تحریر: سید خاور عباس
بعض احباب راقم کے حوالے سے غلط فہمی کا شکار ہیں اور مجھے کسی گروہ کا حامی تصور کرتے ہیں جبکہ ہم خود ان کی نسبت بھی بڑی عقیدت رکھتے ہیں، ان کے بے جا الزام سے ممکن ہے ہماری باتوں کو کسی خاص سمت کی ہدایت سمجھا جائے۔ اس لیے یہ وضاحت دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نہ ہی کسی تنظیم کا حصہ ہوں اور نہ ہی یہ مندرجات کسی تنظیم سے حاصل کردہ اطلاعات کا نتیجہ ہیں بلکہ موجودہ حالات میں مختلف صاحبان رائے سے بحث اور گفتگو کے بعد ان نتائج تک پہنچا ہوں۔ متنازع ترمیمی بل میری نگاہ میں قوم شیعہ کے لیے اللہ کی جانب سے ایک تحفہ اور اس آیۃ کریمہ وَعَسٰٓى اَنْ تَكْـرَهُوْا شَيْئًا وَّهُوَ خَيْـرٌ لَّكُمْ کا مصداق تھا، اس حوالے سے گزشتہ تحریروں میں گاہے بگاہے عرائض پیش کرتا رہا ہوں۔
یکم ربیع الاول کے اجتماع کی اہمیت اور تشیع کے مستقبل پر اس کے مثبت اثرات ہر عام وخاص پر آشکار تھے، یہی وجہ ہے کہ اس کے التوا کا فیصلہ، بزرگوں کے احترام اور ان کی سمجھ بوجھ پر اعتماد کی وجہ سے قوم نے قبول تو کرلیا مگر ذہنوں میں کہیں نہ کہیں اس کے اسباب جاننے کے جستجو ضرور موجود رہی، اگرچہ میری نگاہ میں بزرگوں کے فیصلے کے سامنے تسلیم ہونا اطاعت شعار قوم ہونے کی علامت ہے، اسی وجہ سے اتنے دن گزر جانے پر اسباب کے حوالے سے کسی قسم کی تحریر نہیں لکھی، مگر دوستوں کے مسلسل سوالات اور اصرار پر اپنی سمجھ کے مطابق چند نکات پیش کررہا ہوں۔
سب سے پہلے یہ نکتہ آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ بل کی حیثیت اور کیفیت جس کے بارے میں کم ازکم 50 فیصد یہ احتمال تھا کہ منسوخ ہوچکا ہے۔ اگرچہ بعض احباب جو صدر مملکت سے ملاقات کر چکے تھے ان کی معلومات کے مطابق یہ تنسیخ 100 فیصد ہو چکی تھی لیکن کسی کے پاس کوئی یقینی مستند ثبوت نہیں۔ قرائن اور اشارے اس بات کے ضرور ملتے ہیں کہ بل منسوخ ہوچکا ہے، ان میں سیاسی حضرات کے پیغامات، فضل الرحمان یا لدھیانوی جیسوں کی تقاریر سب سے مجموعی طور پر منسوخ ہونے کا احتمال 70 فیصد تک جا پہنچتا ہے اور آج دن تک 30 فیصد احتمال تنسیخ نہ ہونے کا اپنی جگہ برقرار ہے جس پر بھی شواہد اور قرائن موجود ہیں، جیسے دونوں ہاوسز سے پاس ہونے کا طریقہ کار، اسلامی نظریاتی کونسل میں اس کو عجلت اور ووٹنگ سے پاس کروانا، تکفیری ٹولے کی خاموشی وغیرہ کہ جن کو پوری تفصیل سے یہاں ذکر نہیں کیا جا سکتا۔
دوسرا نکتہ جو لائق توجہ ہے وہ یہ کہ یکم ربیع الاول کا اجتماع اعتراض نہیں تھا بلکہ یہ اجتماع اعتراض کا جواب مانگنے آ رہا تھا، دوسرے لفظوں میں 16 اگست کے اجتماع کے ذریعے اس بل کے متنازع اور ناقابل قبول ہونے کا جو اعلان تشیع کی جانب سے کیا گیا تھا، اس اعتراض کے جواب کے لیے مقتدر حلقوں کو یکم ربیع الاول تک کی مہلت دی گئی تھی کہ وہ اس عرصہ میں اپنے اس عمل کو درست کرلیں۔ یہ بات سمجھنے کہ بعد پہلا سوال جس کا اس اجتماع یا ذمہ داروں کو سامنا تھا وہ یہ ہے کہ جواب کس سے لیا جائے گا؟
اب ایسی صورت میں یہ احتجاج صدر مملکت کو مخاطب کرنے کا حق ہی نہیں رکھتا کیونکہ صدر مملکت تو یہی جواب دیں گے کہ میں تو پہلے ہی منسوخ کر چکا ہوں، دوسرا کیا اجتماع فوج کو مخاطب کرتا تو پہلے پہل یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ ہم جمہوری قوتیں ہیں اور جمہوری لوگ ہیں ہم کو جمہور کے نمائندوں سے ہی بات کرنی چاہیئے، بالفرض بات کی بھی جائے تو ان کے آلہ کار یعنی اسمبلی موجود نہیں جن کے ذریعہ آپ کے دباؤ کے نتیجے میں وہ کوئی ترمیم کروا سکیں، یعنی ان کے پاس معقول جواب ہوگا کہ اس صورت حال میں ہم کیا کر سکتے ہیں اور دوسرا یہ بھی جواب دیا جا سکتا تھا کہ صدر مملکت نے منسوخ کردیا ہے۔ پھر کیا جواب لیتے؟
ایک اور بات جو تمام ذمہ داروں کو درپیش چیلنجز میں ایک یہ بھی تھا کہ ماحول میں جو گرمی اور نفرت کا جو بازار برپا ہے اس میں اصل فائدہ کون اٹھائے گا؟ ظاہر ہے تکفیری جماعتوں کا وجود ہی اختلاف اور نفرتوں کا چورن بیچ کر چلتا ہے، جنگی ماحول اور ٹکراؤ کی کیفیت ان کے لیے بہترین تھی اور ان کے سہولت کار بھی یہی چاہتے تھے اور جس قسم کا ولولہ ہمارے ہاں جوانوں میں پایا جاتا کچھ بعید نہیں کہ یہاں 9 مئی کی طرح کا ٹریپ بنایا جاسکتا تھا اور باخبر ذرائع اس سازش کی خبر رکھتے ہیں، بہرحال کم از کم احتمال ضرور تھا۔
میری ملت کے جوانوں کو ایک بات یاد رکھنی چاہیئے کہ اگر بزرگان ملت اس تمام صورتحال کے باوجود لوگوں کے جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پروگرام منعقد کرتے، جواب نہ بھی ملتا تو کم از کم قوم میں تو ان کی بلے بلے ہو جاتی، چھا گیا کے نعرے لگتے اور بہت سے لوگ حتیٰ ان کے نام سے ان دنوں کتنا کما بھی لیتے، خود انہیں بھی اچھا خاصا فائدہ ہو سکتا تھا لیکن یہ سب کچھ شخصی یا تنظیمی فائدہ میں تو ہوتا لیکن قوم کے لیے نقصان دہ تھا، اس کے برعکس التوا کے نتیجے میں بزدلی، بک جانا وغیرہ کے نعرے سننے پڑتے لیکن دانشمندی یہی تھی کہ قوم کو ہر معاملے میں ترجیح دی جاتی، یہی کام بزرگان ملت نے کیا جس کے لیے وہ لائق تحسین ہیں۔
ہمیں بحیثیت قوم 16 ستمبر کی فضا کو برقرار رکھنا ہے۔ ابھی بل کی واپسی کا مرحلہ سر ہوا ہے ابھی عشق کے اور بھی کئی امتحان درپیش ہیں اور ان امتحانوں سے ہم اتحاد و وحدت کے ذریعے سے سرخرو ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ قومی تنظیموں اور اہم شخصیات نے یکم ربیع الاول کے احتجاج کی کال کو ملتوی کرنے کو خوش آئند قرار دیا ہے، تاہم معاشرے میں ایسی چند آوازیں موجود ہیں جو اس فیصلے کو غلط کہہ رہی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ مخالفین کے اجتماعات اور رجز خوانی دیکھ کر کچھ مزید لوگ اس فیصلے کے غلط ہونے کی بات کریں تاہم ہمیں صبر سے کام لینا ہے، بزرگ علماء کی فہم و فراست پر اعتماد کرنا ہے جو یقیناً اس حساس معاملے پر قوم و ملت کو مایوس نہیں کریں گے۔