تحریر: قادر خان یوسفزئی
سیاست کے پیچیدہ کھیل میں اکثر خاموشی ایک سٹریٹجک اقدام ہوتا ہے اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اس فن میں مہارت حاصل کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا خاموش برتائو صرف ایک عمل نہیں بلکہ یہ ایک حسابی پیغام ہے جو اپنی ایک زبان رکھتا ہے، جو ایک اہم سیاسی قیمت کے ساتھ آ سکتا ہے۔ جیسے جیسے پنجاب میں سیاسی منظر نامہ تیار ہو رہا ہے، پیپلز پارٹی کو ایک نازک چیلنج کا سامنا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے ساتھ انتخابی اتحاد بنانے کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں تاہم اس کا امکان بہت کم ہے، پنجاب میں پیپلز پارٹی کی غیر حاضری ایک ایسا کارڈ پیش کر رہا ہے جو ممکنہ طور پر خطے کی سیاسی حرکیات کو نئی شکل دے سکتا ہے۔ تاہم عمران خان کی جانب سے اس طرح کے اتحاد کی قبولیت ایک بعید اور غیر امکانی منظر ہے۔ اس لیے پیپلز پارٹی خود کو ایک سٹریٹجک مخمصے میں پاتی ہے اور اس نے ’ دیکھو اور انتظار کرو‘ کا طریقہ اختیار کیا ہے۔
یہ سٹریٹجک تحمل محض ایک غیر فعال موقف نہیں بلکہ سیاسی رکاوٹوں کے پیچیدہ جال کا ایک اہم جواب ہے۔ ان رکاوٹوں کی وجہ سے ’ روایتی الیکٹیبلز‘ کی ایک بار گھونسلوں کی تبدیلی سے پی پی پی کی حکمت عملی میں ایک قابل ذکر تبدیلی پیدا ہوسکتی ہے۔ یہ الیکٹیبلز، جو کبھی پاکستان میں سیاسی استحکام کی بنیاد تھے، سیاسی چال کے تحت حکمت عملی کے ساتھ نظر انداز ہیں۔ تاہم، پی پی پی کی حقیقی سیاست یہ تسلیم کرتی ہے کہ جن حلقوں میں الیکٹیبلز کا خاصا اثر و رسوخ ہے، وہاں نظریہ ضرورت اب بھی عمل میں آ سکتا ہے۔ تحریک انصاف نے اس سے قبل اس سیاسی حکمت عملی کا فائدہ اٹھایا تھا، اور اہم حلقوں میں مضبوط الیکٹیبلز کا فائدہ اٹھا کر فتوحات حاصل کی تھیں۔ اس کے بعد سیاسی ’ تبدیلی‘ کے ساتھ بننے والی مخلوط حکومت بمشکل ساڑھے تین سال تک نہ چل سکی۔ اس تاریخ سے سبق حاصل کرنے والی پی پی پی نے کوئی فیصلہ کن اقدام کرنے سے پہلے انتظار کا کھیل کھیل رہی ہے ۔
پاکستانی سیاست کے بدلتے ہوئے منظر نامے میں، تحریک انصاف کے ٹوٹنے اور عمران خان کی غیر موجودگی نے بھی ایک سٹریٹجک کھیل کا میدان کھول دیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اس سیاسی خلا کو سیاسی تھیٹر میں اپنے غلبہ کو دوبارہ قائم کرنے کے سنہری موقع کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ تاہم، اصل سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی، جو اب اندرونی ٹوٹ پھوٹ اور اپنے کرشماتی رہنما کی عدم موجودگی کا سامنا کر رہی ہے، حلقہ کی سیاست میں اپنا مضبوط گڑھ برقرار رکھ سکتی ہے، وسائل کو متحرک کر سکتی ہے اور الیکشن کے اہم دن اپنی مضبوط موجودگی کو یقینی بنا سکتی ہے۔ پی ٹی آئی، جو کبھی اپنے متحرک اور پرجوش کیڈر کی تعریف کی جاتی تھی، اب اسے ایک زبردست چیلنج کا سامنا ہے۔ اندرونی اختلافات کے نتیجے میں انتخابی کھلاڑیوں کو میدان میں اتارنے، نچلی سطح کے کارکنوں کو متحرک کرنے، اور مسابقتی انتخابی مہم کے لیے ضروری وسائل کو محفوظ بنانے کی پارٹی کی صلاحیت کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ایک کرشماتی شخصیت کے سربراہ عمران خان کی عدم موجودگی جو پی ٹی آئی کا چہرہ ہے، پارٹی کی سیاسی حرکیات کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ عمران خان کی عدم موجودگی سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس سے پارٹی کی ہم آہنگی اور ووٹرز کو متحرک کرنے کی اس کی صلاحیت کے بارے میں تشویش پیدا ہوتی ہے۔
حلقہ بندیوں کی سیاست، جو اکثر کامیاب انتخابی مہموں کی جان ہوتی ہے، ایک منظم میدانی اور یکساں مواقع کا مطالبہ کرتی ہے۔ پی ایم ایل ( ن)، پی ٹی آئی کی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے، حکمت عملی کے ساتھ نئی پوزیشن میں ہے۔ پی ٹی آئی کے لیے اصل امتحان اس ہنگامہ خیز دور میں گھومنے پھرنے، اپنی جماعت کو دوبارہ منظم کرنے اور اپنے مخالفین کے لیے ایک قابل اعتبار چیلنج دینے کی صلاحیت میں مضمر ہے۔ پنجاب میں آئندہ انتخابات صرف مسلم لیگ ( ن) کے اقتدار میں واپسی کے خواہاں نہیں بلکہ وہ عمران خان کی سیاست کو ختم یا کم کرنا بھی چاہتے ہیں۔ عمران خان کی موجودگی، انتخابی ٹکٹوں کی تزویراتی تقسیم کے ساتھ، پنجاب کی سیاست میں جوش و خروش کے انجیکشن لگانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ تاہم، اہم عنصر یہ ہوگا کہ کیا پی ٹی آئی اندرونی ہلچل کے باوجود اپنی انتخابی مشینری اور سیاسی رفتار کو برقرار رکھ سکتی ہے۔
سیاسی بساط کھلتے ہی خاموش حکمت عملی ساز آصف علی زرداری گہری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کی خاموش خاموشی پنجاب کی سیاست کے اگلے باب کی کنجی رکھ سکتی ہے۔ اگر پی ٹی آئی عام انتخابات کا حصہ بن جاتی ہے تو زرداری کی پیپلز پارٹی سیاسی خزانے کا زیادہ بڑا حصہ حاصل کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ آئندہ انتخابات نہ صرف سیاسی کھلاڑیوں کی قسمت کا تعین کریں گے بلکہ یہ بھی ظاہر کریں گے کہ پی ٹی آئی کے اندرونی چیلنجز ن لیگ کے لیے موقع بنتے ہیں یا پیپلز پارٹی کے لیے دوبارہ سر اٹھانے کا موقع۔ پنجاب میں سیاسی ڈرامہ اپنے عروج پر ہے، اور دائو کب کیا کروٹ بدلے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔
آصف علی زرداری کی خاموشی محض الفاظ کی عدم موجودگی نہیں بلکہ سیاسی غور و فکر کا دانستہ عمل تصور کیا جارہا ہے۔ یہ پنجاب کی سیاست کی پیچیدہ بساط پر تشریف لے جانے کی تیاری کی نشاندہی کرتا ہے، جہاں ہر اقدام کے ممکنہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں سیاسی منظرنامہ گواہی دے گا کہ آیا یہ ’ دیکھو اور انتظار کرو‘ کی حکمت عملی پیپلز پارٹی کے لیے ماسٹر سٹروک ثابت ہوتی ہے یا ایک حسابی خطرہ۔ شطرنج کا خاموش مقابلہ جاری ہے، اور سیاسی سامعین اس بلند و بالا کھیل کے اگلے اقدام کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