نومبر 24, 2024

اخلاقی حدود سے تجاوز نہ کیا جائے

تحریر: قادر خان یوسفزئی

ایک بار میں نے ایک معروف اینکر کو برا بھلا کہہ دیا اور میرے پاس جتنے بھی اینکر پرسن و میڈیا جرنلسٹ گروپ لسٹ میں تھے اُن سب کو بھی اپنا طویل اظہاریہ وجوہ کے ساتھ بذریعہ ای میل بھی ارسال کر دیا۔ واضح رہے کہ مجھے اسی نجی نیوز چینل کے معرف اینکر نے اکسایا تھا، جس پر مجھے غصہ آیا۔ 2012ء کے اس واقعہ کو میں اب بھی اُسی طرح یاد کرتا ہوں جیسے یہ کل کی بات ہو۔ مجھے صبح سویرے بنا ناشتا اور ناسوار جذباتی طریقے سے نشتر چبھوئے گئے۔ جذبات میں بھڑک کر راقم نے صبح سات بج کر 33منٹ پر پہلی ای میل کی اور پھر غلطی کا احساس ہوتے ہی اگلے پانچ منٹ بعد ہی جرگہ سے قبل معافی مانگی کہ میرا عمل درست نہیں تھا مجھے آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا متعلقہ اینکر نے کسی حسن ظن سے کام نہیں لیا او ر میرے کیرئیر کو شدید ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ لندن کے معروف عالمی نشریاتی ادارے کے کئی صحافی نے بھی میری ای میل پر شکوہ کی اور تحمل کا مشورہ دیا۔ لیکن کیا کرتا، منہ سے نکلی بات اور ای میل سے نکلا ’ تیر‘ واپس نہیں آتا۔ قصہ مختصر کہ یہ ایک جذباتی لمحہ تھا کہ جس کے استعمال پر مجھے احتیاط برتنی چاہیے تھی اور اس کا افسوس آج بھی ہے۔ اب اس کی کیا وجوہ تھی اس کے پس منظر میں جانا مناسب نہیں۔ مقصد صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ سیاسی ہو یا صحافی ہو۔ گر رعونت آجائے تو اَنا کا بڑا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔
دور حاضر کے الیکٹرانک چینلز میں بعض تجزیہ نگاروں کے تبصرے سنتا ہوں تو سمجھ نہیں آتا کہ آیا صحافت سے وابستہ شخصیت مدعو ہیں یا پھر کسی سیاسی جماعت کا جنگجو۔ پھر بعض سیاسی جماعتوں کے مخصوص لیڈروں کی تقاریر سنتا ہوں تو بیشتر کے اندازِ بیان سے ایسا لگتا ہے کہ ’ منٹو‘ زندہ ہوگیا ہے اور ’ اختر شیرانی‘ شعر گوئی کر رہا ہے۔ ویسے تو ایسی کئی نابغہ روزگار شخصیات سوشل میڈیا میں موجود ہیں کہ ان کی پوسٹ پڑھ کر ڈریسنگ روم میں بھی پسینہ آجاتا ہے۔ لیکن یقین کریں کہ ان کے لفظوں کے انتخاب میں اعلیٰ ادبی ذوق موجود ہوتا ہے۔ سعادت حسن منٹو، میرا جی اور اختر شیرانی کو تو چھوڑیں، بابا ئے نفسیات ’ سگمنڈ فرائڈ‘ اور اوشو بھی ان کے آگے پانی بھرتے نظر آئیں۔ یہ الگ بات ہے، منٹو، میرا جی، چغتائی اور شیرانی کے ادب کو فحش گوئی قرار دیا گیا لیکن اب انہیں اردو کا عظیم اثاثہ قرار دیا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ میرے کئی دوسرے احباب کی نگار شات بھی کبھی تاریخی اثاثہ بن جائیں۔ میں اُن بے ہودہ ہش ٹیگ کی بات نہیں کر رہا جس کو دیکھ کر شرمائیں ہنود۔
