تحریر: عمر فاروق
سعودی اس وقت تبدیلیوں کی زدمیں ہے سیاسی ،سماجی ،ثقافتی ،معاشرتی اورمعاشی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ مذہبی اقدارسب سے زیادہ محمدبن سلمان کے نشانے پرہیں،معتدل مذہبی بیانیے کوفروغ اوررواداری کی آڑمیں یہ سب اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔اس مہم میں مقدس مقامات اور شعائر اسلام کابھی تقدس پامال کیا جارہا ہے۔گزشتہ کچھ عرصے سے یہ بات دیکھنے میں آرہی ہے کہ غیرمسلم حرمین شریفین میں خصوصامدینہ منورہ اور مسجد نبوی میں بے تکلف گھوم پھر رہے ہیں، وی لاگ بنارہے ہیں، کچھ غیر مسلم عورتیں تو غیر مناسب لباس میں آزادانہ گھومتی نظر آتی ہیں،اب تونئے سعودی قانون کے مطابق غیرشادی شدہ غیر ملکی جوڑے مکمل آزادی کے ساتھ ہوٹل میں کمرے حاصل کررہے ہیں جبکہ سعودی خواتین کوبھی ہوٹلوں میں کمرے حاصل کرنے کی آزادی دے دی گئی ہے ۔اس کے علاوہ اب گلیوں میں مطوع نامی مذہبی پولیس نظر نہیں آتی جن کا مشن ‘برائی کو روکنا اور نیکی کو فروغ دینا’ تھا ۔
سعودی ہر سال 70 ارب ریال باہر کے ملکوں میں چھٹیاں منا کر خرچ کرتے تھے۔ان کی عیاشی کے لیے سعودی عرب میں ہی دبئی یا لندن کی طرح سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں،کیوں کہ سعودی عرب اپنے آپ کو دنیا کے لیے ترقی پسند ثابت کرنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی آمدن جو زیارت مقدسہ سے حاصل ہوتی ہے اور تیل کی مصنوعات پر انحصار کم کرکے دیگر ذرائع آمدن پیدا کرنا چاہتا ہے،اس کے لیے اس نے کئی سال پہلے ویژن 2030 دیا۔اب یہ ویژن آگے بڑھایاجارہا ہے۔ اس ویژن میں بڑی آمدن کا ذریعہ سیاحت اور اسباب تعیش کو ترجیح بنایا گیا ہے۔ اسی وژن کے تحت سینما، جوا خانے، شراب شباب، موسیقی کے کنسرٹس، کھیلوں کا انعقاد وغیرہ کو خوب فروغ دیا جا رہا ہے۔حضوراکرم نے جن خرافات کے خاتمے کے لئے اپنی حیات مبارکہ میں جدوجہد کی، اِسی دیس میں پھر سے انکا احیا کیا جارہا ہے۔
سعودی ولی عہدبڑی طاقتوں کی خوشنودی کے لئے اس حد تک جائیں گے یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا،سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی تاریخ اتنی بانجھ ہے کہ اس پر کسی ثقافتی کلچر کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی،سعودی حکام سماج سے قدامت پسندی کے خاتمہ کے آرزو مند ہیں تو انھیں اسلامی کلچر، روایات سے وہ سنہری ادوار دنیا کے سامنے رکھنے چاہئیں تھے جن پر عمل پیرا ہو کر پورا عالم امن کا گہوارہ قرار پایا تھا،یہ ساری تاریخ انکے ارد گرد بکھری پڑی ہے، وہ مسلم حکمران تاریخ میں آج بھی زندہ ہیں جنہوں نے اس وقت کی سپر پاورز کوشکست فاش دی اپنی تہذیب کو متعارف کرایااور ایسا عادلانہ نظام دیا جس کو بہت سے ممالک نے اپنایا لیکن اپنی معیشت کی مضبوطی کے لئے بے ہودہ کلچر کے فروغ کا سہارا نہیں لیا تھا۔مگر
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
یہ اسی وژن کاکمال ہے کہ سعودی حکومت نے مدینہ منورہ میں داخلی راستوں پر’غیر مسلموں’ اور مسلمانوں کے لیے مختص راستوں پر مسافروں کی رہ نمائی کے لیے لگائے گئے بورڈز پر اصطلاحات تبدیل کردیں۔ زائرین کی رہ نمائی کے لیے لگائے گئے گائیڈ بورڈز پر ‘غیر مسلم’ کی جگہ ‘حدود حرم’ کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے۔غیرمسلم کالفظ سعودی حکومت کی روشن خیالی پر بھاری پڑھ رہاتھا ۔
خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں
تازہ واردارت یہ ہے کہ مشرکین کے لیے بھی مدینہ منورہ کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں،تقریبادو سال قبل ایک یہودی کومکہ مکرمہ اوردیگرمقدس مقامات پرداخل کیاگیاتھا ۔اب انڈین وزیر سمرتی ایرانی نے اپنے بقول مدینہ کا تاریخی سفر کیا اور وہ مسجدِ نبوی، جبلِ احد اور مسلمانوں کی پہلی عبادت گاہ مسجدِ قبا گئیں۔انڈین ذرائع ابلاغ کاکہنا ہے کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ مدینہ میں کسی غیر مسلم وفد کا استقبال کیا گیا ہو۔ان کے ساتھ انڈیا کے جونیئر وزیرِ خارجہ وی مرلی دھرن اور ایک وفد بھی اس دورے میں شامل تھا۔ انڈین وفد نے جدہ میں اترنے کے بعد مدینہ کاسفرکیا۔اگرچہ سعودی حکام اس دورے کوحج انتظامات سے تعبیرکررہے ہیں مگرسوال یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی انڈین مسلمان حج وعمرہ کرتے رہے ہیں لیکن ان کے ہندووزاراء کبھی مقدس مقامات میں داخل نہیں ہوئے ؟افسوس سے یہ کہناپڑرہاہے کہ یہودہنود کو اگرمقدس مقامات پر آنے کی بار باراسی طرح اجازت ملتی رہی تو یہ ان کے لئے سیر و تفریح کے مقامات بن جائیں گے شایدسعودی حکومت کامنصوبہ بھی یہی ہے کہ ان مقدس مقامات کوسیروتفریح کاہی مرکزبنادیاجائے ۔
