نومبر 24, 2024

انتخابات کی پچ تیار، کھلاڑی غائب

تحریر: عاصمہ شیرازی

2024 کے انتخابات عجب ماحول میں ہو رہے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ انتخابات میں تین ماہ رہ گئے ہیں اور تاحال ماحول نہیں بن سکا مضمون کی تفصیل مصنف,عاصمہ شیرازی عہدہ,صحافی و تجزیہ کار 21 نومبر 2023 انکشافات کے موسم میں روایات کسے یاد رہتی ہیں۔ غلام گردشوں میں پلنے والے سیاست کو بھی باندی ہی سمجھتے ہیں جبکہ خواہشات کے طلسمات اخلاقیات کو جکڑ لیتے ہیں کچھ یہی ہماری سیاست، صحافت کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ سچ مانیے! پاکستان کی سیاست میں تاریخ اُلٹے پیروں نظر آتی ہے۔ منیر اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے کہ کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ اشتہار یہ آسیب کا سایہ کسی طور پیچھا نہیں چھوڑ رہا، وقت آگے کی بجائے پیچھے کی طرف چلتا دکھائی دیتا ہے، بار بار لکھے گئے الفاظ تکرار اور اب بازگشت بن چکے ہیں۔ کچھ تو بدل جائے۔۔۔ فائل پر لکھا عنوان، موضوع، تحریر، سکرپٹ، کردار، سٹیج، ہدایت کار، اداکار، فنکار اور یہاں تک کہ فائل پر لپٹی لال ٹیپ۔ 2024 کے انتخابات عجب ماحول میں ہو رہے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ انتخابات میں تین ماہ رہ گئے ہیں اور تاحال ماحول نہیں بن سکا۔ متوازن سیاسی گہما گہمی، مناسب انتخابی فضا اور سازگار حلقہ جاتی پچ عدم دستیاب ہے۔ تحریک انصاف کے بچے کھچے سیاسی کارکن چاہنے کے باوجود کوئی جلسہ تو کُجا سیاسی ریلی تک نہیں نکال سکتے۔ سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ کی یقین دہانی کے باوجود اعتماد حاصل نہیں کر پائیں؟ کیا وجہ ہے کہ ملک میں جلسوں جلوسوں پر بظاہر کوئی پابندی نہیں مگر سیاسی سرگرمیاں ناپید ہیں۔ عام انتخابات کی اصل جگہ عوام اور عوامی حلقے ہیں مگر سیاسی میدان میں نہ ہی امیدوار ہیں اور نہ ہی کارکن۔ عوام اور سیاسی جماعتوں کے درمیان بندھنے والا سماجی معاہدہ تاحال دیکھنے کو نہیں ملا۔ یاد رہے منشور عوام اور سیاسی جماعت کے درمیان براہ راست پیمان ہے جبکہ عوام اور سیاسی رہنماؤں کے درمیان رابطہ اصل جمہوریت۔۔۔ یہاں اب تک دونوں ہی غائب ہیں۔ اعتماد کی فضا سپریم کورٹ کے احکامات سے نہیں بلکہ سیاسی اجتماعات سے بنتی ہے، ایسا اب تک کیوں نہیں ہو پا رہا؟ 2007 کے انتخابات میں تقریباً تمام سیاسی جماعتیں انتخابی محاذ پر خیمہ زن تھیں۔ بدترین دہشت گردی اور امن و امان کے سنگین حالات کے باوجود سیاسی جماعتیں منشور اور پروگرام کے ساتھ عوام سے رابطے میں تھیں۔ عوام کٹھن حالات کے باوجود جلسوں، جلوسوں کی زینت تھے، نغمے تھے، نعرے تھے، جوش تھا۔ بے نظیر بھٹو اکتوبر 2007 میں آئیں تو اُن کے پیچھے پیچھے میاں نواز شریف بھی وطن واپس تشریف لے آئے، سیاسی مخاصمت تھی مگر میثاق جمہوریت کا تازہ پیوند بھی تار تار جمہوریت کے دامن کو جوڑ رہا تھا۔ ایک دوسرے کے خلاف نعرے تھے مگر ایجنڈے اور پروگرام کا مقابلہ بھی تھا، منشور اور ترقی کے سفر کے وعدے، دہشت گردی کے خاتمے کے اعلانات، جمہوریت کی مضبوطی، آمریت کے خاتمے کی جدوجہد کا رنگ بھی غالب تھا۔  بے نظیر بھٹو اکتوبر2007 میں آئیں تو اُن کے پیچھے پیچھے میاں نواز شریف بھی وطن واپس تشریف لے آئے، سیاسی مخاصمت تھی مگر میثاق جمہوریت کا تازہ پیوند بھی تار تار جمہوریت کے دامن کو جوڑ رہا تھا سیاست یوں تلخ نہ تھی جس طرح اب کڑواہٹ کا عنصر لیے ہوئے ہے۔ بے نظیر بھٹو کی موت سے سیاسی سرگرمیاں ماند پڑیں مگر پیپلز پارٹی نے سیاسی سوگ کے باوجود انتخابات کو آگے بڑھایا اور ن لیگ ہم قدم ہوئی۔ سیاست جیتی اور منظر نامہ بدلا۔ انتخابات کے بعد ایک حکومت تشکیل پائی جس کا حصہ نون لیگ بھی تھی۔ اٹھارہویں ترمیم کا مرحلہ درپیش تھا اور سیاسی قیادت سر جوڑ کر بیٹھ گئی، وہ ہوا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کا کانٹا اسٹیبلشمینٹ کے سینے سے تا حال نہیں نکلا۔ اٹھارہویں ترمیم محض ایک ترمیم نہ تھی بلکہ ایک سیاسی اور جمہوری کتاب کا اہم باب تھی۔ آئین جُڑا، ادھڑا ہوا نظام جُڑا، اور اس طرح ریاست جُڑی اب بھی اگر کوئی سیاسی جماعت اٹھارویں ترمیم میں تبدیلی کو سیاسی جیت سے مشروط کرے گی تو دراصل شکست خوردہ ہی کہلائے گی۔ اٹھارہویں ترمیم سے متعلق ن لیگ کے منشور پر جن خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے اگر وہ درست ہیں تو گویا ن لیگ کی ’پچھل پیری‘ سیاست کا پھر سے آغاز ہے تاہم عرفان صدیقی صاحب اس کی تردید کر چکے ہیں، بہتر ہو کہ ن لیگ کے قائد اس معاملے میں وضاحت کریں۔مقتدرہ کا قُرب اقتدار سے قریب تو کر سکتا ہے لیکن عوام سے دوریاں پیدا کرے گا، چور دروازے کی سیاست کسی طور عوامی اور جمہوری اطوار کے لیے سودمند نہیں۔ بہر طور سیاست کے ایوانوں میں مفادات کے سودے میں عوام کہیں بہت بعد میں آتے ہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ عام انتخابات کے شفاف انعقاد اور اس کے معتبر ہونے کے لیے کیا کیا جائے کہ انتخابات کے بعد الزامات کا نہ تھمنے والا سلسلہ اور احتجاج کی کوئی نئی سکیم نہ متعارف ہو جائے؟ یہ ذمہ داری ریاست اور اداروں کی ہو گی کہ انتخابات کی شفافیت پر اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب دیا جائے جبکہ پہلے مرحلے میں انتخابات کے شیڈول کے ساتھ ہی تمام سیاسی جماعتوں کی آزاد انتخابی مہم یقینی بنائی جائے۔ سیاسی سرگرمیوں کے لیے یکساں فضا مہیا ہو جبکہ انتخابات کے بعد سیاسی جماعتیں آزادانہ اتحاد کر پائیں۔ سیاست میں اسٹیبلشمینٹ کی عدم مداخلت کا دیکھا جانے والا خواب تعبیر کی منزل تب پائے گا جب سیاستدان اُس کندھے کا استعمال چھوڑیں گے اور کندھا بھی خود کو سیاسی بیساکھی کے طور پر استعمال نہ کرنے دے گا۔ یہ خواب یوں تو پورا نہ ہو گا کہ بند کمروں میں انتخابی قلعے فتح کر لیے جائیں اور عوام کو محض ٹی وی سکرینوں پر ہی دیکھ لیا جائے۔

 

بشکریہ بی بی سی اردو

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

seven + thirteen =