نومبر 23, 2024

عام انتخابات پر سیاسی خاندانوں کا راج ؟

تحریر: قادر خان یوسفزئی

2024 ء کے انتخابات اپنے ساتھ ایک دلچسپ سیاسی تحریک لے کر آئے ہیں جہاں ٹکٹوں کی تقسیم میں سیاسی خاندانوں کو ایک بار پھر اہمیت حاصل ہوئی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی) سمیت کئی چھوٹی بڑی جماعتیں خطے میں ایک غالب قوت کے طور پر کھڑی ہے، اور مختلف نشستوں کے لیے ایک خاندان کے متعدد افراد کو نامزد کرنے کی اس کی حکمت عملی نے مبصرین اور ووٹروں کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ ملک کی سیاست پر ایک بار پھر سیاسی خاندان چھائے ہوئے ہیں۔ عام انتخابات قریب ہیں، اور قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سیاست پر سیاسی خاندانوں کا بہت زیادہ اثر و رسوخ جاری ہے۔ سیاسی خاندانوں کا رجحان کئی حلقوں میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اس رجحان کی کئی وجوہ ہیں۔ سب سے پہلے، انہیں عام طور پر اپنی مقامی کمیونٹیز میں حمایت کی مضبوط بنیاد ہوتی ہے۔ دوسرا، ان کے پاس مالی اور لاجسٹک وسائل تک رسائی ہے جو انہیں انتخابات میں موثر طریقے سے مقابلہ کرنے کی موقع دیتے ہیں۔ تیسرا، وہ سیاست کا تجربہ رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ نظام کیسے چلتا ہے۔ سیاسی خاندانوں کا تسلط ملکی سیاست پر اہم مضمرات بھی رکھتا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ تمام سیاسی خاندان ایک جیسے نہیں ہوتے۔ کچھ خاندانوں کی عوامی خدمت اور ترقی کے عزم کی تاریخ ہے۔ تاہم دوسرے خاندان اقتدار اور ذاتی فائدے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ووٹرز کو عام انتخابات میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ روایتی سیاسی خاندانوں کی حمایت جاری رکھنا چاہتے ہیں یا نئی قیادت کو موقع دینا چاہتے ہیں۔
مختلف سیاسی جماعتوں نے ایک ہی خاندان کے متعدد افراد کو مختلف نشستوں کے لیے نامزد کرنے کی حکمت عملی اپنائی ہے، جس سے علاقائی سیاست میں خاندانی روابط کی گہری موجودگی کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس رجحان نے تنقید اور دفاع دونوں کو جنم دیا ہے اور یہ انتخابات بلاشبہ ملک کے سیاسی مستقبل کی تشکیل کریں گے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے خاندان کے متعدد افراد کی نامزدگی محض انتخابی حربہ نہیں ہے۔ یہ خطے میں سیاست اور خاندانی تعلقات کے گہرے باہمی ربط کا عکاس ہے۔ سیاسی خاندانوں کی نمایاں موجودگی نے ان لوگوں میں تنقید کو جنم دیا ہے جو یہ استدلال کرتے ہیں کہ یہ طرز عمل جمہوری مسابقت کو محدود کرتا ہے اور چند ایک کے حق میں ہے۔ تاہم، حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ خاندان نسلوں سے جمع ہونے والے تجربے اور عوامی خدمت کے لیے گہری جڑوں کے عزم کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ خاندانی تسلسل استحکام اور مقامی مسائل کی گہری سمجھ فراہم کرتا ہے۔
علاقائی سیاست میں خاندانی تعلق وراثت کے ایک سادہ سے سوال سے بالاتر ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے، یہ عوامی خدمت اور کمیونٹی کے مفادات کے دفاع کے لیے جاری وابستگی کی نمائندگی کرتا ہے۔ سیاسی خاندانوں کا استدلال ہے کہ ان کا تجربہ اور مقامی مسائل کے بارے میں گہرا علم انہیں خطے کو درپیش چیلنجوں سے موثر طریقے سے نمٹنے کے لیے تیار کرتا ہے۔ انتخابات، جو کہ سیاسی خاندانوں کے پھیلا سے نشان زد ہیں، پاکستان میں جمہوریت کی حالت پر ایک منفرد تناظر پیش کرتے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ آیا ان خاندانوں کی مسلسل موجودگی نمائندہ جمہوریت کے جوہر کو مضبوط کرتی ہے یا کمزور؟ کیا ہم ایک شناسا سیاسی اشرافیہ کے استحکام کو دیکھ رہے ہیں، یا یہ سیاست میں شامل جانی پہچانی شخصیات پر ووٹرز کے اعتماد کا محض ایک فطری مظہر ہے؟۔ ان سیاسی خاندانوں کی جیت یا شکست پاکستان میں جمہوریت کے بارے میں عوامی تاثر کو متاثر کرے گی۔ کیا اسے نمائندگی کی حقیقی مشق کے طور پر دیکھا جائے گا، یا چند لوگوں کے ہاتھوں میں طاقت کے ارتکاز کے طور پر؟ ان سوالات کے جوابات خطے میں مستقبل کی سیاست کا تعین کریں گے۔ عام انتخابات قریب ہیں، سیاست میں سیاسی خاندانوں کے غلبے کی طرف یہ رجحان نیا نہیں ہے۔ درحقیقت یہ کئی دہائیوں سے سیاست کی مستقل خصوصیت رہی ہے۔ سب سے پہلے، یہ صوبے کی سیاست میں نئی قیادت اور نقطہ نظر کو متعارف کرانا مشکل بنا سکتا ہے۔ دوم، یہ بدعنوانی اور اقربا پروری کا باعث بن سکتا ہے۔ تیسرا یہ کہ ترقیاتی مسائل کو حل کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ تمام سیاسی خاندان ایک جیسے نہیں ہوتے۔
پاکستان، ہندوستان، فلپائن اور میکسیکو سمیت دنیا کے کئی حصوں میں سیاسی خاندان سیاست کی ایک مشترکہ خصوصیت ہیں۔ بعض صورتوں میں، سیاسی خاندان جمہوریت میں ایک مثبت قوت ثابت ہوسکتے ہیں، جو تجربہ کار اور مستحکم قیادت فراہم کرتے ہیں۔ دوسرے معاملات میں، سیاسی خاندان بدعنوانی اور اقربا پروری کو دوام بخشنے والی منفی قوت ہو سکتے ہیں۔ سیاسی خاندان کئی دہائیوں سے صوبائی سیاست میں ایک بڑا عنصر رہے ہیں۔ سندھ میں حکمران جماعت پی پی پی 1967ء میں اپنے قیام کے بعد سے ہی بھٹو خاندان کے زیر تسلط رہی ہے۔ سندھ کی دیگر سیاسی جماعتیں، جیسے کہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی، میں بھی سیاسی خاندانوں کی مضبوط موجودگی ہے۔ سیاسی خاندانوں کے ناقدین کا استدلال ہے کہ سیاست پر ان کا غلبہ ذات پات کا نظام بناتا ہے جو نئے آنے والوں کو خارج کر دیتا ہے اور ترقی کے مسائل کو حل کرنا مشکل بنا دیتا ہے۔ وہ یہ بھی برقرار رکھتے ہیں کہ سیاسی خاندان عوامی خدمت کے بجائے اقتدار اور ذاتی فائدے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ سیاسی خاندانوں کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان کی عوامی خدمت کی تاریخ ہے اور ان کا تجربہ ملک کی ترقی کے لیے انمول ہے۔ وہ یہ بھی برقرار رکھتے ہیں کہ سیاسی خاندانوں کے پاس حمایت کی ٹھوس بنیاد ہوتی ہے جو انہیں اپنی برادریوں کے مفادات کی بہتر نمائندگی کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
عام انتخابات کے بعد سیاسی خاندانوں کا کیا ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ سیاسی خاندانوں کے مستقبل کا انحصار ووٹرز پر ہوگا۔ اگر ووٹر سیاست میں تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں ایسے امیدواروں کو ووٹ دینا ہوں گے جن کا سیاسی خاندانوں سے تعلق نہ ہو۔ 2024ء کے انتخابات سیاست اور خاندانی رشتوں کے درمیان چوراہے کی ایک دلچسپ جھلک پیش کرتے ہیں۔ جب کہ کچھ خاندانوں کے پھیلائو پر تنقید کرتے ہیں، ان انتخابات کے نتائج نہ صرف وفاقی حکومت کی تشکیل کا تعین کریں گے بلکہ پاکستانی جمہوریت میں سیاسی خاندانوں کے مستقل کردار پر بھی روشنی ڈالیں گے۔ بالآخر، یہ مسلسل بدلتے ہوئے سیاسی ماحول میں جمہوری نظام کی لچک اور موافقت کا امتحان ہوگا۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

4 × 2 =