جولائی 2022میں بھی یہ پہلی بارہواتھا کہ کہ ایک یہودی صحافی گل تماری جس کاتعلق اسرائیل سے تھا وہ مکہ میں داخل ہوا ۔ اسرائیلی چینل 13 نیوز نے اس صحافی کی 10 منٹ کی رپورٹ نشر کی تھی جس میں انھیں مسجد الحرام کے سامنے سے گزرتے اور جبلِ رحمت پر چڑھتے دکھایا گیا تھا۔پھراس نے عرفات کابھی دورہ کیاتھا ۔
محمدبن سلمان کی روشن خیالی کایہ نتیجہ ہے کہ سر زمین مقدس پر سینما کھولنے، کنسرٹ، رقص و سرود کی محفلیں سجانے اورشعائراسلامی کامذاق اڑانے کی وجہ سے سعودی عرب میں طلاق کارجحان بڑھ گیاہے سعودی عرب میں ہر 10 منٹ سے پہلے پہلے ایک طلاق واقع ہورہی ہے۔ سعودی عرب کے اخبار عکاظ کی دوماہ قبل پہلے کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق مملکت کے محکمہ شماریات کی جانب سے جاری اعداد و شمار سے معلوم ہوا ہے کہ ملک میں یومیہ 168 طلاقیں ہورہی ہیں۔ سال 2022 کے آخری چند مہینوں میں 57 ہزار سے زائد طلاقیں ہوئیں۔حکومتی ادارے کے مطابق سعودیہ میں سال 2022 میں پچھلے سالوں کے مقابلے طلاقوں کی شرح میں نمایاں اضافہ ریکارڈ ہوا۔ اعداد و شمار کے مطابق 2022 میں سال 2019 کے مقابلے طلاقوں کی شرح 19 فیصد بڑھ گئی ہے ۔حکومتی ادارے کے مطابق گزشتہ چند سال سے وہاں طلاقوں کی شرح میں نمایاں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
ایک طرف یہ سب کچھ ہورہاہے تو دوسری طرف سعودی عرب تیزی سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی طرف بڑھ رہاہے سات اکتوبرکوحماس اوراسرائیل کی جنگ نہ چھڑتی تویہ بیل منڈھے چڑھ چکی ہوتی ۔غزہ پراسرائیلی بربریت کے باوجود سعودی عرب اس مشن سے پیچھے نہیں ہٹاہے یہی وجہ ہے کہ چنددن قبل برطانیہ میں سعودی عرب کے سفیر شہزادہ خالد بن بندر نے کہا ہے کہ ان کا ملک غزہ کی جنگ کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکھتاہے تاہم اس ضمن میں کسی بھی ممکنہ معاہدے کے نتیجے میں فلسطینی ریاست کی تشکیل ہونی چاہیے۔شہزادہ خالد بن بندر نے بی بی سی کو بتایا کہ سعودی عرب نے امریکہ کی ثالثی میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات نارمل کرنے سے متعلق مذاکرتی عمل اسرائیل پر حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے بعد معطل کر دیا تھا۔گزشتہ سال ستمبر کے اواخر میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایک امریکی ٹیلی ویژن انٹرویو میں اعلان کیا تھا کہ ہر روز ہم (سعودی عرب) اس معاہدے کے قریب تر ہو رہے ہیں۔
یہ محمدبن سلمان کی پالیسیوں کاہی کانتیجہ ہے کہ سعودی عرب کے زیراثرعالم اسلام کے جتنے فورم تھے انہیں غیرمئوثرکردیاگیاہے ۔اوآئی سی ،رابطہ عالم اسلامی سمیت ایسی تمام تنظیمیں غیرفعال ہوچکی ہیں فلسطین کے حالیہ قضیے میں جس طرح سے اوآئی سی نے امت مسلمہ کومایوس کیاہے اس کاسہراہ بھی ولی عہدکے سرجاتاہے۔اگریہ فورم اورپلیٹ فارم فعال ہوتے توسعودی حکومت کی اسرائیل کی طرف پیش قدمی میں ضروررکاوٹ بنتے اورعالم اسلام کے احساسات وجذبات کی ترجمانی کرتے ۔
، امت کے مذہبی طبقات، سیاست دانوں، دانشوروں، میڈیا کی مذکورہ خرافات پر معنی خیز خاموشی ان اقدامات کی تقویت اور ترویج کا باعث بن رہی ہے ۔حالات کی نزاکت کودیکھتے ہوئے مسلمانوں کو پوری قوت سے ہرفورم پر آواز حق بلند کرنا چاہئے اور آل سعود سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ تمھیں یہودوہنود کی بیعت وآغوش میں جانا ہی مطلوب ہے تو شوق سے جائیے ۔یہودی چھتر چھایہ میں سکونت پذیر ہو جائیے، مگرحرمین شریفین سے دست بردار ہوکر جا ئواور خداکے واسطے حرمین شریفین کی حرمت یوں سربازار یہوداں نیلام نہ کرو، آخر عالم اسلام وعرب تمھارے پاپوں کی گٹھڑی کب تک ڈھوتے رہیںگے؟