نومبر 23, 2024

مذہبی جماعتوں کی معدوم ہوتی سیاست

تحریر: نذیر بھٹی

کوئی زبان معاشرے میں بولی نہ جائے تو ختم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح کسی ثقافت کو اپنایا نہ جائے تو وہ بھی آہستہ آہستہ معدوم ہو جاتی ہے۔ کسی مذہب یا مسلک کو اختیار کرنیوالے نہ ہوں تو وہ بھی وقت گزرنے کیساتھ ختم ہوتا جاتا ہے۔ ہماری انہیں معاشرتی شناختوں پر نفرتیں ہوتی ہیں اور سیاسی مفادات کیلئے ان پر اشتعال پیدا بھی کیا جاتا ہے۔ پگڑی ہی کو لے لیں، ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔ ہمارے بزرگ سر پر پگڑی سجاتے تھے، مگر ہم نے چھوڑ دی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں تحریک استقلال کا بڑا طوطی بولتا تھا۔ سیاسی حلقوں میں زور شور سے لگتا تھا کہ اگلی حکومت ائر مارشل اصغر خان کی ہوگی۔ میاں نواز شریف، خورشید محمود قصوری، اعتزاز احسن اور نثار کھوڑو جیسے متعدد رہنماوں نے تحریک استقلال کے پلیٹ فارم سے ہی سیاست شروع کی۔ مگر وقت گزرنے کیساتھ تحریک استقلال کا صرف نام ہمارے دوست رحمت خان وردگ کے پاس رہ گیا ہے۔ ان کی تنظیمی اور سیاسی سرگرمیاں بہت محدود ہوچکی ہیں۔ جمعیت علماء پاکستان کا بھی ملکی سیاست میں بڑا نام رہا ہے۔ جے یو پی نے پارلیمانی سیاست شروع کی تو مولانا شاہ احمد نورانی نے واقعی اسے سیاسی جماعت بنا دیا، مگر آج اس کی سیاست بہت محدود ہوچکی ہے۔

ایک وجہ تو مقتدر حلقوں کی وقتی ضرورتوں کے باعث اس جماعت کی متعدد ٹکڑوں میں تقسیم ہے۔ تحریک جعفریہ پاکستان کو سیاسی دھارے میں لانے والے تو علامہ عارف حسین الحسینی تھے، مگر انتخابی سیاست کے عملی اقدامات علامہ ساجد علی نقوی کی قیادت میں سر انجام پائے۔ پھر وقتی ضرورتوں کے مطابق پیپلز ڈیموکریٹک الائنس اور متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر ٹی جے پی نے سیاسی کردار جاری رکھا۔ مسلم لیگ نون کے ساتھ بھی سیاسی اتحاد کیا۔ 1988ء میں اپنے پلیٹ فارم پر الیکشن میں حصہ لینے کے بعد گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں اسلامی تحریک پاکستان کے نام سے اس کا کردار بہت موثر رہا ہے۔ جنت نظیر اس خطے میں اسی جماعت نے 1996ء میں حکومت بھی تشکیل دی۔

الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود فہرست میں 175 رجسٹرڈ جماعتیں ہیں۔ مگر ہر الیکشن میں حصہ لینے والی جماعتیں تقریباً 40 سے زیادہ نہیں۔ جن میں مذہبی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ عام سیاسی جماعتوں میں وہ بھی شامل ہیں، جن کے نام رکشوں کے پیچھے لگے پوسٹرز میں نظر آتے ہیں یا کچھ ایسی ہیں، جو چند علاقوں تک محدود ہیں۔ باقی تو ایسی بھی ہیں، جن کا نام لوگ صرف عام انتخابات کے دنوں میں ہی سنتے ہیں۔ اس کے بعد پورا سال ان کی کوئی سرگرمیاں نظر نہیں آتیں۔ مذہبی جماعتوں میں سے جمعیت علماء اسلام (ف) کی سیاست اور قیادت مروجہ تقاضوں کی بہترین مثال ہے۔ اس جماعت کے ہر الیکشن میں کچھ نہ کچھ ممبران پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں۔ یعنی کہا جا سکتا ہے کہ مذہبی سیاست میں اگر کسی لیڈر نے بہترین اننگز کھیلی ہیں تو وہ مولانا فضل الرحمن ہیں۔ ان کے والد مولانا مفتی محمود وزیراعلیٰ سرحد(موجودہ خیبر پختونخواہ) رہے۔

جماعت اسلامی پاکستان کی سیاست کو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، میاں طفیل، قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور سراج الحق کی کاوشیں چار چاند لگاتی ہیں۔ اس جماعت کا کم یا زیادہ ہر حلقہ انتخاب میں آپ کو ووٹر اور امیدوار ضرور ملے گا۔ لیکن اس جماعت کے امیدوار جیتنے کی پوزیشن میں صرف اس وقت آتے ہیں، جب کسی جماعت سے اتحاد ہو۔ اس کی بہترین مثال 1988ء میں اسلامی جمہوری اتحاد اور 2002ء میں متحدہ مجلس عمل ہے۔ لیکن 2018ء میں ایم ایم اے کو بحال تو کیا گیا مگر پہلے جیسے نتائج نہ مل سکے۔ رکن جماعتوں کے درمیان پارلیمانی بورڈ کے اجلاسوں میں ہی بداعتمادی پیدا ہوگئی تھی۔ مشترکہ انتخابی مہم بھی نہ چلائی جا سکی۔ اس تلخ تجربے کے بعد جے یو آئی اور جماعت اسلامی نے اپنی انفرادیت برقرار رکھی، مگر ایم ایم اے کی دوسری جماعتیں جمعیت علمائے پاکستان، مرکزی جمعیت اہلحدیث اور اسلامی تحریک پاکستان کا انتخابی کردار محدود ہوگیا۔

