تحریر: قادر خان یوسفزئی
پاکستان کے سیاسی منظر نامے کو اکثر بیانیے کے طوفان کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، جس میں ہر پارٹی اپنی اپنی منفرد حقیقت کو گھما کر غلبہ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ تاہم، کسی بھی جماعت نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کی طرح بیانیہ سازی کے فن میں مہارت حاصل نہیں کی۔ پی ٹی آئی کا ہر نیا بیانیہ شکایت اور پاپولزم کا ایک طاقتور کاک ٹیل ہے مختلف بیانیہ کی داستان مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتی رہی ہے۔ جب انتخابات میں دھچکے یا قانونی چیلنجوں کا سامنا ہوا، تو پی ٹی آئی آسانی سے انہیں ’’ اسٹیبلشمنٹ‘‘ کی طرف سے دھاندلی یا ہیرا پھیری سے منسوب کر دیتی ہے۔ پارٹی کی پالیسیوں یا اقدامات پر تنقید کو، مخالفوں کی طرف سے عائد الزامات کو مسترد سوشل میڈیا کے شور غوغا کے ذریعے کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ قدرتی آفات یا معاشی بدحالی کو بھی پی ٹی آئی، اپنے سیاسی مخالف کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لئے نیا بیانیہ اختراع کر لیتی ہے۔
بیانیہ کی مقبولیت جہاں سوشل میڈیا اہم کردار ادا کر رہا ہے بالخصوص ڈیجیٹل میڈیا میں مخصوص متنازع افراد کا غیر دانش مندانہ اقدام ملکی سیاسی عدم استحکام اور عام انتخابات کو قیاس آرائیوں کے دلدل کی ایک کوشش بھی قرار دی جا رہی ہے، وہیں یہ تاثر بھی زور پکڑ رہا ہے کہ پی ٹی آئی اگر عام انتخابات میں بغیر کسی سہولت کار اور پشت پناہی کے بغیر حصہ لیتی ہے تو عام انتخابات میں ایک ایسا ماحول بنا دیا جائے کہ ووٹر کی تعداد کم ہو اور کسی جماعت کو یقینی مینڈیٹ حاصل نہ ہو سکے اور ایک ایسی حکومت کا قیام عمل میں آئے جو اپنی مرضی کے مطابق فیصلے بھی نہ کر سکے اور جس کے نتیجے میں ملک مزید عدم سیاسی استحکام کا شکار ہوجائے اور افراتفری پیدا ہو اور اس کا نتیجہ یہ نکلے کہ غیر سیاسی قوت عنان اقتدار پر غالب ہو سکے۔ بیانیہ کی تاثیر کی وجوہ میں شخصی جذباتی کشش پنہاں ہے۔ خود کو مسلسل مظلوم کے طور پر پیش کرتے ہوئے، پی ٹی آئی اپنے حامیوں میں ہمدردی اور یکجہتی کے جذبات کو ابھار رہی ہے۔ یہ جذباتی عمل انہیں پی ٹی آئی کے بیانیے کا سختی سے دفاع کراتا ہے، اور کسی بھی جوابی دلائل کو جانبدارانہ یا عظیم سازش کا حصہ قرار دے کر آسانی سے مسترد کر دیتا ہے۔
تاہم، مظلومیت کا بیانیہ ایک منقسم سیاسی ماحول کا سبب بن رہا ہے، جہاں بیانیہ کی بالا دستی کی جنگ میں مکالمہ اور سمجھوتہ ملک و قوم کے لئے بہتر نہیں۔ یہ تنقیدی سوچ اور جوابدہی کی راہ میں بھی رکاوٹ ہے، کیونکہ حامیوں کا پارٹی کے اقدامات یا پالیسیوں پر سوال اٹھانے کا امکان کم ہو جاتا ہے کیونکہ انہیں خود کو مظلوم قرار ہونے پر اٹل یقین ہونے لگتا ہے۔ مزید برآں، مظلومیت کے بیانیہ کی تشہیر سے ریاست پاکستان کو درپیش حقیقی چیلنجوں سے نمٹنے سے توجہ ہٹا سکتی ہے۔ ہر مسئلے کو بیرونی قوتوں سے منسوب کر کے، پی ٹی آئی حل تلاش کرنے میں اپنی ذمہ داری سے گریز کرتی آئی ہے۔ اس سے عوام میں بے حسی اور مایوسی کا احساس پیدا ہورہاہے، جو یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ پارٹی کے مظلومیت کے بیانیے سے ان کے خدشات پر پردہ پڑ رہا ہے۔ پی ٹی آئی کا بیانیہ رولیٹی، جبکہ مختصر مدت میں سیاسی طور پر فائدہ مند تو ہو سکتا ہے، لیکن ایسے متنازع بیانیے پاکستان کے طویل مدتی استحکام اور ترقی کے لیے ایک اہم خطرہ ہے۔ یہ تقسیم کو فروغ دیتا ہے، تنقیدی سوچ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، اور اہم مسائل سے توجہ ہٹاتے ہیں۔ آگے بڑھنے کے لیے، پاکستان کو ایک ایسے سیاسی مکالمے کی ضرورت ہے جو مظلومیت کے چکر سے بالاتر ہو اور تعمیری بات چیت اور مشترکہ ذمہ داری کو قبول کرے۔ تب ہی ملک حقیقی معنوں میں اپنے چیلنجوں سے نمٹ سکتا ہے اور اپنے تمام شہریوں کے لیے روشن مستقبل بنا سکتا ہے۔
پاکستانی سیاست کے دائرے میں، پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) نے مسلسل بیانیہ تخلیق ( یو ٹرن) کی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے، اکثر سوشل میڈیا کی طاقت کو عوامی تاثرات کو تشکیل دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ’’35پنکچروں ‘‘ کے جھوٹے دعوے کے ابتدائی دنوں سے لے کر حالیہ مظلومیت کی داستان تک، پی ٹی آئی کی بدلتی ہوئی کہانیاں اس کی یو ٹرن کی سیاسی حکمت عملی کی ایک واضح خصوصیت بن گئی ہیں۔ تاہم، بیانیہ تخلیق کے لیے پارٹی کا رجحان اس کی بنیاد اور بیان بازی کے بجائے کارکردگی کی بنیاد پر اپنے آپ کو ایک مقبول انتخاب کے طور پر قائم کرنے کی صلاحیت کے بارے میں سوالات اٹھاتا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی پی ٹی آئی کے حالیہ الزامات کو مسترد کرنے نے پارٹی کی مظلومیت کے بیانیہ کی حکمت عملی کو آشکار کیا ہے۔ توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن کے جواب نے نہ صرف پی ٹی آئی کے ناہموار میدان کے دعووں کو مسترد کر دیا بلکہ الیکشن کمیشن نے اعلیٰ عدالت سے جرمانہ عائد کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرنے کی بھی استدعا کی۔ یہ فیصلہ پی ٹی آئی کو درپیش چیلنجز میں اضافہ کرتا ہے، خاص طور پر اس کے انتخابی نشان کی معطلی کے دیگر اسباب کو چھپانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے الیکشن کمیشن کی جانب سے کاغذات نامزدگی کے حوالے سے فراہم کردہ اعداد شمار کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پی ٹی آئی کے ٹارگٹ ہونے کے بیانیے میں کوئی خاطر خواہ بنیاد نہیں ہے۔ اگرچہ کاغذات نامزدگی کی ایک قابل ذکر تعداد کو قبول کیا گیا تھا، لیکن کچھ کا مسترد ہونا انتخابی عمل میں کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کا خود کو واحد مظلوم کے طور پر پیش کرنا اس حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی کاغذات نامزدگی کے مسترد ہونے کا سامنا کرنا پڑا، اور معمولی وجوہات کی بناء پر مسترد شدہ کاغذات کی بحالی کے لیے الیکشن ٹربیونل کے ذریعے قانونی چارہ جوئی ہوئی۔ پی ٹی آئی کی تاریخ میں بدلتے بیانیے کی ایک سیریز ہے جو آئے اور چلے گئے، ہر ایک بظاہر آخری بیانیہ سمجھا جاتا ہے لیکن کچھ وقت بعد بیانیہ بدل جاتا ہے اور پرانا بیانیہ دھول کی طرح بکھر جاتا ہے۔ دوسری جماعتوں کے خلاف کرپشن کے الزامات سے لے کر بین الاقوامی سازشوں کا شکار ہونے کے دعووں تک، پی ٹی آئی کے بیانیے میں مستقل مزاجی اور بعض اوقات حقائق پر مبنی بنیادوں کا فقدان رہا ہے۔