نومبر 23, 2024

سوراخ کو کھوئے ہوئے لوگ

تحریر: علی سردار سراج 

اسلامی فرقے جو بعض عقائد کی بنیاد پر،بعض فقہ اور فروعات دین میں اختلاف کی وجہ سے اور کچھ سیاسی مسائل کے بدولت وجود میں آئے ہیں ۔

اور ہر فرقے کے اندر بھی فرقے بنتے گئے ہیں ۔

کچھ فرقے گزرتے زمانے کے ساتھ ختم ہو گئے ہیں اور کچھ ابھی تک باقی ہیں ۔

تاریخی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری ایام میں ہی کچھ اختلافات ظاہر ہوگئے تھے۔

جن میں سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت لکھنے کی خواہش پر اختلاف نمایاں ہے۔

جس کو بہت سارے تاریخی منابع کے علاوہ بخاری نے بھی اپنی صحیح میں متعدد مقامات پر ذکر کیا ہے ۔

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَمَّا اشْتَدَّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ ، قَالَ : ائْتُونِي بِكِتَابٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ ، قَالَ عُمَرُ : إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَنَا كِتَابُ اللَّهِ حَسْبُنَا ، فَاخْتَلَفُوا وَكَثُرَ اللَّغَطُ ، قَالَ : قُومُوا عَنِّي وَلَا يَنْبَغِي عِنْدِي التَّنَازُعُ ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ : إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كِتَابِهِ ۔

جب نبی ﷺ کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تاکہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں ، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو ، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ( لوگوں سے ) کہا کہ اس وقت آپ ﷺ پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں ( ہدایت کے لیے ) کافی ہے ۔ اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو ، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں،اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بے شک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے ( وہ چیز جو ) ہمارے اور رسول ﷺ کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی ۔(1)

اس کے بعد دوسرا اہم مسئلہ جس میں اختلاف ہوا اور کئے دوسرے اختلافات کی بنیاد بنا وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد خلافت و امامت کا مسئلہ تھا ۔

کچھ لوگ خلافت اور امامت کو بھی نبوت کی طرح انتصابی سمجھتے تھے( یعنی خلیفہ اور امام کے انتخاب کا اختیار صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے) ۔

وہ اپنے مدعا کے اثبات کے لئے، کچھ آیات کے علاوہ، حدیث ثقلین، حدیث منزلت ،حدیث غدیر اور کئی دوسری نصوص سے تمسک کرتے ہیں ۔

اور ان کا مدعا ہے کہ پیغمبر اکرم نے نہ فقط زبانی کلامی بلکہ عملی طور پر غدیر خم کے مقام پر امام علی علیہ السلام کی ولایت و امامت کا اعلان کیا ہے ۔

واقعہ غدیر تواتر کے ساتھ ثابت ہے جسکا انکار نا ممکن ہے ۔

آیت تبلیغ ( يا أيها الرسول بلغ ما انزل إليك من ربك… ) اور آیت اکمال الدین( اليوم أكملت لكم دينكم… ) بالترتیب اس واقعے سے پہلے اور بعد نازل ہو گئیں ہیں ۔

انہی ادلہ کی بنیاد پر وہ امیر المومنین علی علیہ السلام کو پیغمبر اکرم کا جانشین اور مسلمانوں کا امام مانتے ہیں ۔ اور یہی لوگ شیعہ کہلائے جاتے ہیں ۔

شیعہ اثنا عشریہ، زیدیہ اور اسماعلییہ اسکے تین اہم فرقے ہیں۔ مصر میں ایک مدت تک فاطمی خلفا(اسماعلییہ)کی حکومت رہی ہے ۔

زیدیہ طبرستان ایران اور یمن پر کچھ مدت تک مسلط رہے ہیں۔

اور شیعہ اثنا عشریہ بھی مختلف ادوار میں بعض علاقوں پر حاکم رہے ہیں۔ حکومت صفویہ کے بعد ایران کی موجودہ اسلامی حکومت قابل ذکر ہیں۔ البتہ ایران کی اسلامی حکومت، جس میں اگرچہ فکر شیعیی کو غلبہ ہے۔ لیکن اس کے اصول، اسلام کے کلی قوانین پر وضع ہوئے ہیں اور حکومت میں عوام کو بہت عمل دخل حاصل ہے۔

اور اسرائیل کی غاصب حکومت کے خلاف نیز مسلم ممالک میں استعماری حکومتوں کی مداخلت کے خلاف، محور مقاومت کے نام پر ایک طاقتور بلاک بنایا ہے جس میں حماس، جہاد اسلامی، حزب اللہ، انصار اللہ، حشد الشعبی اور کئے دوسرے اسلامی گروپ شامل ہیں ۔

ایران،عراق،لبنان، آزر بایجان،اور کچھ خلیجی ممالک میں شیعہ اکثریت ہے۔ پاکستان، ہندوستان اور افغانستان کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں شیعہ قابل توجہ مقدار میں بستے ہیں ۔

ان کے مقابلے میں ایک جماعت کا یہ ماننا تھا کہ پیغمبر اکرم کے بعد خلیفہ کا انتخاب مسلمانوں کی صوابدید پر چھوڑا گیا ہے۔اپنے مدعا کے اثبات کے لئے سب سے عمدہ دلیل کے طور پر اجماع کا نام لیتے ہیں ۔

اور انتخاب(یعنی لوگوں کی رائے سے)وصیت(پہلے والا خلیفہ کسی کے بارے میں وصیت کرے)یا زور وزبردستی حکومت پر قابض ہونے والے شخص کی خلافت کو مشروع سمجھتے ہیں۔ وہی خلیفہ ہے اور اس کی اطاعت واجب ہے ۔ اور ان کو اہل سنت والجماعت کہا جاتا ہے۔

جن کا آغاز سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت ابو بکر کے خلیفہ منتخب ہونے سے ہوا ۔

اورطول تاریخ میں مسلمانوں کی حکومت و اقتدار ان کے ہاتھ میں رہا اور حکومت کی زیرسرپرستی یہ مذہب آگے بڑھتا رہا، اور آج اکثر مسلم ممالک میں اس فرقے کی اکثریت ہے۔ اور دنیا بھر کے دوسرے ممالک میں بھی آباد ہیں ۔

اہل سنت بھی کئے فرقوں میں بٹ گئے ہیں ۔

لیکن خلافت کے بنیادی مسئلے میں متفق ہیں ۔

مسلمانوں کے درمیان فرقوں کی موجودگی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے ۔

اور دوسرے بڑے ادیان و مذاہب کے فرقوں کی طرح اسلامی فرقوں نے بھی بہت ہی جلد فکری اور فقہی اختلافات کے باوجود مشترکات،باہمی احترام اور ایک دوسرے کی مقدسات کی توہین سے گریز کی بنیاد پر آپس میں بھائی چارے کی زندگی گزارنا سیکھ لیا۔

اس میں سب سے زیادہ کردار ائمہ اطہار علیھم السلام کا رہا ہے، کہ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو دوسرے مسلمانوں سے روابط رکھنے، کی تاکید اور ان سے جدا ہونے سے منع کیا اور آج بھی شیعہ واحد فرقہ ہے جو کسی بھی دوسرے فرقے کے پیش نماز کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح سمجھتا ہے۔

اور بہت زیادہ قربانیوں کے باوجود امت مسلمہ کی وحدت کو قرآن و اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کی روشنی میں ضروری سمجھتا ہے ۔

ملک عزیز پاکستان مسلمانوں کی وحدت اور بھائی چارے، کی بدولت ہی وجود میں آیا ہے ۔

جو علامہ اقبال کی فکر ، قائد اعظم کی قیادت و رہبری اور برصغیر کے مسلمانوں کی کم نظیر قربانیوں کا مرہون منت ہے ۔

وہ لوگ جنہوں نے قائد اعظم پر کفر کے فتوے لگائے اور پاکستان کے وجود کو کبھی بھی دل سے قبول نہیں کیا، انہوں نے آج تک اس ملک اور قوم کو نقصان پہنچانے میں ایک دقیقہ بھی فرو گزاشت نہیں کیا ہے ۔

وہ ایک ضدی بچے کی طرح اس ضد میں ہیں کہ یا تو پاکستان ان کے فرقے کے نام ہو جائے، یا پھر خاکم بدہن اس ملک کا وجود ہی نہ رہے ۔

وہ اسلامی پاکستان کو صرف ایک مسلکی پاکستان کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ بھی ایسا مسلک جس کے رو سے باقی تمام اسلامی فرقے یا مشرک ہیں یا کافر۔

بد قسمتی سے سیاست کی چکی بھی ایک مدت تک ان کے مدار پر چلتی رہی اور بیرونی قوتوں کی ایما پر کئے ایسے مدارس کو وجود میں لایا گیا،جہاں پر ایک خاص نصاب تعلیم مرتب کیا گیا اور ایک خاص مذہبی شدت پسندی اور انتہا پسندی کے ساتھ کئے طلبہ ان مدارس سے فارغ التحصیل ہوگئے ۔

یہ لوگ بہت آسانی کے ساتھ دوسروں کے کفر اور شرک کے فتوے صادر کرتے ہیں ۔

اور بات صرف فتووں کی حد تک باقی نہیں رہتی ہے، بلکہ کھلے عام دوسروں کے خلاف بالخصوص شیعوں کے خلاف کفر کے نعرے اور قتل کی دھمکیاں دیتے ہیں۔

جس کی تازہ ترین مثال مسعود الرحمن عثمانی کا نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل کے بعد کے واقعات ہیں ۔

اور بعض سیانے لوگ اس بات کو بعید از قیاس نہیں سمجھتے ہیں کہ یہ ان کے باہمی اختلاف اور اقتدار کے لئے رسہ کشی کا نتیجہ ہو۔ بہرحال وقت بتائے گا کہ اس قتل کے عوامل کیا تھے اور کن لوگوں کا ہاتھ تھا؟ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ کیونکہ ابھی نہ کوئی عدالتی کارروائی ہوئی ہے، اور نہ کسی عینی شاہد نے کسی کی شناخت پر کوئی گواہی دی ہے ۔

لیکن حیرت انگیز طور پر اس تکفیری گروہ نے شیعہ قوم اور اس کے قائدین کے خلاف اپنا فتوی کھلی شاہراہوں میں ببانگ دہل جاری کیا ہے ۔

یہاں تک کہ، برقعہ پوشی کرکے سیکورٹی فورسز کی آنکھوں میں دھول جھونک کر فرار ہونے والا اس گروہ کا معروف سرغنہ،کفار و مشرکین کے بارے میں نازل ہونے والی جہاد کی ایک آیت سے باقاعدہ دہشت گردی کا جواز ثابت کر رہا تھا اور لوگوں کو دہشت گردی کی ترغیب دلا رہا تھا ۔

ان لوگوں کی مثال اس شخص کی ہے جو وضو میں ناک صاف کرتے ہوئے پڑھنے کی دعا کو استنجاء کرتے ہوئے پڑھ رہا تھا ۔ کسی نے کہا : دعا خوب می خوانی ولی سوراخ دعا را گم کرده ای.

یعنی دعا اچھی پڑھتے ہو لیکن دعا کی سوراخ کو کھو دیا ہے ۔

انہوں نے دعا کی سوراخ کو کھو دیا ہے یا پیغمبر اکرم کی حدیث کے مطابق پیراہن اسلام کو الٹی پہن رکھی ہے ۔

یہ لوگ ابن تیمیہ کی پیروی میں کفار و مشرکین کے لئے نازل ہونے والی آیات کو اہل قبلہ کے اوپر تطبیق کرکے ان کے خلاف برسرپیکار رہتے ہیں ۔ اور جن کے خلاف جہاد کرنا چاہیے وہ نہ فقط ان سے آسودہ خاطر ہیں، بلکہ یہ ان کے غیر رسمی حامی ہیں ۔

لہذا اسلامی ممالک کے اندر ان کو فنڈنگ کرنے والے وہی لوگ ہیں۔

آج جب غاصب صیہونی ریاست غزہ کے نہتے مسلمانوں کو بے دریغ قتل عام کر رہی ہے،ایسے موقعے میں یہ پاراچنار، شاہراہ قراقرم اور اسلام آباد کے اندر شیعہ مسلمانوں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں ۔

اور فرقہ واریت کی جنگ چھیڑ کر حرام نمک کو حلال کر رہے ہیں ۔

اور ریاستی اداروں کے کانوں میں تو گویا روئی ٹھونسی گئی ہے۔ یا ابھی تک نو مئ کے سوگ میں ہیں۔

یا خدانخواستہ یہ سب کچھ اپنی سیاسی مشکلات کی وجہ سے حکومت کی ایما پر ہو رہا ہے۔

کیوں ذمہ دار لوگوں کو شہر اقتدار سے بلند ہونے والی یہ قبیح آوازیں سنائی نہیں دیتی ہیں؟

اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ یہ لوگ بے گناہ لوگوں کے خون سے ہمیشہ اپنے ہاتھوں کو رنگین رکھتے ہیں۔ شاہراہ قراقرم پر نہتے مسافروں پر حملہ، پاراچنار کا محاصرہ اور اس راستے میں کئے مسافروں پر حملہ کو کچھ دن ہی بیت گئے تھے ،کل پھر پاراچنار کے راستے میں کچھ مسافروں کو شہید کرنے کی خبریں زیر گردش ہیں ۔

کیا شیعہ قوم کی دل آزاری اور اس کا خون مباح ہے؟

کیوں ریاستی ادارے ان مسائل میں شفاف تحقیقات کرکے عام پاکستانیوں کو یہ آگاہی فراہم نہیں کرتے ہیں کہ اس ملک میں قتل ہونے والوں کے پیچھے کون لوگ ہیں؟؟

اسی طرح پاکستان میں بسنے والی سنی اکثریت بالخصوص علماء کرام کی اس حوالے سے کیاکوئی ذمہ داری نہیں بنتی ہے؟ کیوں آپ اس مختصر تکفیری گروپ کے مقابلے میں سکوت کا روزہ رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں؟

یہ لوگ اگرچہ اہل تشیع کا خون بہاتے ہیں۔ لیکن عالمی سطح پر توہین کسی فرقے کی نہیں بلکہ اسلام کی ہوتی ہے ۔ اور لوگ تمام مسلمانوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔

پاکستان ہوگا تو یہاں فرقے بھی ہونگے اور قومیتیں بھی ۔

خدارا فرقوں اور قومیتوں کے لئے پاکستان کو خطرے میں نہ ڈالیں ۔

اور قائد اعظم کے ہم مسلک لوگوں کے خون کو مباح قرار نہ دیں ۔

اللہ تعالی نے بہت ساری گذشتہ قوموں کو اس لیے تباہ کرکے بعد والوں کے لئے مثال بنایا ہے کہ کچھ ظلم کرتے تھے، اور اکثریت اس ظلم پر خاموش رہتی تھی ۔

________________

(1): Sahih Bukhari#114)

کتاب علم کے بیان میں

www.theislam360.com

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

one × five =