نومبر 24, 2024

نام نہاد توہین صحابہ بل، میچ دلچسپ مرحلے میں داخل

تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

دنیا میں مذہب ابتداء خلقت کے ساتھ ہی آیا ہے، بلکہ اللہ نے پہلے ہادی کو پیدا کیا، پھر ان کی نسل سے انسانیت کو تخلیق کیا۔ ہمارے استاد محترم ڈاکٹر ضیاء الحق یوسف زئی تقابل ادیان کی کلاس میں پڑھایا کرتے تھے کہ دنیا میں آج تک کوئی ایسی بستی دریافت نہیں ہوئی، جس کا کوئی نہ کوئی مذہب نہ ہو۔ مذہب انسان کی فطری ضرورت ہے اور کوئی بھی عقل و دانش رکھنے والا انسان مذہب کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتا، جو بھی زندگی گزارنے کے اس کے اسلوب ہوں گے، وہی اس کا مذہب کہلائیں گے۔ مذہب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی اصل تعلیمات سے ہٹ جاتا ہے اور اس میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں، جو اس کی روح کے خلاف ہوتی ہیں۔

تقدس کا دائرہ اتنا پھیلتا ہے کہ کلیسا کے پادری کے گھر کی اینٹیں بھی مقدس ہو جاتی ہیں۔ یہ اتنا طاقتور پہلو ہے کہ دنیا پر حاکم رہی برطانوی تہذیب کا بادشاہ بھی مذہب کے نمائندے کے طور پر سامنے آتا ہے۔ چرچ کے اس غیر ضروری تقدس اور اس پر مسلسل اصرار اور سزاوں نے معاشرے میں پہلے کلیسا کے خلاف نفرت کو جنم دیا اور پھر یہی نفرت خود مذہب کے خلاف ہوگئی۔ آج مغرب میں خود مذہب کے اصل مقدسات ہی ختم کر دیئے گئے اور یہ ایک الگ تشدد ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ آج تورات، انجیل اور قرآن جلانا کوئی جرم نہیں ہے۔

مفتی حنیف قریشی صاحب بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر آپ کو ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے جیو ٹی وی کے ماہ مبارک رمضان میں نشر ہونے والے پروگرام یاد ہوں تو ان میں مفتی صاحب باقاعدگی سے تشریف لاتے تھے۔مفتی صاحب اپنے مسلک کے جید عالم دین ہیں، ہماری ان سے ملاقات ان ایام ہوئی تھی، جب مفتی حنیف قریشی اور مشہور اہلحدیث عالم طالب الرحمن کے درمیان مناظرہ طے تھا اور وہ جامعۃ الکوثر تشریف لائے تھے۔ انہوں نے کتب خانہ سے کافی استفادہ کیا اور پھر یہ مناظرہ مفتی صاحب جیت گئے۔ اس سے مفتی حنیف قریشی صاحب اپنے مسلک کے ہیرو بن گئے اور  پھر قومی چینلز پر آنے لگے۔

اس کے ساتھ ساتھ مفتی صاحب محبت اہلبیت رسولﷺ کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔ ان کا بنو امیہ کے حوالے سے ایک موقف ہے اور جو امت کا موقف ہے، وہ حضرت علیؑ کے خلاف جنگوں میں آنے والوں کو احادیث نبویﷺ کی روشنی میں انہی عناوین کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ کافی عرصہ سے ناصبی مزاج لوگوں کے حملوں کی زد میں رہتے ہیں۔ مفتی صاحب بہرحال اس کی پرواہ نہیں کرتے اور حق بیان کرتے رہتے ہیں۔

ان کی شہرت اور عوام میں ان کی مقبولیت نے کچھ نام نہاد پیروں اور مدارس پر قابض ناصبیت پسند عناصر کو پریشان کیا ہوا ہے کہ ان کی دکان داری کے لیے خطرہ ہے۔ اس لیے وہ ان کے خلاف محاذ بنانے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے۔ ابھی ان کی ایک بالکل نجی گفتگو کو جس میں وہ عمرو بن عاص کے حوالے سے ایک موقف کا اظہار کر رہے ہیں، اسے ریکارڈ کرکے ان کے خلاف ایف آئی آرز کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ مفتی صاحب نے بھی اپنی بات سے رجوع کا اعلان کرکے معذرت کر لی ہے۔ مگر وہ معذرت ہی کیا جو قبول ہو جائے۔انتہاء پسندوں کو ان کی معذرت کسی صورت میں قبول نہیں تھی بلکہ وہ تو اس کی تلاش میں تھے۔ فوراً تھانے پہنچے اور ایف آئی آر کی درخواست دے دی۔

اب بدقسمتی یہ ہوئی کہ جو مولانا ایف آئی آر درج کرانے آئے، انہیں میڈیا ٹاک کا شوق چڑھا، جس کے عملی اظہار کے لیے شعلہ بیانی شروع کر دی۔ ان کا جوش بڑھتا گیا اور آخر میں انہوں نے یہ کہہ دیا کہ ہم عمرو بن عاص کو نبی مانتے ہیں۔ یہ یقیناً سبقت لسانی ہے اور ان کا ہرگز عقیدہ نہیں ہے، مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ بریلوی مسلک کے لوگ اسی تھانے میں پہنچے اور ان مولانا کو ختم نبوت کو منکر قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف ایف آر کی درخواست دے دی ہے۔ یوں یہ مسئلہ دیوبندی بریلوی چپقلش کا باعث بن گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر گستاخی گستاخی کا رن پڑ چکا ہے۔

ہم اہل اسلام کی خدمت میں بار بار عرض کرچکے ہیں کہ گستاخی گستاخی کا یہ کھیل بند کیا جائے اور ہر مسلک پرامن بقائے باہمی کے اصولوں کے مطابق ایک دوسرے کے لیے دل آزاری کا رویہ ترک کر دے۔ قانون کے زور پر کسی کو مقدس منوانا ممکن نہیں ہے، یہ دلیل کی بنیاد پر دل سے تسلیم کرنے کا معاملہ ہے۔ دوسرا اسلام کے مقدسات محدود اور معین ہیں، آپ ان میں اپنے لیے جو مرضی اضافہ کر لیں، دوسروں پر اس کو مسلط نہ کریں۔ اس موقع پر میں شیعہ علماء کی بصیرت کو داد دیتا ہوں، انہوں نے بہت بروقت متوجہ کر دیا تھا کہ یہ بل بہت خطرناک ہے۔ اس بل سے پاکستان میں فرقہ واریت میں اضافہ ہوگا۔

اس میں صحابی کی تعریف اور توہین کیا ہے، یہ واضح نہیں کیا گیا۔ ہر مسلک کی اپنی تعریف اور توہین کی اپنی تشریح ہے۔ اسی طرح یہ قانون ارادہ کے ساتھ اور ارادے کے بغیر محض سبقت لسانی میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ آج مفتی حنیف قریشی صاحب جن کا تعلق بریلوی مسلک سے ہے اور دیگر مولانا جو دیوبندی ہیں، وہ اس کی زد میں ہیں۔ آپ تصور کریں کہ ان دونوں حضرات کو اس بل میں پاس کیے گئے قانون کے مطابق عمر قید کی سزا ہو جاتی ہے تو کتنا بڑا ظلم ہوگا۔

ہمارے عزیز مفتی امجد عباس صاحب نے درست لکھا کہ اسلام میں اتنی لمبی قید کا کوئی تصور نہیں۔ اسی طرح تعزیز حد سے کم ہونی چاہیئے، یہ بل ان دونوں باتوں کے خلاف ہے۔ اب بھی تمام مسالک کے علماء کو چاہیئے کہ اپنے لیے مسائل پیدا نہ کریں، یہ آگ ہر کسی کے گھر کو جلائے گی۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کے زعم میں شیعوں کے لیے لایا گیا یہ قانون آپ کی کسی سبقت لسان کی وجہ آپ کے گلے پڑ جائے تو جناب کھیل دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

2 + 3 =