تحریر: علی سردار سراج
در امیر المومنین علیہ السلام پر جبین فرسائی کے نتیجے میں وہ ذرہ سے آفتاب بنے تھے ۔
به ذره گر نظر لطف بو تراب کند.
به آسمان ببرد کار آفتاب کند.
اب ان کا کام نور افشانی کرنا تھا، جس کے لئے ملک عزیز پاکستان کے صدر مقام اسلام آباد کا انتخاب کیا ۔ یہ انتخاب خود ان کی سوچ کی وسعت اور آئندہ کے بلند اہداف و مقاصد کی طرف توجہ کی دلیل ہے، چنانچہ انہوں نے چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان میں علم کی شمعیں روشن کی، اور دینی، ثقافتی، تعلیمی اور فلاحی اداروں کا ایک جال بچھایا۔
اللہ تعالی کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنے اولیاء پر مشکلات اور مصائب ڈال کر امتوں اور قوموں سے مشکلات اور مصائب کو برطرف کرنے کا سامان فراہم کرتا ہے۔
مصر کے طبقاتی نظام میں پسے ہوئے لوگوں کو نجات دینے کے لئے یوسف صدق کے لئے ضروری تھا کہ وہ چاہ اور زندان کی صعبتوں سے گزریں ۔
امت محمدیہ کو شجرہ ملعونہ کے فتنے سے نجات دینے کے لئے امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اہل بیت کی بے مثال قربانیاں ناگزیر تھیں ۔
اللہ تعالی نے شیخ صاحب کو بھی اس سنت سے گزارتے ہوئے اس مقام تک پہنچایا تھا ۔ چنانچہ اسلام آباد میں کام کے آغاز کے لئے بھی بظاہر کوئی خاص زمینہ نہیں تھا ۔ لیکن انہوں نے اس زمین غیر ذی زرع میں ابراہیم خلیل کی سنت پر عمل کرتے ہوئے مثل بیت اللہ کے قیام کا عزم کیا۔ ( یاد رہے جامعہ اہل بیت کو مرحوم آیت اللہ آصف محسنی نے خانہ کعبہ سے تشبیہ دی ہے)
جامعہ اہل بیت کی موجودہ شاندار عمارت جہاں طلاب درس و بحث میں مشغول رہتے ہیں، کی طرف اشارہ کرکے شیخ صاحب اکثر فرمایا کرتے تھے : جس جگہ تم لوگ بیٹھے ہوئے ہو یہاں کبھی فقط ایک چھپر ہوا کرتا تھا،اور ساتھ یہ اضافہ بھی کرتے تھے کہ انسان کے لیے جلد چیزیں عادی ہو جاتی ہیں،لہذا جلد ہی ان کی لذت بھی ختم ہو جاتی ہے، اُس چھپر میں اور اِس شاندار عمارت میں لذت کے حساب سے کوئی خاص فرق نہیں ہے ۔
یہ ان کی بصیرت اور دنیا کی حقیقت کی درست شناخت کی علامت تھی کہ وہ نہ فقط ان شاندار عمارتوں کے اسیر نہیں ہوئے تھے بلکہ ان کو اسی چھپر کی طرح دیکھتے تھے جس کو اپنے عزم اور خلوص کی وجہ سے آباد و شاداب کیا تھا ۔
شیخ صاحب کا چہرہ ان کی شخصیت اور وقار کا آئینہ تھا وہ طلاب کے لئے انتہائی شفیق ہونے کے باوجود ان کی ابہت اور عظمت اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ طلاب ان کے ساتھ بے تکلف ہو جائیں، لہذا جب کبھی وہ خود تھوڑی بہت ہنسی مزاح کرتے تھے تو سب پورے وجود سے ہنستے تھے،ایسا لگتا تھا کہ ان کو گویا ابھی ہنسنے کی اجازت مل گئی ہے۔
یہ رعب نہ فقط طلاب پر بلکہ اساتذہ اور باہر سے ملاقات کے لئے آنے والی مذہبی اور قومی شخصیات پر بھی حاوی رہتا تھا ۔
راقم الحروف نے متعدد بار قومی سطح کی بڑی بڑی شخصیات کو شیخ صاحب کے سامنے فروتنی کرتے ہوئے مشاہدہ کیا ہے ۔
شاید اللہ تعالی کی عظمت اور بلندی کے سامنے خضوع و خشوع کے نتیجے میں یہ عظمت انہیں ملی تھی یا اس ادب اور احترام کی وجہ سے جو وہ اپنے اساتذہ کے حوالے سے دل میں رکھتے تھے ۔
کسی دن ان کی خدمات کی قدر دانی کے لئے صدر مملکت کی طرف سے صدارتی ایوارڈ دینے کے لئے بھلایا گیا تھا تو شیخ صاحب نے فرمایا: ان کے ایوارڈ میں نہ ہمارے لئے کوئی عزت ہے اور نہ ہم ان سے ڈرتے ہیں ہم تو اپنے اساتذہ کی عظمت کے سامنے کانپتے ہیں۔
وہ دینی مسائل میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتے تھے، اور ایک سرباز کی طرح احکام الہی اور حدود الہی پر پہرہ دیتے تھے ۔ جب طلاب کو واجبات اور مستحبات کی ادائیگی کرتے ہوئے دیکھتے تھے تو انتہائی مسرت کا اظہار فرماتے تھے اور واجبات میں سستی کا مشاہدہ بھی انہیں بہت شاق گزرتا تھا ۔
ایک دفعہ رجب یا شعبان کے مہینے میں طلاب کی کافی تعداد نے مستحب روزہ رکھنے کی وجہ سے نماز مغرب کی جماعت میں شرکت کے بجائے حال میں بیٹھ کر افطار کر رہے تھے، شیخ صاحب باہر سے آتے ہوئے یہ دیکھ کر بہت نا راحت ہوئے کہ آپ لوگ نماز جماعت چھوڑ کر کھانا کھا رہے ہیں؟!! کسی نے بتایا کہ ہم روزہ دار ہیں تو شیخ صاحب بہت خوش ہوئے اور بہت تشویق کرتے ہوئے بلند آواز سے فرمایا: روزہ دار ہو تو کھاو، کھاو خوب کھاو۔
وہ حقیقت میں قدیم صالح اور جدید نافع کے حسین امتزاج تھے ۔ انہوں نے قدیم علماء کے اقدار کو اپنے اندر سمویا تھا اور جدید دنیا کے تقاضوں سے بخوبی آشنا تھے ۔ لہذا جہاں وہ بزرگان دین کی سیرت کو بیان کرتے تھے وہاں جدید زمانے کے تقاضوں سے باخبر رہنے کی تاکید کرتے تھے ۔ اس زمانے میں جب خبر رسانی کا عمدہ ذریعہ اخبار ہوا کرتا تھا، جامعہ میں باقاعدہ متعدد قسم کے اخبارات طلاب کے لئے ہر روز منگوائے جاتے تھے اور درس و بحث سے پہلے طلاب ایک سرسری نگاہ اخبار پر ڈالتے تھے ۔
ایک دن ایک معروف عالم دین جن کی شیخ صاحب کے ساتھ قریبی دوستی تھی، جامعہ میں مہمان ہوئے تو ہم نے انہیں درس اخلاق دینے کی فرمائش کی، موصوف نے سارا زور اس بات پر دیا کہ ایک دینی طالب علم اور ایک عام شخص میں فرق ہونا چاہئے اور آج یہ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے کچھ پڑھ کر مدرسوں میں آنے والے لوگوں نے مدارس کے ماحول کو خراب کیا ہے ۔
دینی طلاب بھی ان کی طرح بال رکھتے ہیں، استری شدہ کپڑے پہنے ہیں!! ۔۔۔
شیخ صاحب کے ساتھ دوستی کی وجہ سے ہمیں یقین ہوگیا کہ اب مدرسے میں موصوف کی فرمائش کے مطابق نئے قوانین آئیں گے ۔
اگلی جمعرات کو شیخ صاحب نے درس اخلاق دیا، اور ہماری توقع کے بر عکس فرمایا: مدرسے اور سکول و کالج کے طلاب میں فرق ہونا چاہئے لیکن اخلاق و کردار میں نہ ظاہر اور لباس و پوشاک میں بلکہ ضروری ہے کہ آپ اپنے ظاہر کو بھی دوسروں سے اچھا بنائیں ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