نومبر 23, 2024

نظام امامت کا قرآنی جواز

تحریر: رستم عباس

(چھٹا حصہ)

اللّہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتاہے۔

ان الذین یقطعون ما امراللہ بہ ایصل و یفسدون فی الارض وجعل العن اللّہ و لعن الملائکہ اجمعین۔

جو لوگ اس تعلق کو توڑتے ہیں جس کو اللّٰہ نے قائم رکھنے کا حکم دیا ہے اور زمین پر فساد کرتے ہیں۔ان پر اللّہ کی اور تمام ملائکہ کی لعنت ہے۔

انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو اپنی ذات اور طبیت میں سوشل ہےمعاشرتی ہے۔بلکہ اس کرہ ارض میں بسنے والے تمام جاندار ہی اجتماعی زندگی گزارتے ہیں۔حیوانات گروہ اور جھتے کی صورت میں رہتے ہیں۔اور انسان ایک معاشرے میں ایک خاندان میں باہم منسلک ہوکر ایک دوسرے پر انحصار کرکے ایک دوسرے وسیلہ و زریعہ بن کے رہتے ہیں۔

عام طور پر انسان اور حیوان ایک قانون کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔دونوں مخلوقات ایک ہی تھیوری پر عمل کرتے ہیں کہ جہاں مفاد نظر آتا ہے اس سے جڑتے ہیں اس کے قریب ہوتے ہیں۔اس سے تعلق واسطہ بناتے ہیں۔

یہ رویہ یہ قانون حیوانی زندگی کے لیے تو بلکل درست ہے۔ لیکن انسانی زندگی کے لیے اصل زندگی کے لیے درست نہیں ہے۔ہم انسانی زندگی اور حیوانی زندگی کی تفصیل پہلے بیان کر چکے ہیں۔

انسان کے متعلق جو آفاقی و خدائی نظریہ ہے۔اس کے تحت انسان پابند ہے۔ان ضابطوں اور اصولوں کا جو اس ساری ہستی کے خالق نے انسان کی انسانی اور حیوانی زندگی کی فلاح کے لیے بنائے ہیں۔زیر بحث سورہ بقرہ کی آیت میں اللہ نے انسان کو خبرار کیا ہے کہ جس تعلق کو قائم رکھنے کا حکم ہم نے دیاہے اس کو آپ نے قائم رکھنا ہے ورنہ قتل غارت اور لعنت خدا کے لیے خود کو تیار کرلو۔

اللّہ تعالیٰ نے کن رابطوں اور تعلقات کو جوڑنے کا حکم دیا ہے۔؟؟

1..خدا رسول اور صاحبان امر سے رابطہ۔

2..صلح رحمی

3..مومینین سے تعلق اور رابطہ

یہ تین طرح کے تعلق خدا نے بتائے ہیں کہ ان سے جڑے رہنا ہے۔

صلح رحمی۔۔۔۔۔ سے مراد ایک مواحد کواپنے والدین سے اور والدین سے قریب خونی رشتوں سے تعلق جوڑ کے رکھنا ہے۔ان سے تعلق ہرگز نہیں کاٹنا ورنہ فساد اور لعنت خدا کا مستحق ہو جائیں گے۔

امت سے مومنین سے اخوت کا رشتہ۔۔۔۔۔

دوسرا رشتہ مومینین کا آپس میں تعلق ہے یہ دوسرا واجب رشتہ ہے جس کو مومن نے ہر حال میں قائم رکھنا ہے۔روایات میں ہے کہ کوئی مومن 3,دن سے زیادہ اپنے برادر ایمانی سے دور نہیں رہ سکتا۔حرام ہے قطع تعلق بلمومینین ۔

تیسرا سب سے اہم تعلق ایک مومن کا اپنے خدا رسول اور صاحبان امر سے تعلق ہے جس کو خدا نے واجب قرار دیا ہے کہ اس تعلق کو اگر قائم نہ رکھا تو

آپ خود سوچیں پیچھے باقی کیا بچتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے تعلق کو اتنا مضبوط بنایا ہے کہ حکم ہےکہ دن میں پانج مرتبہ ملاقات کرنی ہے۔

اور اگر ایک وقت بھی جان بوجھ کر خدا سے ملاقات نہ کی تو جہنم کا وعدہ کیا گیا ہے۔

دوسرا اسی سے مربوط تعلق رسول اور صاحبان امر سے ہے جس کو ہر حال میں قائم رکھنا ہے۔جہاں تک رسول صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کی بات ہے وہ عہد رسول میں تو خود رسول سے براہِ راست منسلک ہونا تھا۔یعنی ایمان بر رسالت اور ہمنشینی پیغمبر ۔لیکن بعد میں آنے والوں کے لیے یہ رشتہ یہ تعلق گڑ بڑ کا شکار ہوگیا ہے۔صاحبان امر پر امت میں شدید اختلاف پیدا ہوا ہے۔جس کی وجہ سے یہ نام کے مسلمان فرقوں میں بٹ چکے ہیں۔ہم یہاں رسول دوعالم کی ایک حدیث نقل کرتے ہیں جو قرآن کی اس آیت کی تفسیر کرتی ہے جسے سنی شیعہ سب مانتے ہیں۔

