تحریر: عاصمہ شیرازی
خیالات منتشر ہیں اور سوچ گمشدہ۔۔۔ ہم پیچھے کے سفر میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ سچ مانیے خود کلامی میں بھی مایوسی سے بیر ہے اور نا اُمیدی سے چِڑ مگر واقعات کا تسلسل ہے جو ذہن کی دہلیز پر خوف کا پہرا دیے بیٹھا ہے۔
کوشش کے باوجود اچھرہ مارکیٹ لاہور میں خوف اور دہشت کا شکار آنکھیں فراموش نہیں کر پا رہی۔ عربی برینڈ کے مشہور ڈیزائن کی قمیض پہنے خاتون کے گُمان میں کہاں ہو گا کہ بازار کا بازار ہجوم کا ہجوم اس پر جھپٹ پڑے گا۔ پولیس کی نگہبانی میں معافی مانگتی خاتون کس جُرم کی مرتکب تھی یہ سوال معاشرے اور ریاست سے پوچھنے کا ہے کسی غیر سے نہیں۔
جہاں خاتون پولیس افسر کی بہادری قابل ستائش ہے جو مشتعل ہجوم اور اشتعال انگیز نعروں کے بیچ سے متاثرہ خاتون کو چھڑا لے گئیں وہیں مذہبی شخصیات کے بیچ معافی مانگتی خاتون تصویر کا دوسرا اور خوفناک رُخ ہے۔ مذہب کا ٹھیکہ نام نہاد ٹھیکے داروں کے ہاتھ کب آیا اور کس نے دیا، اس سوال کے لیے جواب ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں۔
یہ محض ایک واقعہ نہیں یہ احساس کے تن پر لگی وہ تعزیز ہے جس کے لیے کسی عدالت کی بھی ضرورت نہیں اور نہ ہی کسی قاضی کی گنجائش۔ توہین مذہب کا الزام لگا کر کسی کو بھی ہجوم کے سامنے پھینک دینا کس قدر آسان ہے کوئی ہمارے معاشرے سے پوچھے۔
زیادہ دنوں کی بات نہیں ابھی چند دن قبل ملک کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس کے ایک فیصلے کو جس کا قطعاً کوئی تعلق احمدی فرقے کی ترویج سے نہ تھا جس طرح بے بنیاد مہم کا ہدف بنایا گیا اور بنا پڑھے اور سوچے سمجھے اُس کو پھیلایا گیا وہ آنکھیں کھول دینے کو کافی ہے۔
سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے چیف جسٹس تک کو معاف نہیں کیا گیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے توہین کی اس آگ کو مخصوص نظریے سے مضموم مقاصد کے تحت پھیلایا گیا۔ کیا اس کا مقصد ’ناپسندیدہ جج‘ کو ہجوم کے حوالے کرنا تھا، اس کی تحقیقات ضروری ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر بھولے نہیں بھولتے جو اپنے قتل تک وضاحت دیتے رہے کہ وہ کسی توہین کے مرتکب نہیں ہوئے۔
جس ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے جج توہین مذہب کے الزامات سے نہ بچ پائیں وہاں مجذوب کو معتوب بنتے کتنی دیر لگتی ہے۔ توہین مذہب وہ ہتھیار ہے جس کا شکار کوئی بھی کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ اس الزام کی نہ تو کوئی تصدیق کرتا ہے اور نہ ہی چھان بین۔۔۔ نہ ثبوت مانگے جاتے ہیں اور نہ ہی بیان سُنا جاتا ہے۔
ملک کی جیلوں میں کئی جنید حفیظ اپنی بے گُناہی کے لیے عدالتوں سے مایوس ہو جاتے ہیں، پختونخوا کے کئی مشال خان جنونیت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ انصاف ملتا نہیں مل جائے تو ہجوم چھوڑتا نہیں۔ ہم کہاں کھڑے ہیں، کیسے یہاں تک پہنچے ہیں اور کون ذمہ دار ہے، یہ سوال محض سوال ہی ہیں جواب کسی کے پاس نہیں۔
ہم یہاں تک ایسے ہی نہیں آ پہنچے۔ جس طرح مذہب کی آڑ میں سیاست اور مفادات کے تحفظ کے لیے مذہب کا استعمال کیا جاتا رہا ہے یہ اُسی کا شاخسانہ ہے کہ انتہا پسندی اپنے عروج کو جا پہنچی ہے۔ ریاست نے جس طرح مذہبی انتہا پسندی کی پرورش کی ہے اور جس طرح سیاسی مقاصد کے لیے ’مذہبی ٹچ‘ دیا جاتا رہا ہے اب یہ بٹن ہر ہاتھ آ چکا ہے جو چاہے جہاں چاہے جب چاہے استعمال کر سکتا ہے۔
پنجاب میں توہین مذہب کے الزامات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کن کن مخصوص گروہوں کو گذشتہ کچھ عرصے میں تقویت اور تحفظ فراہم کیا گیا ہے اس کے نتائج اب نکلنا شروع ہو گئے ہیں مگر یہ سلسلہ رکے گا کہاں؟ اس کی حد کیا ہے؟ اس کا تدارک نہ کیا گیا تو انتہا پسندی کا یہ ’حلوہ‘ تیار ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو