تحریر:محمد شاهد رضا خان
ولادت باسعادت
13 رجب سن تیس عام الفیل کو رسول اکرم (ص) کے چچازاد بھائی داماد اور جانشین حضرت علی علیہ السّلام کی خانۂ کعبہ میں ولادت باسعادت ہوئی ۔ آپ کے والد ابو طالب علیہ السّلام اور ماں فاطمہ بنتِ اسد علیہا السلام کو جو خوشی ہونی چاہیے تھی وہ تو ہوئی ہی مگر سب سے زیادہ رسول الله اس بچے کو دیکھ کر خوش ہوئے ۔ شاید بچے کے خد وخال سے اسی وقت یہ اندازہ ہوتا تھا کہ یہ آئندہ چل کر رسول کاقوتِ بازواور دستِ راست ثابت ہوگا ۔ آپ کی والدۂ ماجدہ کا نام فاطمہ بنت اسد اوروالد گرامی کا نام ابوطالب تھا ۔حضرت علی (ع) نے بچپن سے ہی رسول اکرم (ص) کی آغوش میں پرورش پائي ۔سنہ 2 ھ میں دختر رسول (ص) حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کےساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔شب ہجرت بستر رسول (ص) پر سوکرنبی اکرم کی جان بچائي اور مدینے میں بھی غزوۂ تبوک کےعلاوہ رسول اکرم (ص) کی تمام غزوات میں حضرت علی (ع) شریک تھے اور ہر مرحلے میں آپ (ص) کے یار و مدد گار تھے۔حضرت علی (ع) انتہائي شجاع اور بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت نرم دل اور لطیف طبیعت کے مالک تھے ۔آپ جس طرح محاذ جنگ پردشمنوں سےمردانہ وارمقابلہ کرتے تھے اسی طرح اسلامی معاشرے میں بھی کسی ناجائز عمل کو برداشت نہیں کرتے تھے ۔آپ اسلامی حق و انصاف کےحقیقی علمبردار تھے ۔آپ اطاعت اور بندگي خدا اس طرح انجام دیتے تھے کہ عبادت کے وقت دنیا کی خبر نہیں رہتی تھی اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلالت میں اس طرح کھوجایا کرتے تھے گویا آپ زمین پرنہ ہوں بلکہ عالم ملکوت میں سیرکررہے ہوں ۔حضرت علی (ع) کے یوم ولادت کی مناسبت سے آپ کا ایک زرین قول پیش خدمت ہے ۔آپ فرماتے ہیں کہ لوگوں کے ساتھ اس طرح پیش آؤ کہ اگر مرجاؤ تو تم پرلوگ روئیں اور اگر زندہ رہو تو تمہارے ساتھ نیکی کریں
علی(ع) کے نام و نسب
نام و نسب
حضرت علی (ع) : شیعوں کے پہلے امام
اسم گرامی : علی (ع)
لقب : امیر المومنین
کنیت : ابو الحسن
والد کا نام : عمران ( ابو طالب )
والدہ کا نام : فاطمہ بنت اسد
تاریخ ولادت : ۱۳/ رجب ۳۰ ء عام الفیل
جائے ولادت : مکّہ معظمہ خدا کے گھر میں ( خانہ کعبہ کے اندر )
مدّت امامت : ۳۰ / سال
عمر مبارک : تریسٹھ (۶۳) سال
تاریخ شہادت : ۲۱/ رمضان المبارک ۴۰ھء مسجد کوفہ میں
شہاد ت کا سبب : عبد الرحمن بن ملجم کی زہر آلودہ ضربت کا اثر
روضہٴ اقدس : عراق ( نجف اشرف)
اولاد کی تعداد : ۱۸/ بیٹے ، ۱۸/ بیٹیاں
بیٹوں کے نام : (۱) امام حسن مجتبیٰ (ع) (۲) امام حسین (ع)(۳) محمد حنفیہ (۴) عباس اکبر (۵) عبد اللہ اکبر (۶) جعفر اکبر (۷) عثمان (۸) محمد اصغر (۹) عبد اللہ اصغر (۱۰) عبد اللہ مکنی بابی علی (۱۱) عون (۱۲) یحییٰ (۱۳) محمد اوسط (۱۴) عثمان اصغر (۱۵) عباس اصغر (۱۶) جعفر اصغر(۱۷) عمر اکبر (۱۸) عمر اصغر۔
بیٹیوں کے نام : (۱) زینب کبریٰ (۲) زینب صغریٰ بہ نام ام کلثوم (۳) رملة کبریٰ (۴) ام الحسن (۵) نفیسہ (۶) رقیہ صغریٰ (۷) رملةصغریٰ (۸) رقیہ کبریٰ (۹) میمونہ (۱۰) زینب صغریٰ (۱۱) ام ّ ہانی (۱۲) فاطمة صغریٰ (۱۳) امامہ (۱۴) خدیجہ صغریٰ (۱۵) امّ کلثوم (۱۶) ام ّ سلمہ (۱۷) حمامہ (۱۸) ام کرام ۔
بیویاں : ۱۲
انگوٹھی کے نگینے کا نقش: الملک للّہ الوٰحد القھّار
تربیّت
حضرت علی علیہ السّلام کی پرورش براهِ راست حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کے ذریعے ہوئی۔ آپ نے انتہائی محبت اور توجہ سے اپنا پورا وقت اس چھوٹے بھائی کی علمی اور اخلاقی تربیت میں صرف کیا۔ ذاتی جوہر اور پھر رسول جیسے بلند مربیّ کافیض تربیت، چنانچہ علی دس ہی برس کے سن میں ایسے تھے کہ پیغمبر کے دعوائے رسالت کرنے پر ان کے سب سے پہلے پیرو بلکہ ان کے دعوے کے گواہ قرار پائے ۔
زمانہ مصائب
پیغمبر کا دعوائے رسالت کرنا تھا کہ ہر ہرذرہ رسول کادشمن نظر آنے لگا ۔ وہی لوگ جو کل تک آپ کی سچائی اورامانتداری کا دم بھرتے تھے آج آپ کو ( معاذ الله) دیوانہ, جادو گر اور نہ جانے کیا کیا کہنے لگے, راستوں میں کانٹے بچھائے جاتے , پتھر مارے جاتے اور سر پر کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھا۔ اس سخت وقت میں رسول کا ہر مصیبت میں شریک صرف ایک بچّہ تھا, وہی علی جس نے بھائی کاساتہ دینے میں کبھی ہمت نہیں ہاری , برابرمحبت ووفاداری کادم بھرتے رہے , ہر ہربات میں رسول کے سینہ سپر رہے , یہاں تک کہ وہ وقت بھی آیا جب مخالف گروہ نے انتہائی سختی کے ساتہ یہ طے کرلیا کہ پیغمبر کااور ان کے تمام گھرانے والوں کا بائیکاٹ کیا جائے , حالات اتنے خراب تھے کہ جانوں کے لالے پڑ گئے تھے ۔ ابو طالب علیہ السّلام نے حضرت محمد مصطفےٰ سمیت اپنے تمام ساتھیوں کو ایک پہاڑ کے دامن میں قلعہ میں محفوظ کردیا , تین برس تک یہ قید وبند کی زندگی بسر کرنا پڑی ۔ اس میں ہر شب یہ اندیشہ تھا کہ کہیں دشمن شب خون نہ مار دے ۔ اس لئے ابو طالب علیہ السّلام نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ وہ رات بھر رسول کو ایک بستر پر نہیں رہنے دیتے تھے بلکہ جعفر(ع) کو رسول کے بستر پر اور رسول کو عقیل (ع)کے بستر پر اور پھر رسول کو جعفر(ع)کے بستر پرلٹا دیتے تھے اورپھر رسول کو علی علیہ السّلام کے بستر پر۔ مطلب یہ تھا کہ اگر دشمن رسول کے بستر کاپتہ لگا کر حملہ کرنا چاہے تو میرا کوئی بھی بیٹا قتل ہوجائے مگر رسول کا بال بیکانہ ہو۔ اس طرح علی بچپن ہی سے فدا کاری اور جان نثاری کے سبق کو عملی طور پر دہراتے رہے۔
ہجرت
اس کے بعد وہ وقت آیا کہ ابو طالب علیہ السّلام کی وفات ہوگئی جس سے اس جاں نثار چچا کی وفات سے پیغمبر کا دل ٹوٹ گیا اور آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کاارادہ کرلیا جس پر دشمنوں نے ارادہ کیا کہ ایک رات جمع ہو کر پیغمبر کے گھر کو گھیر لیں اور حضرت کو شہید کرڈالیں , حضرت کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اپنے جاں نثار بھائی علی کو بلا کر اس واقعہ کی اطلاع دی اور فرمایا کہ میری جان کی حفاظت یوں ہوسکتی ہے کہ تم آج کی رات میرے بستر پر میری چادر اوڑھ کر سو جاؤ اور میں مخفی طور پر مکہ سے روانہ ہوجاؤں ۔ کوئی دوسرا ہوتاتو یہ پیغام سنتے ہی اس کا دل دہل جاتا , مگر علی نے یہ سن کر کہ میرے ذریعہ رسول کی جان کی حفاظت ہوگی خدا کاشکر ادا کیا اور بہت خوش ہوئے کہ مجھے رسول کافدیہ قرار دیا جارہا ہے , یہی ہوا کہ رسالت مآب شب کے وقت مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے اور علی علیہ السّلام رسول کے بستر پر سوگئے , چاروں طرف خون کے پیاسے دشمن تلواریں کھینچے نیزے لئے ہوئے مکان کوگھیرے ہوئے تھے ۔ بس اس بات کی دیر تھی کہ ذرا صبح ہو او رسب کے سب گھر میں گھس کر رسالت ماب کو شہید کر ڈالیں ۔ علی علیہ السّلام اطمینان کے ساتہ بستر پرآرام کرتے رہے اور ذرا بھی اپنی جان کاخیال نہ کیا دشمنوں کو صبح کے وقت معلوم ہوا کہ محمد تو رات ہی چلے گئے تھے۔
تیرھویں رجب کی اہمیّت
ماہ رجب ، شعبان اور ماہ رمضان کی تیرھویں شب میں دو رکعت نماز مستحب ہے کہ اس کی ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ یٰسین، سورہ ملک اور سورہ توحید پڑھے چودھویں شب میں چار رکعت نماز دو دو رکعت کر کے اسیطرح پڑھے اور پندرھویں شب میں چھ رکعت نماز دو دو کرکے اسی طرح سے پڑھے امام جعفر صادق -کا ارشاد ہے کہ اس طریقے سے یہ تین نمازیں بجالانے والا ان تینوں مہینوں کی تمام فضیلتیں حاصل کرے گا اور سوائے شرک کے اس کے سبھی گناہ معاف ہو جائینگے ۔
تیرھویں رجب کا دن
یہ ایام بیض کا پہلا دن ہے اس دن اور اسکے بعد کے دو دنوں میں روزہ رکھنے کا بہت زیادہ اجر و ثواب ہے، اگر کوئی شخص عمل ام داؤد بجالانا چاہتا ہے تو اس کیلئے 13 رجب کا روزہ رکھنا ضروری ہے
وسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