ایک سیاسی جماعت کے لیڈر نے جب دوسری جماعت کے سیاسی کارکنان کو ’’ گدھا‘‘ کہا تو بے ساختہ منہ سے برا بھلا نکل گیا۔ مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کہ میں اس کے لئے کیا لفظ استعمال کروں۔ لاکھوں افراد ان کو جبراََ سنتے تھے۔ اسی طرح ایک بے روزگار شخص کی ذریعہ آمدنی بینک سے ملنے والے ’’ سود‘‘ ( منافع) پر تکیہ ہے۔ مجھے اس شخص کے ماضی سے کوئی کام نہیں۔ حال سے بھی کوئی واسطہ نہیں۔ مستقبل کا بھی نہیں سوچنا۔ کیونکہ ہر شخص اپنے قول و عمل کا خود ذمے دار ہے۔ مجھے کسی بات کا کوئی اثر اس لئے نہیں ہوتا کیونکہ خود میٹھا میٹھا ہپ ہپ کرنے والا کڑوا آنے پر تھو تھو کرنے لگتا ہے۔ مجھ سے کسی نے پوچھا کہ یہ صاحب پنجابی ہیں یا پٹھان؟۔ میں نے بغیر تامل کے فوراََ جواب دیا، بناسپتی۔
تاریخی نامور ترین ہستیاں اپنے مخالفین کی بد زبانیاں، ان کی جسارتوں کو خندہ پیشانی سے جھیل لیتی تھی۔ شاہ ایران جب کسی ’’ شہنشاہ‘‘ کو تلاش کرتا تو اُس کی نخوت پر خندہ پیشانی سے جواب دیا جاتا کہ ہمارے یہاں شہنشاہ نہیں ہوا کرتے، ’’ امیر‘‘ ضرور ہیں اور چشم فلک نے دیکھا کہ 27لاکھ مربع میل کے ’’ بلا شرکت غیرے سربراہ‘‘ حضرت عمرؓ کا سرہانا ایک اینٹ تھی، جس پر وہ آرام فرما رہے تھے، کوئی سیاسی یا موجودہ مذہبی شخصیت تو اس عظیم ہستی کے پائوں کی خاک بھی نہیں ہو سکتی۔ رب کائنات کی جانب سے حیاتی میں ہی جنت کی بشارت حاصل کرنے والوں کا موازنہ کسی پڑھے لکھے جاہل سے نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یقین جانئے بڑا دکھ ہوتا ہے کہ بعض سیاسی افراد جب اپنی دکان چمکانے کے لئے کبھی خواتین کو رسوا کرتے، تو کبھی انسانوں کی تذلیل تو کبھی مذہبی ٹچ سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اس پر مزید افسوس ہوتا ہے کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی من و عن آن ایئر کر دیتا ہے۔
یہ کوئی زیادہ پرانی بات بھی نہیں کہ میڈیا اقدار کا خیال رکھتا تھا۔ اخلاقیات کا پاس رکھتا تھا۔ لیکن اب سب کچھ بدل گیا ہے میں نے قلم کی طاقت سے دہشت گردوں کو سرنگوں ہوتے دیکھا۔ لیکن اب قلم کی طاقت کو مفادات کے ترازو میں تولنے کا رواج پروان چڑھنے لگا ہے۔ میڈیا، سیاست دانوں کی مجبوری اور اس طوطے میں ان کی جان ہے۔ التماس ہے کہ کوئی سیاسی لیڈر جب اخلاقیات کی حدود پامال کریں تو اس کو حد سے نہ بڑھنے دیں۔ عوام گالیاں نہیں موقف سننا چاہتی ہیں۔ الزامات نہیں ثبوت پر مبنی حقائق پڑھنا اور دیکھنا چاہتی ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ بس ایک بار ان سب کو لگام دے دیں۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

one × one =