دسمبر 25, 2024

فلسطینیوں کی لاشوں کو بھی قید کی سزا پوری کرنی پڑتی ہے۔ الجزیرہ کا انکشاف

سیاسیات-اسرائیلی جیلوں میں فلسطینیوں کی لاشوں کو بھی قید کی سزا پوری کرنی پڑتی ہے.

اسرائیل کی جانب سے غزہ  پر کی گئی حالیہ جارحیت میں روا رکھا گیا وحشیانہ طرز عمل  نئی بات نہیں، صیہونی فوج کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف  انسانیت  سوز  کارروائیوں کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے، یہاں تک کہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدِ زندگی سے تو رہا ہوجاتے ہیں تاہم ان کی میتوں کو  رہائی نہیں ملتی۔

قابض صیہونی فوج کی جانب سے حالیہ جنگ کے دوران غزہ کے اسپتالوں، اسکولوں، پناہ گزین کیمپوں، ایمبولینسوں، مساجد، گرجا گھروں اور قبرستانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق اسرائیل نے غزہ کی حالیہ جنگ میں شہریوں کا تاریخ کا تیز ترین قتل عام کیا، اسرائیلی فوج کے ہاتھوں 48 دن میں شہید فلسطینیوں کی تعداد امریکا کی 20 سالہ افغان جنگ سے زیادہ ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے 7 ہفتے کے فضائی حملوں میں عراق جنگ کے پہلے ایک سال سے دگنی تعداد میں شہریوں کا قتل کیا، غزہ میں 48 دن میں شہریوں کی ہلاکتیں یوکرین جنگ میں 2 سال کی ہلاکتوں سے بھی زیادہ ہیں۔

یاد رہے کہ 7 اکتوبر سے غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری میں اب تک 14 ہزار 850 سے زائد فلسطینی شہید اور 36 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ میں 4 روز کی عارضی جنگ بندی کا آج تیسرا روز ہے اور دونوں فریقین کی جانب سے معاہدے کے تحت ایک دوسرے کے قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب الجزیرہ نیوز نے صیہونی انتظامیہ کے ایک انتہائی ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک کا انکشاف کیا ہے۔

اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے حقوق کے  حوالے  سے کام کرنے  والے ایک سماجی کارکن  نے بتایا کہ اسرائیل نہ صرف  زندہ فلسطینیوں کو قیدکرتا ہے بلکہ مرنے والوں کو بھی نہیں بخشتا۔

انہوں نے بتایا کہ وہ فلسطینی جو کہ اسرائیلی قید میں تشدد یا بیماری سے انتقال کرجاتے ہیں، ان کی لاشیں لواحقین کے حوالے کرنے یا دفن کرنے کے بجائے ریفریجریٹر میں رکھ دی جاتی ہیں تاکہ بقیہ رہ جانے والی قید کی سزا ان کی لاشیں مکمل کرسکیں،  اب تک 398 فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں انتقال کرچکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف حالیہ کچھ عرصے میں 142 فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں جان کی بازی ہار چکے ہیں جن میں سے اکثریت نوجوانوں اور  بچوں کی ہے، ان کی لاشوں کو سزا پوری کرنے کے لیے ریفریجریٹر میں رکھا گیا ہے تاکہ  لواحقین پر ذہنی تشدد کرکے انہیں اجتماعی سزا دی جاسکے، جب کہ یہ سلوک خصوصی طور پر فلسطینی قیدیوں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے، اسرائیلی یہودیوں کے لیے ایسا کوئی قانون نہیں۔

رپورٹ کے مطابق قابض صیہونی انتظامیہ متعدد فلسطینی قیدیوں کی لاشیں بے نام قرار دے کر انہیں دفن کرچکی ہے اور قبروں پر نام کے بجائے ان کے نمبر رکھےگئے ہیں، ان میں سے بہت سی لاشیں ایسی ہیں جو 40 سال سے زیادہ عرصے سے وہاں موجود ہیں، گزشتہ سالوں میں قابض صیہونی انتظامیہ 260 سے زائد فلسطینی شہدا کو اپنے مخصوص قبرستان میں دفن کرچکی ہے۔

اسرائیلی قابض انتظامیہ کا یہ گھناؤنا جرم سالہاسال سے جاری ہے اور  فلسطینی خاندان ہر سال 27 اگست کو اپنے پیاروں کی لاشیں واپس کرنے کے  مطالبے کا ایک دن  بھی مناتے ہیں۔

خیال رہے کہ جنیوا کنونشن کے تحت  جنگ کے فریقین کو پابند کیا گیا ہےکہ وہ مخالفین کی لاشوں کی باعزت طریقے سے تدفین کریں گے اور جتنا ممکن ہو اس کے مذہب کے مطابق آخری رسومات پر عمل کریں گے، ان کی قبروں  کی مناسب دیکھ بھال کے ساتھ اس طرح کا انتظام کیا جائے گا کہ ان کی ہمیشہ نشاندہی ہوسکے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

twenty − 11 =