تحریر: آصف محمود
اگر تو ہم نے آٹھ فروری کو عام انتخابات کی ایک رسم پوری کرنی ہے تو یہ چاند ماری سب کو مبارک ہو لیکن اگر انتخابات ایک سنجیدہ جمہوری مشق ہے تو اس معاشرے کو الیکشن کمیشن اور اہل سیاست سے چند اہم سوالات کے جواب مانگنا ہوں گے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ ایک عام ووٹر اگر قومی اور صوبائی اسمبلی کے صرف ایک ایک حلقے میں ووٹ دے سکتا ہے تو اس کے ووٹ کے جائز حقدار، کردار کے غازی اور بے داغ ماضی والے نابغوں کو یہ اجازت کیوں دی جاتی ہے کہ وہ جتنے حلقوں سے چاہے امیدووار بن جائے؟ یہ عام انتخابات ہیں یا سیاسی اشرافیہ کے مفاداتِ باہمی کا لنگر کھلا ہے؟
قانون کے مطابق ووٹر صرف اس حلقے سے ووٹ ڈال سکتا ہے جہاں کا ایڈریس ان کے شناختی کارڈ پر لکھا ہو لیکن امیدوار کو آزادی ہے وہ پورے ملک میں جہاں سے چاہے، بلکہ جہاں جہاں سے چاہے، الیکشن لڑ سکتا ہے، یعنی مزارعین کے لیے الگ قانون اور مالکان کے لیے الگ قانون؟
آئین پاکستان کے آرٹیکل 223 کی ذیلی دفعہ ایک میں چند اصول طے کیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق:
۔ کوئی بھی شخص بیک وقت دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ کا رکن نہیں ہو گا۔
۔ قومی اسمبلی یا کسی صوبائی اسمبلی کا رکن نہیں ہو گا۔
۔ سینیٹ یا کسی صوبائی اسمبلی کا رکن نہیں ہو گا۔
۔ ایک سے زیادہ صوبائی اسمبلیوں کا رکن نہیں ہو گا۔
۔ صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی یا سینیٹ میں ایک سے زیادہ نشستوں پر رکن نہیں ہو گا۔
لیکن حیران کن طور پر آئین کے آرٹیکل 23 کی ذیلی دفعہ دو میں لکھا ہے کہ اس پابندی کے باوجود کسی بھی شخص کو بیک وقت دو یا اس سے زیادہ نشستوں پر الیکشن لڑنے سے نہیں روکا جائے گا۔
اسے یہ بھی آزادی ہو گی کہ وہ بیک وقت ایک سے زیادہ ایوانوں کا امیدوار ہو، یعنی وہ بیک وقت قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ سکتا ہے اور جتنی سیٹوں پر چاہے لڑ سکتا ہے، حتیٰ کہ وہ ایک ایوان کا رکن ہوتے ہوئے بھی دوسرے ایوان کی نشست پر امیدوار بن سکتا ہے۔ بس اسے اتنا کرنا ہو گا کہ جیتنے کے بعد ایک سیٹ چھوڑنا ہو گی۔
جب آئینی پوزیشن یہ ہے کہ ایک شخص ایک وقت میں ایک ایوان میں صرف ایک نشست رکھ سکتا ہے تو پھر اسے ایک وقت میں ایک سے زیادہ ایوانوں اور ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن میں بطور امیدوار حصہ لینے کی اجازت کیوں ہے؟
چونکہ قانون کے مطابق ایک آدمی ایک ہی نشست اپنے پاس رکھ سکتا ہےاس لیے اگر وہ ایک سے زیادہ نشستوں پر کامیاب ہوتا ہے تو اسے ایک کے علاوہ باقی سیٹیں چھوڑنا ہوتی ہیں اور ان نشستوں پر ضمنی انتخاب ہوتا ہے۔
پاکستان میں کوئی ہے جو پوچھے کہ اس صورت میں ضمنی انتخاب کے اخراجات غریب قوم کیوں برداشت کرے؟
ضمنی انتخابات میں ایک حلقے کے انتخاب پر کروڑوں روپے کا خرچ آتا ہے۔ بیلٹ پیپر چھپتے ہیں، انتخابی سازو سامان تیار کیا جاتا ہے، پولیس اور انتظامیہ کی ڈیوٹی لگتی ہے، مختلف محکموں سے عملہ لیا جاتا ہے۔
غرض اخراجات کا ایک پہاڑ کھڑا ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ معاشی بحران سے دوچار قوم کسی انوکھے لاڈلے کے لیے یہ اخراجات کیوں برداشت کرے؟
ضمنی انتخاب اگر کسی ناگزیر صورت میں ہو تو وہ ایک الگ معاملہ ہے، جیسے کوئی حادثہ ہو جائے، کسی رکن اسمبلی کا انتقال ہو جائے تو منطقی سی بات ہے کہ وہاں ضمنی الیکشن ہوگا۔
لیکن اگر کوئی شخص اپنی سیاسی ضرورت کی تکمیل کے لیے یا اپنی مقبولیت کا پرچم گاڑنے کے لیے ایک سے زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑتا ہے تو اس صورت میں ضمنی انتخابات کے اخراجات قومی خزانے سے کیوں لیے جائیں؟ اسی شخص سے کیوں نہ لیے جائیں؟
ہمارے ہاں ایک لنگر کھلا ہے۔ کسی کی ڈگری جعلی ثابت ہوتی ہے یا اس کا بیان حلفی جھوٹا نکلتا ہے تو الیکشن کمیشن اسے ڈی سیٹ کر کے وہاں ضمنی الیکشن کروا دیتا ہے۔
تاہم اس سوال پر کوئی غور نہیں کرتا کہ جس شخص کی جعلی ڈگری یا جھوٹے حلف نامے کی وجہ سے پورے حلقے کو ایک بار پھر الیکشن کی مشق سے گزرنا پڑ رہا ہے، اس الیکشن کے اخراجات یا ان کا ایک حصہ تو کم از کم قومی خزانے سے لینے کی بجائے اس شخص سے یا اس کی جماعت سے کیوں نہ وصول کیا جائے۔
انڈیا میں اس نکتے پر قانون سازی ہو چکی ہے اور یہ عمل جاری ہے۔ یہ قانون سازی انڈین الیکشن کمیشن کے مطالبے پر انڈیا کی سپریم کورٹ کے ذریعے ہوئی۔ کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ایسا ہی کوئی مطالبہ پاکستان کا الیکشن کمیشن کیوں نہیں کرتا؟
عوامی شعور کو بروئے کار آنا چاہیے اور آئین میں دی گئی اس گنجائش پر سوال اٹھانے کی ضرروت ہے۔ یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ آئین میں تو تبدیلی نہیں کر سکتا لیکن وہ ایسے معاملات کو کم از کم موضوعِ بحث تو بنا سکتا ہے تاکہ یہ قومی انتخابی بیانیے کا حصہ بن سکیں۔
بشکریہ انڈیپینڈینٹ اردو