سیاسیات-انقلاب اسلامی کی 45ویں سالگرہ کے موقع پر حضرت آیت اللہ شیخ محمد باقر مقتدی نے اپنے ایک پیغام میں دنیا کے تمام مظلوموں بالخصوص ملت اسلامیہ ایران کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک پر ضروری ہے کہ اس انقلاب کی حفاظت کریں کیونکہ جہاں اسلامی ثقافتی اور معارف دینی کی اشاعت کے لیے اس انقلاب ضرورت ہے، وہاں پر دشمنان اسلام اس نظام کو کمزور اور مثانے پر تلے ہوئے ہیں بہت سی چیزیں ہیں جو اس انقلاب کو نمایاں اور ممتاز کرتی ہیں اور ان برجستہ اور عظیم اہداف کے حصول کے لیے اسے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔
1: قائد انقلاب، مرجع تقلید ہے اس انقلاب کی سربراہ ایک فقیہ ہے جو سب سے زیادہ پڑھا لکھا، سب سے زیادہ متقی، سب سے زیادہ بے غرض، سب سے زیادہ تجربہ کار شخص ہے جس نے اس انقلاب کی قیادت سنبھالی ہوئی ہے جس میں نہ دنیا کی ہوس ہے نہ جاہ و مقام کی طلب، عادل متقی شخص ہے ایسا لیڈر دنیا ملنا ممکن نہیں قرآن کہتا ہے:«إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاهَ فِیهَا هُدًی وَنُورٌ ۚ یَحْکُمُ بِهَا النَّبِیُّونَ … وَالرَّبَّانِیُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن کِتَابِ اللَّـهِ» (مائده/۴۴) “بے شک ہم نے تورات کو نازل کیا ہے، اس میں ہدایت اور روشنی ہے، انبیاء اس کے ذریعے فیصلہ کریں گے… اور اساتذہ اور مخبر اس بات سے جو انہوں نے خدا کی کتاب سے حفظ کیا ہے۔” (مائدہ:44) ہم نے تورات کو نازل کیا جبکہ اس میں ہدایت اور روشنی تھی۔ اور انبیاء اور علماء اور دانشمندوں نے اس کتاب پر فیصلہ کیا جو ان کے سپرد تھی۔ یعنی انبیاء کے بعد علماء اور دانشمندوں نے تورات کی بنیاد پر حکومت کی۔ اور نظام ولایت فقیہ سے مراد کتاب الٰہی پر مبنی علماء کی حکمرانی ہے، اس لیے مسئلہ ولایت فقیہ، اسلامی نظام کی اہم خصوصیات میں سے ہے، جو دنیا میں کہیں اور نہیں ہے۔
2: کسی کام کا مقصد اس کام کی قدر کو بڑھاتا ہے۔ انقلاب کا ہدف صرف اسلام تھا اسلامی طرز زندگی گزارنا کیونکہ اس کا ہدف الٰہی تھا، اس لیے انقلاب کے آغاز سے لے کر اب تک اس انقلاب کو بچانے کے لیے ہزاروں لوگوں نے اپنی قیمتی جانوں کی قربانی سے دریغ نہیں کیں، جوان، بوڑھے اور بہنیں اس راہ میں شہید ہوئے ہیں۔ کیا یہ ساری قربانیان انقلاب کے ان بلند اہداف کو محفوظ رکھنے کے علاوہ آپنی قیمتی جانیں آسانی سے قربان کرسکتے تھے؟ «فَمَن یُرِدِ اللَّـهُ أَن یَهْدِیَهُ یَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ» (انعام/۱۲۵) “جس کو خدا ہدایت دینا چاہتا ہے، اس کا سینہ ( اسلام کی) قبولیت کے لیے کھولتا ہے”
3: اور اس انقلاب کو مشروعیت بخشنے کے لیے عوام ہر وقت منظر میں موجود رہے ہیں اور یہ انقلاب اپنے سیاسی مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے عوام کے رائے پر انحصار کرتے ہیں «وَأَمْرُهُمْ شُورَیٰ بَیْنَهُمْ» (شوری/۳۸) انقلاب سے پہلے لوگوں سے کوئی مشاورت نہیں ہوتی تھی۔ کسی ایک گروہ یا جماعت سے نہیں بلکہ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی موجودگی! کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ انقلاب انجینئروں، ڈاکٹروں، مزدوروں، کسانوں، ملاؤں، مسلح افواج یا بازاریوں کا ہے بلکہ یہ انقلاب تمام لوگوں اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی موجودگی سے تشکیل یہ انقلاب تمام لوگوں اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی موجودگی سے تشکیل پایا تھا۔ اس انقلاب اور نظام کا بھروسہ عوام پر ہے۔ پارٹی، نوکری، نسل، لہجہ، خاندان، علاقہ اور کسی دوسری چیز کی بات نہیں
4: استکباری طاقتوں کی مخالفت اور مظلوم کی حمایت قرآن اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات کو یوں بیان کرتا ہے:: «اشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا» (فتح/۲۹) یہ انقلاب، مشکلات اور دباؤ کے باوجود، دنیا کے مظلوموں، جیسے فلسطین، عراق، لبنان اور شام کی مدد کرتے ہیں۔” رُحَمَاءُ بَیْنَهُمْ” کے عملی نمونہ ہے اور دوسری طرف اس نے مشرق و مغرب کی استعماریت مد مقابل کھڑا ہوا اور اسلامی جمہوریہ کے خارجہ پالیسی ” نہ شرقی نہ غربی جمہوری اسلامی” قرار دیا اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ بہت سے ممالک میں بالواسطہ اور بلاواسطہ مداخلت کر رہا ہے اس ملک کے صدر اور اعلیٰ عہدے داروں کو منتقل کرتے ہیں، لیکن ایران میں اسے ایک بھی نمائندے کو ہٹانے یا مقرر کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ یہ ان مسائل میں سے ایک ہے جو مغرب کو اسلامی جمہوریہ ایران کے مخالفت پر کمربستہ کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں زندہ گور کرنے والی لڑکیوں کے بارے میں کہتا ہے، «وَإِذَا الْمَوْءُودَهُ سُئِلَتْ بِأَیِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ» (تکویر/۸و۹) اس لڑکی نے ایسا کیا گناہ کیا تھا کہ اس نے مارا گیا ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ مظلوم کو تلاش کرنا ایک قدر ہے اور اس کا مذہب، قومیت اور نسل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جہاں سے بھی مظلوم کی آواز سنو اٹھ کھڑے ہو جاؤ اور اب اسلامی جمہوریہ یہ کر رہی ہے۔ لہٰذا ایران میں ہم دیکھتے ہیں کہ عوام بھی اس خدا پزند کام پر کاربند ہیں اور دنیا میں جہاں بھی کسی پر ظلم ہوتا ہے لوگ مارچ کرتے ہیں اور ظالموں کے خلاف نعرے لگاتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے: «لَا یُصِیبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَهٌ فِی سَبِیلِ اللَّـهِ وَلَا یَطَئُونَ مَوْطِئًا یَغِیظُ الْکُفَّارَ وَلَا یَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّیْلًا إِلَّا کُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ» (توبه/۱۲۰) اللہ کی راہ میں انہیں کوئی پیاس، تھکاوٹ اور بھوک نہیں پہنچے گی، کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاتے جس سے کافروں کے غضب کا باعث ہو، اور دشمن کی طرف سے ایک زحم نہیں کھاتے ہیں جب تک کہ اس کی وجہ سے ان کے لیے کوئی نیکی نہ لکھی جائے۔ لہٰذا 22 بہمن اور یوم قدس کا یہ مارچ سپر پاورز اور اسرائیل کے غصے کا سبب بنتی ہے۔