تحریک ختم نبوت میں متحرک کردار ادا کرنے والی جے یو پی کو بریلوی مکتبہ فکر کی نمائندہ تحریک لبیک پاکستان نے نقصان پہنچایا۔ یہ جماعت کن حالات میں، کس نے، کس مقصد کیلئے بنائی؟ تفصیلات جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلوں میں ملتی ہیں۔ مختلف جماعتوں کے درمیان اتحاد صرف سیاسی مفادات کے تحت ہوتا ہے۔ اگر کوئی مذہبی جماعت کسی بڑی جماعت کیلئے خطرہ ہی نہیں تو وہ اس سے اتحاد یا تعاون کیلئے مذاکرات کیوں کرے گی؟ ہاں جس بڑی سیاسی جماعت کو یقین ہوگا کہ فلاں مذہبی جماعت میرے ووٹوں میں اضافہ کرسکتی ہے، یا مجھے ہرا سکتی ہے، تو وہ اتحاد کرے گی۔ ورنہ اقتدار اور سیاست بہت ظالم ہوتے ہیں۔ اس میں خیرات نہیں ملتی، جماعتی مفاد دیکھا جاتا ہے۔ اس کی بہترین مثال 1988ء میں تحریک جعفریہ پاکستان کا انتخابی نشان “تختی” پر پہلا انتخاب ہے۔ 10 سے 15 نشستوں پر تحریک جعفریہ نے پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچایا تو اگلے انتخابات 1990ء میں پیپلز پارٹی نے تحریک جعفریہ، مسلم لیگ (قاسم) اور ائر مارشل اصغر خان کی تحریک استقلال سے اتحاد کرکے پیپلز ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی اے) تشکیل دیا۔

اس طرح اگر مذہبی سیاسی جماعتیں اپنا سیاسی وجود برقرار رکھنا چاہتی ہیں تو انہیں وہی کچھ کرنا ہوگا، جو باقی سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔ حلقہ کے اعتبار سے سیاست کریں، تو آپ کا کردار نظر آئے گا۔ انتخابی سیاست سے معدوم ہوتی مذہبی جماعتوں کا المیہ مسلکی رجحان اور شناخت بھی ہے، جبکہ ملک کی اکثریت فرقہ وارانہ خیالات کی بجائے، اسلام کو اپنی شناخت، شدت پسندی کی بجائے، مسلکی اعتدال پسندی کو اپنی شناخت دیکھنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ پاکستان کی تشکیل اسلام کے نام پر ہوئی، یہاں کی اکثریت سنی مکتبہ فکر پر مشتمل اور دوسری بڑی اکثریت اہل تشیع کی ہے۔ دونوں مکاتب فکر کی نمائندہ جماعتیں سیاست میں موجود ہیں۔ مسلک اہلحدیث کی مرکزی جمعیت اہلحدیث، جمعیت اہلحدیث اور جماعت اہلحدیث، شیعہ کی دو جماعتیں اسلامی تحریک پاکستان اور مجلس وحدت مسلمین، دیوبندی مکتبہ فکر کی جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) اور جے یو آئی (سمیع الحق) کا وجود ہے۔ بریلوی مکتبہ فکر کی جمعیت علمائے پاکستان کے پیر اعجاز ہاشمی اور صاحبزادہ ابوالخیر زبیر گروپ، تحریک لبیک پاکستان، سنی اتحاد کونسل اور دیگر جماعتوں کے گروپ۔

مگر یہ حقیقت ہے کہ سیاست میں کردار صرف اسی کا ہوتا ہے، جو میدان میں رہتا ہے۔ اگر آپ میدان چھوڑ دیں گے تو لوگ آپ کو بھول جائیں گے۔ متعدد مذہبی جماعتوں کی طرح ہر الیکشن میں اگر کوئی مذہبی جماعت ہارتی بھی ہے تو تب بھی لوگ اس کے سیاسی کردار کو یاد رکھتے ہیں۔ اگر آپ کسی کی ہار اور جیت میں کردار نہیں رکھتے تو مذہبی جماعتیں سوچ لیں کہ ان کا ووٹ بینک نہیں رہے گا۔ البتہ مسلکی شناخت کیساتھ نفرت کی سیاست کبھی نہیں چل سکتی۔ اس کے لیے ہمارے پاس کئی جماعتوں کی مثالیں موجود ہیں کہ جنہوں نے گالی گلوچ تو کی، مگر سیاست نہیں کرسکیں۔ سیاست کرنیوالی مذہبی اور مسلکی جماعتوں کو اپنے ووٹ بینک میں اضافے کیلئے مروجہ طریقہ کار کے مطابق حلقہ سیاست کو معاشرتی تقاضوں کے مطابق ڈیرہ داری، دفاتر اور عوامی مسائل کے حل میں جدوجہد اور عوام کا ساتھ دینا ہوگا۔ محض الیکشن کے دنوں میں نظر آنیوالی جماعتیں عوام کو بیوقوف نہیں بنا سکتیں۔

 

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

fourteen + fourteen =