تحریر: قادر خان یوسفزئی
عام انتخابات کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع درکار ہیں تو اس امر کی تصدیق کی جا رہی ہے کہ اس سے قبل مخصوص جماعتوں کو مبینہ مواقع دیئے گئے، عوام اچھی طرح جانتی ہے کہ کون سی جماعت ان کے مسائل حل کر سکتی ہے لیکن یہاں مسئلہ کچھ اور ہے، مسئلہ یہ ہے کہ پہلے تو انتخابات کرانے کے لئے دھرنے دیئے گئے، پھر عدم اعتماد بھی ہوئی۔ اتحادی حکومت بننے کے بعد اقتدار کی بندر بانٹ ہوئی، سابق صدر زرداری نے گھنٹی میاں شہباز شریف کے گلے میں باندھ دی ور بلاول بھٹو زرداری، تربیت حاصل کرنے کے لئے عالمی دوروں پر جانے لگے انہوں نے جیالوں کے ان تحفظات کا بھی خیال نہ رکھا کہ ملک کے ممکنہ وزیر اعظم بننے والے ان کے چیئرمین کو اس سیاسی جماعت کی قیادت میں کام نہیں کرنا چاہیے جو کل خود بھی وزارت عظمی کے امیدوار ہوں گے۔ دنیا بھر میں انتہائی قابل سفارت کاری میں طویل تجربہ رکھنے والوں کی وزیر خارجہ بنایا جاتا ہے۔ اسی میدان میں امور خارجہ میں نو وارد نوجوان کا وزیر خارجہ بننا س امر کی تقویت دیتا رہا کہ دراصل پاکستان کی خارجہ پالیسی کوئی اور چلاتا ہے اس لئے بلاول بھٹو زرداری کے وزیر خارجہ بننے سے پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
قلیل المدتی حکومت میں اتحادی جماعتوں کو یکساں مواقع ملے اور پی ڈی ایم کی کوئی جماعت فیض یاب ہونے سے باقی نہیں بچی۔ تاہم عوامی نیشنل پارٹی نے شراکت سے انکار کر دیا اور پوری توجہ اپنے معاملات پر مرکوز رکھی، امیر حیدر ہوتی اچھے طرح جانتے تھے کہ اگر انہوں نے کوئی وزارت قبول کرلی تو توقعات پوری نہ ہونے پر سارا ملبہ ان پر گرے گا۔ یہ ان کی سیاسی تدبیر کی اہم نشانی تھی۔ ان کے لئے میدان سیاست میں ہر جگہ کچھ نہ کچھ آزادی ہے وہ پاکستان مسلم لیگ ن سے لے کر اقتدار یا حزب اقتدار کی کسی بھی جماعت کو تنقید کا نشانہ بنا سکتے ہیں جو کہ وہ کر رہے ہیں۔ اب آ جائیں دریا کے دوسرے کنارے جہاں پی ٹی آئی اپنے قائد سے محروم اور عوام سے دور ہونے کی وجہ سے عام انتخابات میں شرکت کے لئے شش و پنج کا شکار ہے، بائیکاٹ کی دھمکیوں (مجبوریوں) سے لے کر ان کی حالت کمزور ہے لیکن زمینی حقائق بر عکس ہیں اور زمینی حقیقت یہ ہے کہ تمام تر نا مساعد حالات کے باوجود پی ٹی آئی کا ووٹر اور سپورٹر آج بھی عمران خان کے ساتھ کھڑا ہے۔ کوئی بھی جماعت چاہے بار بار پریس کانفرنس یا ٹاک شوز میں دوہراتی رہے کہ ووٹر سپورٹ نہیں رہی تو راقم کی ناقص رائے میں ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ عہدے داران کے کسی، دوسری تانگے پارٹی میں جانے سے واضح فرق نہیں پڑا۔ موجودہ صورتحال میں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی اپنے ووٹرز پر گرفت مضبوط ہے، ان حالات میں اگر پی ٹی آئی بائیکاٹ کرتی ہے تو ان کا براہ راست فائدہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کو جائے گا، اور بادی النظر لگتا ہے کہ بائیکاٹ کی سب کی خواہش ہے۔
سندھ کے شہری علاقوں میں بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال ہے اور ایم کیو ایم لندن کی جانب سے بائیکاٹ کی توقع رکھنے والی پی پی پی اور جماعت اسلامی کو فائدہ ملنے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ایم کیو ایم (لندن) کا اس بار غیر متوقع فیصلہ سامنے آیا ہے کہ وہ پتنگ کے نشان کے بغیر آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لیں گے، یہ امر اہم ہے کہ کیوایم پاکستان کے لئے قدرے پریشانی کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ لندن کا تنظیمی ڈھانچہ موجود نہیں، گرفتاری کے ڈر سے عوامی سطح پر سیٹ اپ فی الوقت موجود نہیں، اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ایم کیو ایم پاکستان، در پردہ بانی ایم کیو ایم کے لئے کام کرنے والوں کو کس طرح روک پائے گی یا نگرانی کس طرح کی جا سکتی ہے چونکہ بانی ایم کیوا یم کے ساتھ دیرینہ قربت ان کے حامی مہاجر کی ختم تو بہرحال نہیں ہوئی۔ کسی جرم میں ملوث نہ ہونے والے امیدوار آزادنہ سیاسی سر گرمی میں حصہ لے سکتے ہیں ان کا تمام دارو مدار اس امر پر ہوگا کہ ووٹر تک صرف یہ مصدقہ اطلاع پہنچے کہ فلاں امیدوار بانی ایم کیوایم کا نامزد کردہ ہے اور شنید ہے کہ ایک بار پھر کراچی و حیدر آباد کی تاریخ دوہرائی جا سکتی کہ صف اوّل کی قیادت کی مفروری اور اسیری کے بعد دوسرے درجے کی قیادت سامنے آئی اور یکساں مواقع نہ ملنے کے باوجود سیاسی انقلاب برپا ہو گیا اور جو انتخابی نتائج سامنے آئے اُس نے بڑے بڑے سیاسی شخصیات کو سیاسی میدان میں زمین بوس کردیا۔ قومی اسمبلی سے بائیکاٹ اور صوبائی الیکشن میں حصہ لینے کے اعلان کے بعد سب کچھ بدل گیا اور یہ ایک تاریخی سیاسی حقیقت ہے۔
لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ سب جماعتوں کا ہے اگر ملک کو سیاسی عدم استحکام سے باہر نکالنا ہے تو تمام اداروں کو ایک بار عوام کو بھی موقع دینا جائیے کہ وہ اپنی پسند کی جماعت کو ووٹ دے۔ عوام کا جو بھی لاڈلا ہو اُس کو آگے آنے دیا جائے، 24 کروڑ کی آبادی والے ملک میں من پسند جماعتوں کو نوازنے کا سلسلہ اس بار رک جانا چاہیے کیونکہ کروڑوں ووٹرز غدار نہیں ہو سکتے انہیں دیوار سے نہیں لگایا جاسکتا، سب کوبرین واش بھی نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان کے سر پر بندوق رکھ کر جبراً ووٹ لیا جا سکتا ہے۔ ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ہر پاکستانی کی طرح صرف ایک ہی خواہش ہے کہ ادارے اس امر کو ممکن بنانے کے لئے تمام زور لگائیں کہ آر ٹی ایس سسٹم نہ بیٹھے، ڈبا بھرنے میں آر اوز قانون شکنی نہ کریں، جعلی ٹھپے نہ لگیں، صرف ایک تجربہ ایسا بھی کر لیا جائے کہ سب کو انتخابات میں شرکت کے لئے یکساں مواقع ملیں میڈیا غیر جانبدار نہیں بن سکتا تو ووٹرز کو علم ہو کہ کون سا چینل اپنی پسندیدہ جماعت سے وابستگی کا اظہار کر رہا ہے۔ پھر جتنا چاہے میڈیا ہاؤس اس جماعت کی ترجمانی کریں۔ ایسا کچھ غلط بھی نہیں کیونکہ جہاں جمہوریت مضبوط ہے وہاں میڈیا خود بتا دیتا ہے کہ اس کا رجحان کیا ہے۔ کاش کہ ایسا ہو جائے کہ عوام کو یکساں مواقع ملے کہ وہ فیصلہ کرنے کے ان کے مسائل کو حل کرنے والی کون سی سیاسی جماعت ہے، کوئی کسی کے بائیکاٹ کرنے کا فائدہ نہ اٹھائے، جمہوریت میں بلاشبہ صرف بندے گنے جاتے تو پھر عوام نے جس کے لئے فیصلہ دیا اس اکثریتی جماعت کو چوں چرا کے بغیر تسلیم کرلیا جائے۔