تحریر: علی سردار سراج
استعمار کی ایران پر مسلط کی گئی آٹھ سالہ طولانی جنگ، جس میں لاکھوں بے گناہ لوگ لقمہ اجل بن گئے ۔ سینکڑوں عورتیں بیوہ ہوئیں ۔ ہزاروں بچے یتیم ہوئے۔ اور لاکھوں لوگ زخمی اور معذور ہوئے۔
لیکن پھر بھی نہ استعمار نظر آیا اور نہ استعمار کے ایجنٹ ۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اور دیندار طبقہ صدام حسین کو ایک ہیرو ہی سمجھتے رہے اور امریکہ اور یورپ کو تہذیب و تمدن کا مرکز ۔
آباد و خوشحال ملک شام کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا۔
اسلام کے نام پر اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور بین الاقوامی استعمار کے لئے راہیں ہموار کی گئیں، سنی مسلمانوں کی اکثریت سامنے مسلمانوں کی دفاع میں قربانیاں دینے والے محور مقاومت ، بالخصوص ایران اسلامی کو ہی دشمن کے طور پر پیش کیا گیا ۔
کچھ لوگ جو مشکوک تھے ان کو یہ باور کرایا گیا کہ اگرچہ امریکہ کا بھی اس خرابی میں ہاتھ ہے لیکن جان لو کہ ایران ہی ان سے ملا ہوا ہے ۔
عراق کی تباہی پر تو شادیانے بجائے گئے کہ یہاں سے شرک کے آثار( مزارات ائمہ اطہار علیھم السلام ) اور مشرکوں کا خاتمہ ہوگا اور خالص اسلامی( وہابی، تکفیری ) حکومت کا قیام ہوگا ۔
لہذا مجاہدین کی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے جہاد النکاح جیسے فتوے صادر ہوگئے ۔
یمن کی مظلوم قوم کو تو ابرہہ کی فوج بنا کر پیش کیا گیا ۔ کہ جو حرمین شریفین کی تباہی کے لئے کمر بستہ ہے۔
لہذا فوری طور پر چونتیس ممالک کا ایک اتحاد بنایا گیا اور کمانڈ کے لئے ایک سابق پاکستانی فوجی جرنیل کو منتخب کرکے پاکستان کو اعزاز سے نوازا گیا ۔
عام مسلمان یہی سوچتے تھے کہ ٹرمپ کے ساتھ تلوار کا رقص کرنے والے یہ بادشاہ حرمین شریفین کے خادم ہیں اور یہی اسرائیل کو سبق سکھائیں گے۔
کچھ جمہوری مزاج لوگوں کے لئے طیب اردگان کو وقت کا ارتغرل بنا کر پیش کر رہے تھے اور ان کی استعمار کے لئے کی جانے والی خدمات کا صلہ دیا جا رہا تھا ۔
ایران پر اقتصادی پابندیوں جیسے مسائل کی تو بات ہی بیکار ہے جب استحمار شدہ لوگوں کو جنرل قاس م سلی مانی کی شہادت بھی ایران و امریکہ کی باہمی دوستی اور برادری کا شاخسانہ لگے۔
کیوں کہ بہت ہی ہنر کے ساتھ باطل کو حق کے ساتھ ملایا گیا تھا ۔ اور عام لوگ باطل کو دیکھنے سے قاصر تھے ۔
اللہ تعالی نے چاہا کہ باطل کو عریاں کرے تاکہ لوگوں پر حجت تمام ہو۔
کسی کے لئے کوئی عذر کا موقع نہ رہے ۔
اور غزہ کی جنگ نے ان تمام چہروں کو بے نقاب کیا جو چھپے ہوئے تھے ۔
ہزاروں بے گناہ لوگوں کی شہادت اور قربانیوں نے امریکہ اور یورپ کے مکروہ چہرے سے اس طرح میک اپ کو اتار دیا کہ کانے بھی دیکھ سکے۔ اور اس جنگ نے بتا دیا کہ کون باغی ہے اور کون خادم حرمین شریفین؟
فتوے کی فیکٹریاں ایسے خاموش ہیں کہ گویا لبوں کو سی دیا گیا ہے ۔
البتہ اپنے اظہار وجود کے لئے مسلمانوں کے خلاف فتوے دینے کا سلسلہ جاری ہے اور پاراچنار جیسے علاقوں میں اور شاہراہ قراقرم پر دہشت گردی کے واقعات کو کسی صورت ترک نہیں کر سکتے ہیں ۔
چھوٹا سا علاقہ غزہ تیرے درد و رنج کا ادراک اب امکان سے باہر ہے ۔ لیکن تیرا شکریہ کہ تم نے وہ کام کیا جو بظاہر ناممکن نظر آ رہا تھا ۔
تم نے اسرائیل کی بے مائیگی اور درندگی کو عیاں کیا، تم نے استکبار کے مکروہ چہرے سے نقاب کشائی کی، اور سب سے بڑھ کر ان منافقین کو رسوا کیا جو مسلمانوں کے درمیان بیھڑ کے حلیے میں بھیڑیے تھے ۔
بہت ہی چھوٹا اور بہت ہی عظیم غزہ تیرا شکریہ ۔
انشاءاللہ نیا سال واقعا تمہارے لیے ،تمام مسلمانوں اور مستضعفین جہان کے لیے نیا سال ہو۔ جس میں ان بے پناہ زخموں کا مداوا ہو جائے اور یتیم بچوں کی سسکیاں قہقہوں میں بدل جائیں ۔