تحریر: علی سردار سراج
اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کا آسان راستہ یہ ہے کہ انسان اپنی حیثیات کا تعین کرے۔
ایک انسان جب جان لے کہ وہ اللہ تعالی کا بندہ ہے تو اس بندگی کے فرائض کو انجام دے گا۔
جب وہ جان لے کہ وہ ایک انسان ہے،کسی دین کا پیروکار ہے، کسی بچے کا باپ ہے، کسی کا بیٹا ہے، کسی کا ہمسایہ ہے،کسی ملک کا باشندہ ہے ۔۔۔
ان حیثیات کی طرف توجہ سے ہی انسان اپنے فرائض اور حقوق کو بھی سمجھ پاتا ہے۔
ہم پاکستانی ہیں لہذا آئین پاکستان کے تحت جو ذمہ داریاں ایک شہری پر عائد ہوتی ہیں وہ ایک شیعہ فرد پر بھی عائد ہیں، اور جو حقوق دوسرے شہریوں کے بنتے ہیں وہ ایک شیعہ فرد کے لئے بھی ثابت ہیں ۔
پس ہم پاکستان کے شہری ہونے کے ناطے آئیں پاکستان کے دائرے کے اندر اپنے حقوق کا تحفظ اور فرائض کو انجام دیں گے ۔
اسی طرح ہم ایک انسان ہیں تو انسانیت کے ناطے ہمارے کاندھوں پر آنے والی ذمہ داریوں سے شانے خالی نہیں کر سکتے ہیں، اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اسلامی رشتے کی وجہ سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو نبھانا پڑے گا ۔
ہماری ایک حثیت مکتب اہل بیت علیہم السلام کا پیروکار ہونا بھی ہے ۔
لہذا یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم مکتب تشیع اور پیروان مکتب کے حقوق کے تحفظ کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں ۔
پاکستان کا آئین جہاں ہر فرد کو انفرادی طور پر اپنے مذہب پر کاربند رہنے کی اجازت دیتا ہے وہاں اجتماعی طور پر بھی یہ اجازت دیتا ہے کہ ہر مذہب والے اپنے مذہب کی ترویج و تبلیغ کے لئے مثبت فعالیتوں کو انجام دے اور سیاسی و سماجی مسائل میں دخالت کرے۔
کسی بھی فرد اور معاشرے کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے اور حقوق کا تحفظ یا حصول کے لئے آگاہی اور آشنایی ضروری ہے لیکن کافی نہیں ہے ۔
بلکہ ذمہ داری کی ادائیگی اور حقوق کے تحفظ و حصول کے لیے قدرت اور طاقت کا ہونا بہت ضروری ہے ۔
فقہ کے اندر قدرت اور طاقت تکلیف کی شرائط عامہ میں سے ہے۔ یعنی شرعی احکام اس شخص پر عائد ہوتے ہیں جو بالغ و عاقل ہونے کے ساتھ ساتھ اس فعل کے انجام یا ترک پر قادر ہو۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ووٹ ایک طاقت ہے، اور اس کا درست استعمال جہاں پاکستان کی بقاء اور ترقی کا ضامن ہے وہاں مکتب تشیع کے حقوق کے تحفظ میں بھی انتہائی موثر ہے۔
جس ملک میں قانون سازی اور قانون کا نفاذ انتخابات اور الیکش کے ذریعے سے ہوتے ہوں ،وہاں پیروان مکتب اہل بیت علیہم السلام نہ اصل انتخابی عمل سے لا تعلق رہ سکتے ہیں اور نہ ووٹ کے درست استعمال سے چشم پوشی کر سکتے ہیں ۔
ووٹ کا صحیح استعمال ہمارا فرض بھی ہے اور حق بھی ہے۔
ہم اپنے ملک اور مکتب کے مسائل سے لا تعلق نہیں رہ سکتے ہیں ۔
لہذا شیعہ قائدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ووٹ کے درست استعمال کے لیے اپنے ذاتی اور حزبی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر کوئی مشترکہ لائحہ عمل دے دیں ۔