رپورٹ: عبداللہ جان
سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے تقریباً تمام انتخابات میں مذہبی جماعتیں نو سے 10 فیصد ووٹ حاصل کرتی رہی ہیں اور 2002 کے الیکشنز کے علاوہ کبھی ان کے ووٹ بینک میں اضافہ نہیں ہوا۔
پاکستان میں ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ ملک میں قومی اسمبلی کے تقریباً ہر حلقے میں کم از کم چند ہزار مذہبی ووٹ موجود ہیں، جو کسی امیدوار کو الیکشن تو نہیں جیتوا سکتے، تاہم عمومی انتخابی دنگل میں جیت یا ہار کے تعین میں ایک کلیدی کردار ضرور ادا کرتے ہیں۔
ملک کے طول و عرض میں مذہبی اذہان رکھنے والے ووٹرز کی موجودگی کے باوجود سیکولر سیاسی پارٹیوں کے برعکس مذہبی جماعتیں اپنے ووٹ بینک میں خاطر خواہ اضافہ کرنے میں ناکام رہ رہی ہیں۔
پاکستان میں اب تک ہونے والے تقریباً تمام انتخابات میں ووٹرز کی ایک بڑی تعداد مذہبی جماعتوں کے حق میں رائے دینے سے گریزاں رہی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں ہونے والے تقریباً تمام انتخابات میں مذہبی جماعتیں نو سے 10 فیصد ووٹ حاصل کرتی رہی ہیں اور 2002 کے الیکشنز کے علاوہ کبھی ان کے ووٹ بینک میں اضافہ نہیں ہوا۔‘
نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے انسٹیٹیوٹ آف ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے لیے ایک مقالے میں ریاض حسن اور فائزہ سلیم لکھتے ہیں: ’مذہبی عقیدت اور ثقافتی علامت کی حیثیت سے اسلام پاکستانی مسلم شناخت کا اہم حصہ ہے۔ تاہم مذہب سے یہ لگن عوامی اور نجی شعبوں میں اسلام کے کردار کو بڑھانے کے لیے کوشاں مذہبی جماعتوں کی سیاسی حمایت میں تبدیل نہیں ہو پائی ہے۔
’پاکستان کی ہنگامہ خیز سیاسی تاریخ میں کوئی بھی مذہبی جماعت الیکشن جیت کر حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ کسی بھی مذہبی جماعت کو سیاسی سٹیج پر سب بڑی کامیابی 2002 میں فوجی حکومت کے تحت ہونے والے انتخابات میں حاصل ہوئی، جب متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) نے 11.3 فیصد ووٹ حاصل کیے اور صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنائی۔‘
کوئی سیاسی جماعت مذہب اسلام سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کرتی، اس لیے مذہبی جماعتیں یہ دعویٰ نہیں کر سکتیں کہ وہ اکیلے اسلام کی نمائندہ ہیں۔
مقالے کے مطابق ایم ایم اے کی اس کامیابی کی بڑی وجہ افغانستان پر امریکی حملے پر عوامی ناراضگی تھی، جس نے شدید امریکہ مخالف جذبات کو جنم دیا۔‘
سال 2002 کے انتخابات میں چھ مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) ملک بھر میں 33 لاکھ سے زیادہ (11.41 فیصد) ووٹ حاصل کر کے چوتھی بڑی جماعت کی حیثیت سے ابھری اور اس وقت کے صوبہ سرحد میں حکومت بنانے میں بھی کامیاب رہی تھی۔
تاہم ماہرین کے خیال میں مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں جمعیت علما اسلام (جے یو آئی ف) نے گذشتہ دو دہائیوں کے دوران خاطر خواہ بہتر انتخابی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
سیاسی ماہرین اور تجزیہ عام طور پر مذہبی جماعتوں کے طریقہ سیاست کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
حسن عسکری کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ پاکستان کی آبادی کی بڑی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے اور کوئی بھی سیاسی جماعت مذہب اسلام سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کرتی۔
’اس لیے مذہبی جماعتیں یہ دعویٰ نہیں کر سکتیں کہ وہ اکیلے اسلام کی نمائندہ جماعتیں ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ مذہبی جماعتوں میں اکثریت علما کی ہوتی ہے، جو ووٹرز کے خیال میں جدید ریاست کو چلانے کے طریقوں اور اس کے مسائل سے نابلد ہیں۔
