تحریر: علی سردار سراج
ایک جوش، ایک ولولہ اور ایک دینی جذبہ جس نے شمالی علاقہ جات (گلگت بلتستان )کو نہتے ہاتھوں ڈوگرہ راج سے آزاد کرایا ۔
ایک خود مختار ریاست وجود میں آئی جو ایک مہینے کے اندر پاکستان کے ساتھ شامل ہوگئی ۔
کہا جاتا ہے کہ انسان کو وہاں سے چوٹ لگتی ہے جہاں سے زیادہ مطمئن رہتا ہے ۔
گلگت بلتستان والوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوگیا ۔
انہوں نے بانیان پاکستان پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے بے مثال قربانیوں سے آزاد کرائے ہوئے اس با اہمیت خطے کو بلا قیدو شرط پاکستان کے حوالہ کیا، اور اپنے آپ کو مملکت پاکستان کے آزاد شہری سمجھ کر ریاستی مسائل سے دوری اختیار کرکے اپنی انفرادی ذمہ داریوں میں مشغول ہوگئے ۔
ان کو کیا معلوم کہ جن جذبات اور احساسات کے بل بوتے پر انہوں نے اس خطے کو آزاد کرایا تھا انہی جذبات اور احساسات کی وجہ سے یہ علاقہ دوبارہ مقبوضہ ہوا ہے اور وہ ایک غیر اعلانیہ غلامی کی زندگی میں داخل ہوگئے ہوں؟ ۔
ریاست پاکستان نے گلگت بلتستان کی زمین اور وسائل کو پاکستان کی ملکیت میں لیا جبکہ عوام کو متنازعہ کشمیر کا حصہ بنایا ۔
ایک ایسی چال جس کے تحت گلگت بلتستان کو لوٹنے کی سہولت بھی میسر ہے اور لوگوں کی ذمہ داری اٹھانے کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔ نتیجے کے طور پر باسیان گلگت بلتستان بد بختی اور مظلومیت کی ایک تنگ و تاریک کوٹھری میں دھکیلے گئے، نہ ان کو باہر کا راستہ نظر آتا ہے اور نہ باہر والے انہیں دیکھ پاتے ہیں ۔
کشمیر متنازعہ ہونے کی وجہ سے وہاں سٹیٹ سجکٹ رول بحال ہے ، جس کی وجہ سے وہاں باہر سے کوئی آکر زمین کا مالک نہیں بن سکتا ہے، جبکہ گلگت بلتستان سے اس قانون کا خاتمہ کیا گیا اور حکومت اور سرمایہ دار لوگوں نے مقامی لوگوں کی غربت کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی زمینوں پر یا قبضہ کیا یا سستے داموں خرید لیا، اور گلگت بلتستان والوں کو اقوام متحدہ کے قانون کے مطابق، متنازعہ علاقوں کے لئے متعدد اشیاء پر دی جانے والی سبسڈی کو حذف کرکے صرف کچھ مقدار گندم دے کر بخور و نمیر کی زندگی کا عادی بنایا ۔
دنیا کی واحد قوم ہے جو نہ آزاد لوگوں کی صف میں کھڑی ہے،جو اپنے فیصلے خود کرتے ہیں اور نہ مظلومین کی صف میں تاکہ ظلم سے نجات کے لئے جہد و جہد کرے اور آزادی کے حامی لوگ ان کی آواز بنیں۔
تعلیم، صحت اور رفاہ عامہ کے بارے میں تو سوال ہی بیکار ہے کیونکہ یہاں کے ارباب اختیار کو لینے سے غرض ہے دینا ان کے فرائض منصبی میں شامل ہی نہیں ہے ۔
لہذا اس علاقے پر قابض لوگ پچھتر سالوں سے اس علاقے کو لوٹنے میں ہی مصروف رہے ۔
اس علاقے سے کیا لیا اور کس چیز سے محروم رکھا؟
اس سوال کے جواب میں جو لیسٹ بنتی ہے وہ بہت طولانی ہے اس لئے سوال کو تبدیل کرکے یہ پوچھیں کہ پچھتر سالوں میں اس علاقے کو کیا دیا ؟
اس سوال کا جواب آسان اور مختصر ہے۔
وہ ہے، محرومی، غربت و افلاس اور کلچر کے نام پر کافی حد تک بے حیائی اور دائمی اختلاف کے لئے فرقہ واریت کی لعنت ۔
اب حالات بدل گئے ہیں اور لوگ بیدار ہوگئے ہیں، اس بیداری میں میں ریاست پاکستان اور وہاں پر قابض لوگوں کا بڑا کردار ہے۔
کیونکہ سونے کے لئے پیٹ میں کچھ ہونا ضروری ہے، خالی پیٹ انسان سے نیند چھین لیتا ہے۔
گلگت بلتستان پر قابض لوگوں کی حرص کی آگ نے انہیں مجبور کیا کہ وہ ان لوگوں کے منہ سے آخری نوالہ بھی چھین لیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بھوک نے لوگوں کو بیدار کیا اور بیداری کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کو پتہ چلا کہ وہ تو کب کے لٹ چکے ہیں ۔
اب ان کا مطالبہ یہ ہے کہ انہیں ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے، وہ اپنے آپ کو اور اپنے علاقے کو خود سنبھال لیں گے۔
اگر ہم کشمیر کا حصہ ہیں تو وہی کچھ دے دو جو کچھ کشمیریوں کو دیا گیا ہے ۔
اگر ہم پاکستانی ہیں تو وہی حقوق دے دیں جو ہر پاکستانی کو حاصل ہیں ۔
گلگت بلتستان کے لوگوں کی خمیر میں جہاں،ایثار، محبت، وفا اور دوستی ہے وہاں غیرت، حمیت ،شجاعت اور بہادری بھی ہے۔
قابضین سے یہ کہیں گے آپ نے ان کی محبت،دوستی اور وفا سے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے اب ان کی حمیت، غیرت اور شجاعت کو آزمانے کی غلطی نہ کرنا۔
بہتر یہی ہے کہ ان کے جائز مطالبات کو مان کر ان کی محبتوں اور وفاداریوں سے اپنے اور ملک کی فلاح و بہبود کے لئے استفادہ کرنا، ان کی شجاعت اور غیرت کی آزمائش پاکستان کے دشمنوں کو سونپ دیں۔
وہ بھی یہ حماقت نہیں کریں گے، کیونکہ وہ کئی بار انہیں آزما چکے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ لوگ سر کٹانا جانتے ہیں سرجھکانا نہیں ۔
باطل سے دبنے والے اے آسمان نہیں ہم
سو بار لے چکا ہے تو امتحان ہمارا ۔