًا مِن فَوقِکُم و مِن تَح ِ اَرجُلِکمُا و یَلبِسَکُم شِیَعًا وَیُذِیقَ بَعضَکُم بِبَعضٍ
’’اے رسول!تم کہہ دو کہ وہی اس پر قابو رکھتا ہے کہ (اگر چاہے تو)تم پر عذاب تمہارے سر کے اوپر سے نازل کرے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے (اٹھا کر کھڑا کر دے )یا ایک گروہ کو دوسرے سے لڑا دے اور تم میں سے کچھ لوگوں کو بعض آدمیوں کی لڑائی کا مزا چکھا دے۔ ذرا غور تو کرو ہم کس کس طرح اپنی آیتوں کو الٹ پلٹ کے بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھیں۔ ‘‘
بنیادی طور پر مسلمان فرقہ میں بٹے ضرور ہیں لیکن بغور دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کی یہ فرق صرف طریقہ عبادات تک محدود ہے۔ قران اور رسول کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے معاملے میں مسلمان بہت قریب ہیں اور قران کے بنیادی پیغام کی دل سے عزت کرتے ہیں۔ قران کی آیات کا بنیادی مطلب بھی سب کے نزدیک ایک ہی ہے۔متحدہ ہونے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا مطلب متحدہ طور سے ایک ایسے سیاسی اور سماجی ڈھانچہ کی تعمیر ہے جہاں قران کے بنیادی اصول قائم رہیں۔ کروڑوں افراد کو متحد کرنے کے لئے، بیعت یا عرف عام میںایوان نمائندگان یا مجلس شوری کا تصور قران میں موجود ہے۔ اس بیعت یا ووٹنگ کی مدد سے عام انسان اپنے نمائندے منتخب کرکے ایک اجتماعی اسمبلی بناسکتے ہیں۔ مسلمانوںمیں یہ تصور بہت پہلے سے موجود ہے۔ یہاں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا مطلب ہم بہ آسانی یہ لے سکتے ہیں کہ اکثریت بھی قران کی اصولوںسے نہیں ہٹ سکتی اور ان اصولوں کو تبدیل یا ترک نہیں کر سکتی ہے۔
اجتماعی روابط کے فروغ کے لیے قرآن ایک منظم پلیٹ فارم بنانے کی تجویز دیتے ہوئے فرماتا ہے:”اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں۔”[ آل عمران 104] عموما اس سے مراد یہ لی جاتی رہی ہے کہ کچھ لوگ جمع ہوکر کبھی کبھار تبلیغ کرلیں یا لوگوں کو نصیحت کردی جائے۔ لیکن جب ایک ایک منظم معاشرے کی بات کی جارہی ہے تو ویاں اس طرح کی مشغولیت سے باقاعدہ قوانین کا کام نہیں لیا سکتا۔ لہذا اس کے لئے ایک منظم ادارہ کے قیام کی ضرورت ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے مومنین کے باہمی امور میں فیصلہ کے لیے مشورے کے لیے باقاعدہ مجلس شوری کا نظام متعارف کرایا ہے۔ جس کے نمائندوں کے انتخاب کے لئے قرآن نے یوں رہنمائی فرمائی ہے:
“وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُوا ۖ وَلِيُوَفِّيَهُمْ أَعْمَالَهُمْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُون”
“اور سب کے لئے ان کے اعمال کی وجہ سے جو انہوں نے کئے درجات مقرر ہیں تاکہ اللہ ان کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔”[ الاحقاف : 19 ]۔
ان نمائندوں کو اس دنیا میں اور اسلامی معاشرے میں مناسب درجات پر فائز کرنے کے لیے انکے اعمال سے ان کے درجات کا تعین ہوتا ہے۔اور چننے والوں کو اللہ تعالی ہدایت کرتا ہے کہ آپ اپنا اعتماد یعنی ووٹ یا بیعت ان لوگوں کے حوالے کریں جو اس کے مستحق ہیں۔
“إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أھلِھا”
“بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں”[ النساء : 58 ] یہاں لفظ امانات سے ووٹ اور حق رائے دہی بھی مراد لیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ بھی ایک قسم کی امانت ہی ہے جو اہل افراد کے حق میں استعمال کی جانی چاہیے۔ اس پورے نظام میں وہ لوگ جو آپ سے مختلف خیالات رکھتے ہیں ان کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لیے قران نے نرم خوئی اور باہمی مشاورت سب کو ساتھ چلانے کا حکم دیا ہے۔
نتیجۂ بحث
پس اب تک کی بحث سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قرآنی طرز زندگی ایسا آفاقی نظام ہے جو ہر انسان کو نہایت بہترین طریقے سے امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا حق فراہم کرتا ہے۔ قرآن ہمیں تاکید کر رہا ہے کہ معاشرے میں قرآنی ہدایات کے مطابق اجتماعی روابط کو فروغ دے کر ایک بہترین, منظم اور متحد معاشرہ تشکیل دیا جائے جس میں ہر زاویے سے قرآنی طرز زندگی کی عملی جھلک نظر آئے۔ قرآن کہیں واعتصموا بحبل اللہ جمیعا کہ کر توحید کے پلیٹ فارم پر جمع ہونے کا حکم دیتا ہے تو کہیں امۃ واحدہ کے خطاب سے نواز کر اتحاد و اتفاق کی ترغیب دلاتا ہے۔ قرآنی طرز زندگی میں انسان کو اختیار دین, اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے نیز انفرادی و اجتماعی زندگی میں اظہارِ سچ کی آزادی حاصل ہے۔ اس لیے کہ اس معاشرے میں بے جا جبر و تشدد کی نفی کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک انسان کو اپنی زندگی کے ان ضروری امور میں بہتر راہ کے انتخاب کی آزادی حاصل نہ ہو تو معاشرہ کبھی ترقی کی راہوں پہ گامزن نہیں ہو سکتا۔
قرآن کا یہ اصول رہا ہے کہ جہاں انسانوں کے انفرادی و شخصی معاملات پر توجہ دی گئی ہے اس سے کہیں زیادہ اجتماعی روابط کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن نے اجتماعی روابط کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے قانونی و معاشرتی مساوات, ایثار و قربانی,احترام انسانیت نیز صلح صفائی کے ساتھ ساتھ معاشرے میں عمومی عدل و انصاف کے قیام پر زور دیا ہے۔ یقینا ان تمام امور پر اگر منظم طریقے سے عمل کیا جائے تو اجتماعی روابط کی اعلی مثال قائم کرتے ہوئے ایک ایک متحد و پرامن معاشرے کا قیام یقینی ہے۔
قرآن ہمیں اجتماعی روابط کے فروغ کے لیے اجتماعی نگرانی یا امر باالمعروف و نہی عن المنکر جیسا بہترین نظام بنانے کی تشویق دلاتا ہے کہ جس کے زریعے معاشرے میں پیدا ہونے والے بگاڑ کا بطریق احسن مقابلہ کرتے ہوئے اسے جڑ سے اکھاڑا جا سکتا ہے۔ اجتماعی نگرانی کا یہ خوبصورت اصول وضع کرکے قرآن نے معاشرے کے ہر فرد کے اندر یہ احساس بیدار کیا ہے کہ اسے فقط اپنی انفرادی زندگی پر ہی توجہ نہیں دینی بلکہ معاشرے کے مصالح و مفاسد پر نظر بھی مرکوز رکھنی ہے اور معاشرے کی اصلاح و ترقی میں اپنا حصہ بھی ڈالتے رہنا ہے۔ پس قرآن ہمیں قرآنی طرز زندگی کے مطلوبہ اجتماعی روابط بھائی چارہ, ایثار و قربانی, عدل و انصاف, صلح و صفائی, عائلی زندگی نیز بین الاقوامی تعلقات کی بہتری کے لیے مختلف انداز سے اپنا حصہ ڈال کر ایک منظم و متحد معاشرہ تشکیل دینے کی ترغیب دیتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کے ان مبانی و ملاکات سے تمسک کرتے ہوئے صحیح راستے پر گامزن ایک آئیڈیل اور بہترین معاشرے میں تمام مطلوبہ اجتماعی روابط کے حصول کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