مذہبی سیاسی جماعتوں کے ووٹ بینک کے زوال کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ پارٹیاں ایک مخصوص دائرے سے باہر نہیں سوچ پاتیں اور اسی لیے عام شہری ان کے لیے حق رائے دہی کے استعمال سے گریز کرتا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار اور محقق ڈاکٹر عرفان احمد بیگ کے خیال میں پاکستان چند سال قبل تک ووٹرز بالعموم موروثی سیاست کو پسند کرتے رہے ہیں، جو اکثر مذہبی جماعتوں میں ناپید ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ مذہبی جماعتیں ووٹرز کا دل جیتنے میں ناکامی کا سامنا کرتی رہی ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب پاکستان کی ووٹرز کی فہرستوں میں ہر سال 50 لاکھ نوجوان شامل ہو رہے ہیں، جو نئے خیالات اور نظام ریاست میں جدت کے خواہاں ہیں۔
ڈاکٹر عرفان احمد بیگ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی ایک منظم سیاسی قوت ہونے کے باوجود ووٹ بینک میں اضافہ نہیں کر پا رہی ہے۔
’اس کی وجہ یقیناً یہ ہے کہ اس کا یوتھ ونگ اپنی جماعت کے نظریے، سوچ اور فکر کو اپنے کردار کے ذریعے سامنے لانے میں ناکام رہا ہے۔‘
پختون مذہب کے حوالے سے ایک خاص انداز رکھتا ہے، جس میں اس کی ثقافت کو ایک نمایا اہمیت حاصل ہے۔
جماعت اسلامی کے نائب امیر میاں محمد اسلم نے 2018 کے انتخابات میں ایم ایم اے کے امیدوار کی حیثیت سے این اے 54 سے سات ہزار سے کچھ زیادہ ووٹ حاصل کیے، جب کہ 2002 میں وہ اسی حلقے سے جیتے تھے اور 2013 کے انتخابات میں 25 ہزار سے زیادہ ووٹ لیے تھے۔
اسلامی نظام کے نفاذ کی کوششیں کرنے کا دعویٰ کرنے والے مذہبی دھڑے جمہوری نظام اور انتخابات کے انعقاد کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں، جس کے باعث مذہبی ذہن رکھنے والے ووٹرز ابہام کا شکار رہتے ہیں۔
ماہرین کے خیال میں یہ سوچ بھی مذہبی جماعتوں کے ووٹرز کو انتخابات سے دور رکھنے کا باعث بنتی ہے اور ان پارٹیوں کی معاشرے میں موجود حمایت ووٹ کی شکل میں بدل نہیں پاتی۔
عام مشاہدہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کی کامیابیوں میں خیبر پختون خوا، بلوچستان اور پنجاب کے بعض علاقوں کا حصہ زیادہ ہوتا ہے۔
اس مظہر کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر عرفان احمد بیگ کا کہنا تھا کہ خصوصاً پختون مذہب کے حوالے سے ایک خاص انداز رکھتا ہے، جس میں اس کی ثقافت کو ایک نمایا اہمیت حاصل ہے۔
’پختونوں میں مولوی ایک مخصوص حلیے کا ہوتا ہے، جب کہ کراچی میں مذہبی پیشوا کا ایسا حلیہ عام طور پر دیکھنے میں نہیں آتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہی مظہر پنجاب کے بعض علاقوں اور بلوچستان کے پختونوں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
ڈاکٹر عرفان احمد بیگ کا کہنا تھا کہ ملائشیا، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش جیسے مسلمان ممالک میں مقامی ثقافت کو مذہبت کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے اور یہی رجحان کراچی میں اردو بولنے والی آبادی کی اکثریت میں نظر آتی ہے۔
ڈاکٹر عرفان احمد بیگ کے خیال میں عمران خان کی قیادت نے پاکستان کے نوجوان کو ایک سیاسی متبادل فراہم کیا ہے، جس سے تمام پارٹیاں متاثر ہوئیں۔
’لیکن عمران خان فیکٹر کا سب سے زیادہ نشانہ مذہبی جماعتیں بنی ہیں کیوں کہ ان کے خیالات نئی نسل کو اپیل نہیں کر پارہے ہیں۔
ووٹ بینک کے حوالے سے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں بشمول مذہبی پارٹیاں انحطاط کا شکار ہوئی ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز
حسن عسکری نے اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی عوام کی اکثریت کے خیال میں مذہبی جماعتوں کے پاس جدید ریاست کے مسائل کے حل موجود نہیں ہیں۔
’نوجوانوں کا مذہبی جماعتوں کے حق میں ووٹ استعمال نہ کرنے کی یہ بہت بڑی وجہ ہے۔‘
ڈاکٹر عرفان احمد بیگ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ عمران خان فیکٹر کی غیر موجودگی مٰں بھی مذہبی جماعتوں کا پاکستان میں کوئی مستقبل نہیں ہے۔
’ان جماعتوں کی کارکردگی میں بہتری کی کوئی امید نہیں ہے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی حالت مزید خراب ہو گی۔‘
جمیعت علما اسلام ف کے مرکزی ترجمان اسلم غوری کا کہنا تھا کہ ان کے جماعت کی کارکردگی اور حمایت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