آپ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں۔ایک کتاب اللہ اور دوسری میری عترت جو میری اہل بیت ہے اگر تم ان دونوں سے جڑے رہے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے حتی میں حوض کوثر پر تمہارا استقبال کروں گا۔

رسول خدا نے بتا دیا کہ میرے بعد تمہارے تمام تعلقات کی بنیاد یہ دو ثقل ہیں۔اگر تم نے میرے اہل بیت سے تعلق جوڑا تو کبھی گھاٹے میں نہیں رہو گے۔

لیکن امت نے کیا کیا اہل بیت کو چھوڑ کر خود اپنی مرضی سے حاکم وامام چنا جس کا نتیجہ قرآن نے پہلے بتا دیا تھا۔

یفسدون فی الارض لعنت اللہ

آپ دیکھ لیں امت نے جب علی کو حاکم نہیں بنایا تو کیا ہوا۔یہ اقتدار کے بھوکے پہلے اہل بیت پر بل پڑے بنوامیہ نے آل رسول کو قتل کیا پھر بنو امیہ کو بنو عباس نے تباہ وبرباد کیا ذلت سے مار مار کے اقتدار چھینا۔بنو عباس کو قتل کرکے فاطمی اگئے۔فاطمیوں کو قتل کر کے عثمانی قابض ہوگئے۔عثمانیوں کو ذلیل ورسوا کرکے آج امریکہ برطانیہ حاکم ہیں۔

میں آج کے دور کے شیعوں سے پوچھتا ہوں کہ انہوں نے آج کس طرح اہل بیت سے تمسک رکھا ہے؟؟۔کیوں کہ حدیث کے الفاظ ہیں

لن تضلو بعدی ابدا

کبھی گمراہ نہیں ہوں گے تاابد۔

اہل بیت سے تمسک اس وقت ہوسکتا ہے جب ہم امام کی امامت کے قائل ہوں امام کو حاکم مانیں اور غیبت کبریٰ امام مہدی میں ان کے جانشینوں سے متمسک رہیں۔نظام امامت کے تحت زندگی گزاریں۔اگر ایسا نہیں کریں گے تو آپ نتائج خود دیکھ رہے ہیں۔

قتل غارت تو ایک معمول بن چکا ہے۔

اور لعنت خدا یعنی رحمت سے دوری مقدر بن چکا ہے۔اپ دیکھ لیں آج مسلمان بلعموم اور شیعیان پاکستان بالخصوص کس طرح محرومیت کا شکار ہیں۔اس ملک میں۔ اور لعنت کیا ہوگی کہ زرعی ملک ہے آٹا دال چینی ٹماٹر گھی عام آدمی کی پہنچ سے کوسوں دور ہوچکا ہے۔دہشت گردی فرقہ واریت زوروں پر ہے۔

آپ بتائیں پاکستان کے شیعہ۔کیا عمران خان آصف زرداری نواز شریف یہ اہل بیت رسول ہیں۔؟؟؟

اگر نہیں ہیں تو پھر کیوں ان سے تعلق جوڑا ہے اور امامت سے رشتہ توڑا ہے۔اہل بیت سے امامت سے رشتہ تاابد قائم رکھنے کا حکم ہے۔

آپ نے امام مہدی سے تعلق کس طرح قائم رکھا ہوا ہے؟؟۔کیا آپ کے ملک میں نظام امام مہدی رائج ہے؟؟کیا آپ امام مہدی کے ظہور کے لیے کوئی اقدام کر رہے ہیں؟؟؟ہر امام کو حکمرانوں نے اذیت دے کر قتل کیا ہے اور یہ سب غیر قانونی غیر شرعی حاکم تھے۔کیا آپ نے ان ظالم حکمرانوں اور ظالم نظام حکومت کے خاتمے کے لیے اپنے رہبر کی مدد کی ہے؟؟اگر نہیں کی تو لعنت خدا اور فساد کا شکار ہیں۔اگر چہ شعور نہیں دکھتے۔..

شہید حسینی کے بعد تو حالات ایسے تھے۔کہ عام عوام کے لیے کوئی آپشن نہیں تھا۔لیکن اب ایک عالم باعمل آپ کو بھولا ہوا توڑا ہوا رشتہ یاد دلا رہا ہے نظام امامت کی طرف بلا رہا ہے۔اگر امامت سے کوئی رشتہ ہے تو واپس آجاؤ۔امامت سے رشتہ توڑ کر طاغوت سے ناطہ جوڑ کر آپ کبھی فلاح نہیں پاسکیں گے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

4 × one =