تحریر: وسعت اللہ خان
تجارت و ترقی سے متعلق اقوامِ متحدہ کی مستقل کانفرنس ( انکٹاڈ ) کے دو ہزار انیس کے ارضیاتی سروے کے مطابق مشرقی بحیرہ روم میں لبنان، اسرائیل ، غزہ اور مصر کی سمندری حدود میں ایک سو بائیس ٹریلین کیوبک فٹ گیس کے ذخائر موجود ہیں اور ان کی موجودہ پیداواری مالیت ساڑھے پانچ سو ارب ڈالر سے زائد ہے۔
غزہ کی سمندری حدود میں گیس کے ذخائر کا تخمینہ ایک اعشاریہ چار ٹریلین کیوبک فٹ لگایا گیا جس سے فلسطینی اتھارٹی کو ساڑھے چار ارب ڈالر کی آمدنی ہو سکتی ہے اور اس آمدنی سے غزہ کی اقتصادی حالت پلٹ سکتی ہے جہاں سات اکتوبر سے پہلے ہی بے روزگاری کا تناسب ساٹھ فیصد سے زائد تھا ۔
جب کہ گزشتہ سترہ برس کی اسرائیلی ناکہ بندی کے سبب پانی ، بجلی ، غذا ، ایندھن سمیت کچھ بھی اسرائیل کی مرضی کے بغیر تئیس لاکھ فلسطینیوں پر مشتمل اس جیل میں داخل نہیں ہو سکتا۔جنگ سے پہلے غزہ میں غربت کی سطح چالیس فیصد کے لگ بھگ تھی جو جنگ کے پہلے چار ہفتے میں دگنی ہو چکی ہے۔
اس تناظر میں اگر مغربی کنارے اور غزہ کے قدرتی وسائل کی اہمیت و مالیت کا جائزہ لیا جائے تو سمجھ میں آ جائے گا کہ اسرائیل کو یہ سرزمین ہر قیمت پر کیوں درکار ہے۔بھلے اس کے لیے تمام فلسطینی ہی کیوں نہ ختم یا دربدر کرنا پڑیں۔
اسرائیل اور تنظیم آزادیِ فلسطین کے درمیان امریکی سہولت کاری کے نتیجے میں انیس سو پچانوے میں ہونے والے اوسلو سمجھوتے کی ایک شق یہ بھی تھی کہ فلسطینی انتظامیہ کو اپنے زیرِ اختیار علاقوں اور بیس ناٹیکل میل کی سمندری حدود میں قدرتی وسائل اور معدنیات پر بھی مکمل تصرف ہو گا۔
چنانچہ جب انیس سو نوے کی دہائی میں یہ معلوم ہوا کہ مشرقی بحیرہ روم کے ساحلی ممالک کتنے بڑے زیرِآب قدرتی خزانے پر بیٹھے ہوئے ہیں تو فلسطینی اتھارٹی نے غزہ کی ساحلی حدود میں گیس کی تلاش اور پیداوار سے متعلق برٹش گیس کنسورشیئم کو پچیس برس کے لیے نوے فیصد حقوق کا لائسنس عطا کر دیا۔
برٹش گیس نے زیرِ آب دو مقامات پر ڈرلنگ کی اور اندازہ لگایا کہ چونکہ غزہ کی سمندری حدود میں پائے جانے والے گیس کے ذخائر نسبتاً کم گہرائی میں ہیں لہٰذا انھیں دیگر ذخائر کی نسبت تیزی سے ترقی دی جا سکتی ہے۔
فلسطینی اتھارٹی نے دو ہزار دو میں برٹش گیس کے اس منصوبے کی منظوری دے دی کہ گیس کے ذخائر سے ساحل تک ایک زیرِ آب پائپ لائن بچھا کے غزہ میں اس گیس کی پروسیسنگ کی جائے۔
تاہم اسرائیل نے شرط عائد کر دی کہ یہ منصوبہ تب ہی آگے بڑھ سکتا ہے جب پائپ لائن ایک اسرائیلی بندرگاہ کے راستے غزہ تک پہنچائی جائے اور گیس کی جتنی بھی پیداوار ہو غزہ کی مقامی ضروریات پوری کرنے کے بعد اسے اسرائیل کو فروخت کیا جائے اور وہ بھی بین الاقوامی قیمت سے نصف پر۔