’کبھی خیبر پختونخوا اسمبلی میں جے یو آئی کے صرف اکرم درانی رکن کے طور ہوا کرتے تھے، جب کہ اب یہ تعداد زیادہ رہتی ہے۔
’سینیٹ میں بھی ہمارا ایک آدھ رکن ہوا کرتا تھا لیکن اب ہمارے سینیٹرز کی تعداد بھی زیادہ ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اسلم غوری نے کہا کہ جے یو آئی ف کے انتخابات میں حاصل کردہ ووٹوں میں کمی ہوئی ہے لیکن اراکین پارلیمنٹ کی تعداد متواتر بڑھ رہی ہے۔
ترجمان جے یو آئی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت اسی لیے متناسب نمائندگی کے نظام کی حمایت کرتی ہے کیونکہ اس سسٹم کے آنے سے ایسے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔
تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ بعض دوسری مذہبی جماعتوں کے ووٹ بینک میں زوال کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے، جس کی ان کے خیال میں وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز کا کہنا تھا کہ ووٹ بینک کے حوالے سے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں بلا تخصیص انحطاط کا شکار ہوئی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ یہ مظہر صرف مذہبی جماعتوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ قوم پرست جماعتوں کی مقبولیت کم ہوئی ہے۔
سیاسی جماعتوں کے ووٹ بینکس میں کمی کی وجہ بیان کرتے ہوئے پروفیسر قبل ایاز کے خیال میں حکومتوں کی بری کارکردگیاں انہیں غیر مقبول بنا رہی ہیں۔
’لوگوں کے مسائل حل نہیں ہو رہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور امن و امان کی خراب صورت حال نے عوام کو بددل کر کے رکھ دیا ہے۔‘
جہاں پاکستان میں پہلے سے موجود مذہبی جماعتوں کی مقبولیت میں کمی واقع ہو رہی ہے وہیں ملک میں نئی اسلامی بارٹیاں بھی جنم لے رہی ہیں۔
اس سلسلے میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سرفہرست ہے، جس نے 2018 میں پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لیا اور انتخابی سیاست میں اپنے لیے جگہ بنائی۔
تحریک لبیک ’یا رسول اللہ‘ کا ایک انتخابی محاذ ہے، جو ایک بریلوی گروپ ہے، جسے عالم دین مرحوم خادم حسین رضوی نے قائم کیا تھا۔
تحریک لبیک پاکستان نہ صرف جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے لیے ایک مضبوط حریف ثابت ہوئی بلکہ تاریخی طور پر بریلوی گروپوں کی سیاسی حمایت رکھنے والی پاکستان مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک کو بھی متاثر کیا۔
جولائی 2018 کے انتخابات میں ٹی ایل پی نے قومی اسمبلی کے لیے 22 لاکھ یا 4.22 فیصد ووٹ حاصل کیے، جو ملک بھر میں ڈالے گئے مذہبی ووٹوں کا 43 فیصد تھا اور یوں ٹی ایل پی ملک کی پانچویں بڑی جماعت بن کر ابھری۔
دوسری نئی بننے والی مذہبی جماعتوں بشمول اللہ اکبر تحریک اور ملی مسلم لیگ نے بھی 2018 کے انتخابات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے انسٹیٹیوٹ آف ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے مقالے کے مطابق 2018 کے انتخابات میں بڑی مذہبی جماعتوں نے بری کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اس صورت حال سے نئی بننے والی مذہبی پارٹیوں نے فائدہ اٹھایا۔
ماہرین کے خیال میں پاکستانی معاشرے میں مذہبی جماعتوں کا انتخابی مستقبل تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے اور مذہب اسلام کے نام پر سیاست کرنے والی پارٹیوں کی کارکردگی ماضی کی ہی طرح رہے گی۔
حسن عسکری کا کہنا تھا کہ مذہبی جماعتیں پاکستانی معاشرے میں محض پریشر گروپس کے طور کام کرتی ہیں اور ان کا مستقبل میں بھی یہی کردار رہے گا۔
’یہ بعض علاقوں میں انتخاب جیت لیتی ہیں اور کئی مرتبہ دوسری جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنا کر بھی فائدہ اٹھا لیتی ہیں، لیکن اس سے زیادہ کسی چیز کی امید نہین رکھی جا سکتی۔‘
انہوں نے کہا کہ مذہبی جماعتوں میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ خود ریاست کا کنٹرول حاصل کر سکیں تاہم یہ کسی حکومت کو ’تنگ اور خراب‘ کرنے میں ایک کردار ادا کر سکتی ہیں۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو