نومبر 23, 2024

فاطمہ زہرا (س) منابع اہل سنت میں پیغمبر اکرم (ص) کے نزدیک مقبول ترین خاتون ہیں

تحریر: محمد شاهد رضا خان

ولادت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا

/حاکم نیشابوری کتاب المستدرک (جلد 3، صفحہ 121) میں “جمیع ابن عمیر” کی ایک روایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں اپنی خالہ کے ساتھ حضرت عائشہ کی خدمت میں گیا اور حضرت عائشہ سے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب لوگ کون ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: فاطمہ (س)۔ انہوں نے کہا: مردوں میں سے کون؟ فرمایا: اس کے شوہر علی علیہ السلام ۔ پھر حاکم نیشابوری اس حدیث کو صحیح مانتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ صحیح السند کی حدیث ہے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ محمد شاهدرضاخان نے ایک مضمون بعنوان “حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، سنی منابع میں پیغمبر اکرم (ص) کے نزدیک دنیا کی سب سے محبوب خاتون ہیں” میں لکھا:

20 جمادی الثانی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا یوم ولادت ہے۔ مرحوم طبرسی، جو چھٹی صدی میں فوت ہوئے، کتاب اعلام الوری (جلد 1، صفحہ 220) میں لکھتے ہیں: ہمارے صحابہ کی روایت کے مطابق *حضرت فاطمہ (س) کی ولادت 20 جمادی الثانی سال پنجم بعثت کو مکہ میں ہوئی۔*

جناب حاکم نیشاابوری شافعی مذهب (متوفی 405ھ) اپنی کتاب المستدرک علی الصحیحین (جلد 3، صفحہ 125) میں ایک سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ (س) کی ولادت سال 41 میں ہوئی۔

ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی زندگی کے اہم ترین مسائل میں سے ایک خدا کے آخری رسول حضرت محمد مصطفی (ص) کے ساتھ ان کی محبوبیت ہے بلا شبہ دنیا کی تمام عورتوں میں رسول خدا (ص) کے نزدیک فاطمہ زہرا (س) سے زیادہ محبوب کوئی نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو اہل سنت کے دستہ اول کے منابع کا حوالہ دینے سے واضح اور روشن ہو جاتی ہے:

1۔ کلام حاکم نیشابوری

حاکم نیشابوری کتاب المستدرک میں (جلد 3، صفحہ 121) ایک سند کے ساتھ “جمیع ابن عمیر” سے نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں اپنی خالہ کے ساتھ حضرت عائشہ کی خدمت میں گیا اور حضرت عائشہ سے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک محبوب ترین لوگ کون ہیں؟۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: فاطمہ (س)۔ انہوں نے کہا: مردوں میں سے کون؟ فرمایا: فاطمہ(س) کا شوہر علی علیہ السلام ۔ پھر حاکم نیشابوری اس حدیث کو صحیح مانتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ صحیح السند حدیث ہے۔ایک دوسری حدیث میں وہ حضرت عمر سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ (س) کے پاس آئے اور کہا: اے فاطمہ! میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ سے زیادہ محبوب کسی کو نہیں پایا اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آپ سے زیادہ محبوب کسی کو نہیں جانتا۔ حاکم نیشابوری اس حدیث پر اظہارِ نظر دیتے ہیں اور اسے صحیح سمجھتے ہیں، لیکن ذہبی کہتے ہیں: “یہ عجیب و غریب ہے۔” اور ان دو الفاظ سے وہ حدیث کی سند پر اشکال ڈالنا چاہتا ہے لیکن ایسا نہیں کر سکتا۔

  1. کلام ترمذی

ترمذی (متوفی 297ھ) اپنی کتاب الجامع الصحیح (جلد 5، ص 701، حدیث 3874) میں “جمیع بن عمیر” تمیمی سے یہی حدیث نقل کرتے ہیں اور آخر میں کہتے ہیں: “یہ حدیث حسن ہے۔ حسن غریب”۔ اس حدیث کے سلسلہ میں چار لوگ ہیں۔ 1۔ حسین ابن یزید کوفی 2۔ عبدالسلام ابن حرب 3۔ ابوالجحاف (داؤد بن ابی عوف) 4۔ جمیع بن عمیر یہاں ہم ان روات کی شخصیت میں سے ہر ایک کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں۔ لیکن ثقہ راویوں میں ابن حبان نے “حسین بن یزید” کا نام ذکر کیا ہے۔ (کتاب الثقات، ج 8، ص 188؛ تہذیب الکمال، ج 6، ص 502)۔ لیکن “عبدالسلام بن حرب کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے کہ ابن حجر نے اپنی کتاب “کرم التہذیب” (جلد 1، صفحہ 505) میں اسے ایک ثقہ اور قابل اعتماد شخص سے تعبیر کیا ہے کہ وہ دریافت کرنے والا ہے۔ اس کی امانت داری کا۔ ان کا انتقال 87 میں ہوا۔ لیکن “ابوالجحاف” جس کا نام “داؤد بن ابی عوف” ہے، ترمذی نے اسے “وکان مرضیا” سے تعبیر کیا ہے۔

(سنن ترمذی، ج5، ص701) ابن حجر نے کتاب التہذیب (جلد 1، صفحہ 233) میں اسے صدوق سے تعبیر کیا ہے۔ چوتھے راوی کا نام “جمیع بن عمیر” کوفی ہے۔ ابو حاتم رازی ان کے بارے میں کہتے ہیں: ” کوفی تابعی محلّه الصدق صالح الحدیث ” (تہذیب الکمال، جلد 5، صفحہ 125؛ الجرح و التعدیل، جلد 2، صفحہ 125)۔ 532)۔ ابن حبان نے الثقات کے زمرے میں اس کا نام ذکر کیا ہے (جلد 4، صفحہ 115) اور ذہبی نے اس کے بارے میں کہا ہے: “کوفی جلیل” (دیکھیں: تاریخ الاسلام) اور المغنی کی کتاب میں اس نے کہا: “اور احسنه صادقا ہے۔”

لہٰذا اس حدیث کے تمام راوی اہل سنت کے نزدیک قابل اعتماد اور

ثقہ ہیں اور اگر ’’جميع ‘‘ کے نزدیک کوئی ضعیف ہے تو وہ فضائل و مناقب امیر المومنین سے متعلق احادیث کے بیان کرنے کی وجہ سے ہے۔ مثال کے طور پر، وہ حدیث مواخات کے راوی ہیں (پیغمبر اکرم (ص) کا بھائی چارہ اور امیر المومنین علی (ع))۔ (سنن الترمذی، جلد 5، صفحہ 300) لیکن یہ بات واضح ہے کہ محض فضائل بیان کرنے سے وہ کبھی اعتبار کے درجے سے نیچے نہیں آئے گا۔

ذہبی کی حقیقت کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش

اگرچہ اس حدیث کے بعض راویوں کی ذہبی نے بھی تائید کی ہے لیکن اس نے کتاب سیر أعلام النبلاء میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ عمرو بن العاص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: لوگوں میں آپ کو سب سے پیارا شخص کون ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ؛ مردوں میں سے کون؟ فرمایا: عائشہ کے والد۔ پھر فرماتے ہیں: باوجود اس کے کہ روافض [شیعہ] اس خبر کو نہیں مانتے لیکن یہ خبر صحیح ہے۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے: اس نے جو حدیث بیان کی ہے وہ سلسلہ سند کے بغیر ہے اور اس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا، لیکن ترمذی کی حدیث مسند ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ اور مورو اطمینان ہیں۔

اس فضول اور ناکام عمل میں ذہبی نے سچائی کو الٹا کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند ازواج مطہرات کے سامنے سب سے پیاری خواتین کو بٹھانے کی کوشش کی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ حاکم نیشابوری نے کتاب المستدرک (جلد 3، صفحہ 119) میں صحیح السند کے ساتھ “عبداللہ بن عطا” سے “عبداللہ بن بریدہ” سے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ سب سے زیادہ محبوب عورت۔ رسول خدا (ص) کے نزدیک فاطمہ (س) تھیں اور مردوں کے درمیان سب سے زیادہ محبوب علی علیہ السلام تھے۔ پھر اس نے اس حدیث کو صحیح سمجھا اور ذہبی نے بھی اس سے اتفاق کیا۔

واقعا ذہبی کے کلام کے درمیان یہ تضاد کیسے ہو سکتا ہے اور کیسےتوجہی ہوسکتی ہے؟! کبھی وہ حضرت عائشہ کی مقبولیت کی تصدیق کرتا ہے اور شیعوں کی توہین کرتا ہے اور کبھی حدیث کو صحیح سمجھتا ہے اور اس روایت کو قبول کرتا ہے کہ سب سے زیادہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک محبوب‌ترین انسان زہرا سلام اللہ علیہا ہیں!

اور اس حدیث کو صحیح سمجھتا ہے اور قبول کرتا ہے

یہاں قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ جناب حاکم نیشابوری جو احادیث کے ناقد ہیں، کتاب “فضائل فاطمۃ الزہرا” (ص 47) میں لکھتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ کی ایک اور فضیلت۔ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ حاکم نیشابوری کی نظر میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی مقبولیت اور خاص حیثیت قطعی اور مستحکم رہی ہے۔

شخصیت حاکم نیشابوری

ذہبی نے کتاب “تذکرہ الحفاظ” (جلد 1، صفحہ 1039) میں حاکم نیشابوری کی شخصیت کے بارے میں کہا ہے: “الحکیم، الحافظ الکبیر، امام المحدثین”۔

ب. کتاب “سیر أعلام النبلاء ” میں ترجمہ حاکم(جلد 17، صفحہ 162) میں یوں بیان کیا گیا ہے: “الامام الحافظ النقد العلامہ شیخ المحدثین .. میں نے اسے شیخ کے ہزار کلمات کہتے سنا۔اس لیے سنی منابع سے نقل شدہ روایات اور اقوال کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک صدیقہ کبری فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے زیادہ محبوب اور عظیم کوئی خاتون نہیں ہے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

14 − 9 =