تحریر: علی سردار سراج
کسی بھی شئی کا ایک فلسفہ وجود ہوتا ہے ۔ جب تک یہ فلسفہ،یہ حکمت اور راز اس کے اندر باقی ہو اس کو بقا کا حق حاصل ہے ۔
لیکن اگر وہ اپنے فلسفہ وجودی کو کھو دے تو اس کی بقا بھی بے معنی ہے ۔
ریاست اور حکومت کا بنیادی فلسفہ وجود یہ ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی جان مال اور ناموس کا تحفظ کرے۔
ظالم کو ظلم سے روکے اور مظلوم کی داد رسی کرے ۔
اس کے علاوہ ہر ملک اور ریاست اپنے ملک کے شہریوں کے لئے جداگانہ بھی ایک منشور کا اعلان کرتی ہے جو حقیقت میں ریاست اور عوام کے درمیان ایک معاہدے کی حثیت رکھتا ہے ۔ اس پر پابندی بھی اس ریاست کی ذمہ داری ہے ۔
▪️اس مختصر مقدمے کے بعد سوال یہ ہے کہ کیا ریاست پاکستان اپنے فلسفہ وجودی پر باقی ہے؟؟؟
کیا اس ملک میں رہنے والے لوگ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں؟ کیا یہاں پر قانون کی بالادستی ہے؟
بالخصوص کیوں یہاں پر مذہبی اور مسلکی اختلاف کی بنیاد پر لوگوں کے حقوق سلب ہو رہے ہیں؟
▪️ملت تشیع پاکستان کو پچھلے کئی عشروں سے ایک نا نوشتہ اور غیر مرئی قانون کے تحت دیوار سے لگایا جا رہا ہے ۔
ٹارگٹ کلنگ، افراد برجستہ اور عادی کو گم شدہ کرنا،مذہبی آزادیوں پر قدغن اور جھوٹے مقدمات کے ذریعے تکلیف و آزار پہنچانا معمول بن گیا ہے ۔
▪️ایک مہینے سے اوپر ہوگیا، اسلام آباد سے محض 570 کلومیٹر کے فاصلے پر کرم ایجنسی کا دارلحکومت پاراچنار، تکفیریوں کے محاصرے میں ہے۔
دنیا سے تمام مواصلاتی رابطے منقطع ہیں، شواہد یہ بتا رہے ہیں کہ افغان طالبان باقاعدہ اس جنگ میں شامل ہیں ۔
ایسے میں ریاست پاکستان ٹس سے مس نہیں ہے ۔
لگتا ایسا ہے کہ گویا پاراچنار پاکستان میں ہے ہی نہیں، یا پاراچنار والوں نے خدا ناخواستہ ریاست کے خلاف کوئی رٹ قائم کی ہے۔
▪️اس ساری صورتحال میں جو چیز سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے، وہ کھا جانے والا سکوت اور بے لذت تماشا ہے۔
پاراچنار کے مسئلے میں میڈیا اور حکومتی سردمہری کسی حد تک غیر متوقع نہیں ہے ۔ کیونکہ زر و زور پر سننے والے کان اور بولنے والی زبانیں، زر و زور کے مقابلے میں صم، بکم ہو جاتی ہیں ۔
▪️لیکن سوال یہ ہے کہ شیعہ قوم اور قیادت جو مسئلہ غزہ پر پیش پیش ہیں، پاراچنار کے ظلم پر خاموش کیوں ہیں؟
دنوں اور مہینوں جاری رہنے والی جنگ کے اثرات سالوں باقی رہتے ہیں ۔
کئی بچے یتیم ہونگے اور کئی عورتیں بیوہ کون ان کی کفالت کرے گا؟؟
پاراچنار کے لئے ایک توانا آواز وقت کی ضرورت ہے ۔