جب دو ہزار سات میں غزہ میں حماس برسرِاقتدار آئی تو اسرائیل نے علاقے کی بری ، فضائی اور بحری ناکہ بندی کر دی اور غزہ جانے والی سوئی تک کو اپنی نگرانی میں لے لیا۔چنانچہ آف شور ڈرلنگ پر بھی کام رک گیا۔اگلے برس اسرائیل نے انتہائی ڈھٹائی سے اعلان کیا کہ غزہ کی سمندری حدود میں پائے جانے والے گیس ذخائر میں وہ بھی فریق ہے۔ان حالات میں برٹش گیس کنسورشیئم نے بوریا بستر لپیٹ کر تل ابیب کا دفتر بند کر دیا۔
دو ہزار سولہ میں رائل ڈچ شیل نے غزہ میرین گیس فیلڈز کے شئیرز برٹش گیس سے باون ملین ڈالر میں خرید لیے۔مگر دو ہزار اٹھارہ میں شیل نے بھی اسرائیلی دباؤ میں آ کر فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ اپنا سمجھوتہ ختم کر دیا۔تب سے یہ معاملہ معلق ہے۔
حالانکہ مشرقی بحیرہ روم میں گیس کے دریافت شدہ خزانے کا ایک بڑا حصہ ( بائیس ٹریلین مکعب فٹ ) خود اسرائیل کی سمندری حدود کے لیویتھان آف شور گیس فیلڈ میں موجود ہے جو اگلے چالیس برس کے لیے اسرائیل کی توانائی ضروریات پوری کرنے کے نہ صرف قابل ہے بلکہ مصر بھی یہ گیس خرید رہا ہے اور یوکرین روس مناقشے کے بعد یورپی یونین بھی بذریعہ پائپ لائن یہ گیس خریدنا چاہ رہی ہے۔
اس بابت گزشتہ برس ہی امریکی آئل اینڈ گیس کمپنی شیورون ، اسرائیل اور یورپی یونین کے درمیان رسمی یادداشت کا تبادلہ ہو چکا ہے۔
مگر سات اکتوبر سے جاری حماس اور اسرائیل مناقشے اور غزہ کو بالاخر تئیس لاکھ فلسطینوں سے پاک کر کے انھیں مصر کی جانب صحراِ سینا میں دھکیلنے کا صیہونی منصوبہ سامنے آنے کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل غزہ کے تمام معدنی و قدرتی وسائل ہڑپ کرنے پر بھی کمر بستہ ہے۔
ثبوت یہ ہے کہ عین لڑائی کے دوران تیس اکتوبر کو اسرائیل نے برٹش پٹرولیم اور اطالوی کمپنی ای این آئی سمیت تیل اور گیس کے کاروبار سے متعلق چھ عالمی کمپنیوں کو بارہ لائسنس جاری کر دیے ہیں۔
غربِ اردن میں فلسطینی اتھارٹی کے کنٹرول والے علاقوں میں مگید آئل اینڈ گیس فیلڈ پر بھی اسرائیل کا کنٹرول ہے کیونکہ یہ ذخیرہ غربِ اردن کے ایریا سی میں واقع ہے جسے اسرائیل نے اوسلو سمجھوتے کے تحت اپنی سلامتی کے بہانے مکمل فوجی کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔
اگر مستقبل میں کوئی آزاد فلسطینی ریاست بنتی بھی ہے تب بھی وہ ان وسائل کو اپنے فائدے کے لیے اسرائیل کی مرضی کے بغیر استعمال نہیں کر پائے گی۔
اس وقت بھی فلسطینی اتھارٹی کا بجٹ اور محصولات و کسٹمز ڈیوٹی کی آمدنی اسرائیل جمع کر کے فلسطینی اتھارٹی کو دیتا ہے۔مگر اقوامِ متحدہ کے ادارے انکٹاڈ کا کہنا ہے کہ دو ہزار سات سے دو ہزار سترہ کے درمیان اسرائیل نے ٹیکسوں اور محصولات کی مد میں ساڑھے چار ارب ڈالر فراہم کیے اور اڑتالیس ارب ڈالر غتر بود کر لیے۔
اگر سات اکتوبر نہ بھی ہوتا تب بھی غزہ کے مچھیرے اپنے ہی سمندر میں اسرائیل کی اجازت کے بغیر ماہی گیری نہیں کر سکتے تھے۔اب ایسا لگتا ہے کہ مچھلیاں تو رہیں گی ، ماہی گیر جانے رہیں نہ رہیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس