تحریر:علی سردار سراج
امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان مبارک ہے۔: لَا تَغْتَرُّوا بِصَلَاتِهِمْ وَ لَا بِصِيَامِهِمْ فَإِنَّ الرَّجُلَ رُبَّمَا لَهِجَ بِالصَّلَاةِ وَ الصَّوْمِ حَتَّى لَوْ تَرَكَهُ اسْتَوْحَشَ وَ لَكِنِ اخْتَبِرُوهُمْ عِنْدَ صِدْقِ الْحَدِيثِ وَ أَدَاءِ الْأَمَانَةِ.
لوگوں کی نماز و روزہ سے دھوکہ نہ کھاؤ، کیوں کہ انسان نماز و روزہ کا بعض اوقات ایسا حریص ہو جاتا ہے کہ اس کے ترک سے اسے وحشت ہوتی ہے بلکہ اسےگفتگو کی صداقت اور ادائے امانت سے آزماؤ ۔
امام معصوم کے فرمان کے مطابق کسی انسان کو آزمانے کا ترازو اور میزان صداقت اور امانت داری ہے ۔
شیخ صاحب کی امانت داری زبان زد خاص و عام تھی۔ ایک دو واقعات جن کو میں نے دیکھا ہے امانت کے طور پر دوسروں کو منتقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں امید ہے موجب مرضی الہی اور ہدایت جویندگان راہ حق و حقیقت ہو جائے ۔
شیخ صاحب حقیقت میں ایک پدر مہربان کی طرح یہی چاہتے تھے کہ طلاب بغیر کسی پریشانی کے اپنی پوری توجہ، صرف درس و بحث پر مرکوز رکھیں، لہذا کبھی بھی مالی مشکلات کا ذکر نہیں کرتے تھے ۔
لیکن ایک دن درس اخلاق کے بعد فرمایا: دعا کریں کہ آج کل ہمارے ہاتھ تنگ ہیں، کچن کے اخراجات کے لئے پیسوں کی کمی ہے:
یہ بات بہت ہی ناراحت کنندہ تھی،کیونکہ شیخ صاحب کی سیرت کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں تھا کہ وہ اس حوالے سے کافی مشکل میں ہیں، ورنہ وہ کبھی بھی اس طرح گفتگو نہیں کرتے تھے ۔
بہرحال انہی دنوں راقم الحروف کو کسی کام سے شیخ صاحب کے مخصوص کمرے میں جانے کا اتفاق ہوا،جب شیخ صاحب نے اپنے سامنے کے ایک دراز کو کھولا تو اس میں موجود پیسوں کی بھاری مقدار پر میری نظر پڑی، خوشی ہوئی کہ شاید پیسوں کا مسئلہ حل ہوگیا ہے ۔
میں نے شیخ صاحب سے پوچھا: شیخ صاحب پیسے آگئے؟
تو انہوں نے فرمایا: نہیں۔
پھر خود ہی وضاحت کی کہ یہ دوسرے مصاریف کے لئے دیئے گئے پیسے ہیں، جو میں کچن کے لئے خرچ نہیں کر سکتا ۔
اس بات سے مجھ کافی حیرت ہوئی کہ کس قدر یہ شخص امانت کا خیال رکھتے ہیں۔
شیخ صاحب کے حوالے سے اس طرح کے کافی واقعات میں نے مدرسے کے استاد آقای حکیمی سے بھی سنے ہیں، جن کی حقانیت پر مجھ پورا یقین ہے، پھر بھی ان کے ذکر سے گریز کرتے ہوئے ایک اور آنکھوں دیکھا ہوا واقعہ قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔
مدرسے میں طلاب کی بھی ایک کمیٹی ہوتی تھی،اور مدرسے کے کچھ امور میں یہ کمیٹی مدد کرتی تھی ۔ جس وقت اس کی مسئولیت میرے پاس تھی ،ان دنوں شیخ صاحب حج پر گئے تھے ۔
شیخ صاحب کی حج سے واپسی کے ایک دو دن بعد، رات کے ٹائم شیخ صاحب کے ملازم نے مجھ سے کہا کہ شیخ صاحب آپ کو بلا رہے ہیں ۔
میں حکم کی تعمیل کرتے ہوئے فورا شیخ صاحب کے کمرے میں داخل ہوا تو شیخ صاحب کے تیور کو دیکھتے ہی اندازہ ہوا کہ مدرسے میں شاید کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا ہے۔
شیخ صاحب نے مجھے دیکھتے ہی اپنے مخصوص انداز میں کہا :آ جاو، آ جاو، سنا ہے تم نے بھی مدرسے کا کچھ پیسہ خرچ کیا ہے، کچھ حساب بھی ہے یا ایسے ہی خرچ کیا ہے؟
مجھ اطمینان ہوگیا کہ کوئی خاص پریشانی کی بات نہیں ہے ۔
میں نے کہا جی ہاں شیخ صاحب میرے پاس حساب ہے۔ پھر جب میں نے دفتر کھول کر سارا حساب دکھایا تو سامنے بیٹھے دو مسولین سے مخاطب ہو کر فرمایا: اگر تمہیں سمجھ نہیں آتا تو اس سے پوچھ لیتے۔
پتہ چلا کہ انہوں نے کہیں پر ثبت و ضبط کیے بغیر مدرسے کے پیسوں کو مدرسے کے امور پر خرچ کیا تھا، مجھ ان کی صداقت اور امانت داری پر ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے، یقینا شیخ صاحب کو بھی یہ شک نہیں تھا کہ انہوں نے کچھ گڑبڑ کیا ہو ،لیکن پھر بھی شیخ صاحب نے انتہائی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: مجھے پورا حساب دو جہاں تمہارے پاس حساب نہیں ہوگا اس کو میں تمہاری تنخواہ سے کاٹ دوں گا ۔
شیخ صاحب، کاردانی اور امانت داری میں یوسف صدیق کے اس قول کا مصداق تھے: اِنِّیۡ حَفِیۡظٌ عَلِیۡمٌ:
شیخ صاحب کی عملی سیرت کے کئی پہلوؤں کے علاوہ ان کی بہت ساری باتیں میرے سینے میں محفوظ ہیں، اگر اللہ تعالی کی توفیق شامل حال رہی تو کسی اور موقعے پر ان کو تحریری شکل میں پیش کریں گے ۔
شیخ صاحب اپنے چاہنے والوں کو داغ مفارقت دے گئے، اور یہ ایک ناگزیر مرحلہ ہے جس سے فرار ممکن بھی نہیں ہے، ان کی موت سے پیدا ہونے والا خلا تو باقی رہے گا، جیسا کہ روایت میں ہے۔
لیکن اللہ تعالی سے یہ امید رکھتے ہیں کہ جب اس آیت تکوینی کو ہم سے لیا ہے تو اس ملت پر اپنے لطف و کرم کرتے ہوئے ان کی جیسی یا ان سے بھی بہتر کوئی شخصیت عطا فرمائے جو شیخ صاحب کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے ملت کے نا دار اور پسے ہوئے طبقے کی داد رسی کرے ۔
شیخ صاحب کے چرچے چار سو سنائی دیتے ہیں، امید ہے کہ، امام جعفر صادق علیہ السلام کی اس حدیث
“من تعلم لله و عمل لله و علّم لله دعي في ملكوت السماوات عظيما.”کے مصادیق میں سے ہونے کے ناطے، ان کی عظمتوں کے چرچے زمین سے زیادہ آسمانوں میں ہونگے۔
جزاه الله عن الإسلام و أهله خير الجزاء وحشره مع أوليائه .
روحشان شاد و یادشان گرامی.