تحریر: مظہر برلاس
قیام پاکستان کے وقت بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے ذہن میں کیسا نظام حکومت تھا، اس کی وضاحت کیلئے برصغیر کے مشہور دانشور اور خطیب علامہ رشید ترابی نے کہا کہ’’قیام پاکستان کے فوراً بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے مجھے کراچی طلب کیا، میرے لئے ہوٹل میں قیام کا بندوست کیا۔
قائد اعظم نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو خط مالک اشتر کو لکھا تھا اس کا انگریزی ترجمہ کیا جائے۔ قائد اعظم کے فرمان کے بعد میں نے کراچی ہی میں ترجمے کا آغاز کیا، قائد اعظم کے حکم پر اس خط کا ترجمہ اکتوبر 1947ء میں ہوا اور دسمبر 1947ء میں اس کا پہلا ایڈیشن قائد اعظم کے دستخط کے ساتھ شائع ہوا۔ یہ خط بعد میں ایوبی دور میں بھی شائع کیا گیا، بہت بعد میں ایک مرتبہ پھر اس خط کو ملک معراج خالد نے شائع کروایا۔
چند برس پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن اور ممتاز عالم دین علامہ سید افتخار حسین نقوی نے اس خط کا اردو ترجمہ کر کے اراکین پارلیمنٹ کو بھجوایا۔ یہ ترجمہ’’حکمرانی کے آفاقی اصول‘‘کے نام سے موجود ہے۔ یہ خط درحقیقت ریاست مدینہ کے دستور کی جامع تشریح ہے۔ اس خط میں نظام حکومت کو کس گہرائی میں بیان کیا گیا ہے اس سے متعلق ایک عرب عیسائی دانشور لکھتے ہیں کہ ’’اقوام متحدہ کے منشور اور انسانی حقوق کے اعلامیہ میں کوئی ایسا عنوان نہیں جس کی مثال حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دستور میں نہ پائی جاتی ہو بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دستور میں اس سے بہتر اور بالاتر چیزیں موجود ہیں‘‘۔
علامہ افتخار حسین نقوی اقوام متحدہ کے منشور اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خط کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ان دونوں کے مابین چار نمایاں فرق ہیں۔
1۔ اقوام متحدہ کے منشور کو دنیا کے ہزاروں عقلمندوں نے مرتب کیا جو بہت سے ملکوں سے اکٹھے ہوئے تھے لیکن دوسری طرف جو خط ہے وہ صرف ایک ذات نے تحریر کیا جن کا نام علی ابن طالب ہے۔
2۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اقوام متحدہ کے منشور سے چودہ سو سال پہلے تشریف لائے تھے۔
3۔ اقوام متحدہ کا منشور وضع کرنے والوں نے اپنی ستائش کے کئی راستے ڈھونڈے جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بارگاہ خداوندی میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہوئے اپنی برتری اور بزرگی تلاش نہیں کی۔
4۔ اقوام متحدہ کا منشور وضع کرنے والوں نے خود اس کی خلاف ورزی کی جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جس دستور کی تشریح کی وہ ہمیشہ اس پر قائم رہے‘‘۔ مالک اشتر کو لکھے گئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خط کی اہمیت کو اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے بھی تسلیم کیا کیونکہ اس خط میں درج ہے کہ’’تمہارے نزدیک محبوب ترین ذخیرہ نیک اعمال کا ذخیرہ ہونا چاہئے۔ رعایا کے لئے اپنے دل کے اندر رحم و رافت اور لطف و محبت کو جگہ دو، رعایا کے لئے پھاڑ کھانے والا درندہ نہ بنو کہ انہیں نگل جانے ہی میں غنیمت سمجھو۔ اس لئے کہ رعایا میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک تو تمہارے دینی بھائی اور دوسرے تمہارے جیسی مخلوق ِخدا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ساڑھے چار سالہ دور حکومت میں اس تفصیلی دستور العمل کے علاوہ اپنے عمل ،گورنروں اور دوسرے عہدیداروں کو دیئے جانے والے احکامات کے ذریعے اسلام کے نظام حکومت عدل کا ایک روشن آئینہ پیش کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ گورنروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ ’’لوگوں سے انکساری سے ملنا، ان سے نرمی سے برتاؤ کرنا، کشادہ دلی سے پیش آنا، سب کو ایک نظر سے دیکھنا تاکہ بڑے لوگ تم سے اپنی نا حق طرف داری کی امید نہ رکھیں اور چھوٹے لوگ تمہارے عدل و انصاف سے ان بڑوں کے مقابلے میں نا امید نہ ہو جائیں‘‘۔
پاکستان میں آنے والے نئے حکمراں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس خط کا مطالعہ کرے اور اس خط پر عمل کرنے کی کوشش کرے کیونکہ اس خط میں حُکمرانی کے اعلیٰ ترین اصول بیان کیے گئے ہیں۔ اس خط میں انصاف اور عدل پر بہت زور دیا گیا ہے،اس خط میں زندگی کے تمام شعبوں کیلئے بہترین راستہ بتایا گیا ہے خط کے مطابق اصل طاقت عوام ہیں خواص نہیں،لہٰذا عوام کا خیال رکھیں۔ یہ خط آنے والے حکمران کیلئے مشعل راہ ثابت ہو گا۔ بقول اقبال
خِیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
بشکریہ جنگ اردو